ہڑپہ کے آثارِ قدیمہ بہت مشہور ہیں۔ آثار قدیمہ (آرکیالوجیکل سائیٹ)کو بلوچی میں ”دَمب“ کہتے ہیں۔میں حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ ہڑپہ کا دمب کئی میل پر پھیلا ہوا ہے۔ظاہر ہے کہ سارے رقبے کی کھدائی توبہت پیسہ اور بہت مہارت مانگتی ہے۔ اس لیے اِن آثار کی صرف تھوڑی مگر سلیکٹڈ جگہوں کی کھدائی کی گئی تھی۔ ایک جاری وساری پراجیکٹ کے بطور تحقیق وکھدائی اور مرمت و preservationکا کام ہمہ وقت ہورہا ہوتا ہے۔اسے اچھا خاصا محفوظ رکھا گیاہے۔ یہاں تک کہ چاردیواری سی بھی موجود ہے۔ تحقیق اور سیاحوں کے لیے سائنس دان، گائیڈ اور عملہ حاضر ہے۔ یہاں ایک اچھا میوزیم قائم ہے۔جس میں آثارPreserved اور باقاعدہLabelled ہیں۔
ڈائریکٹر میوزیم، جناب محمد حسن نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور وہیں گیٹ کے پاس سیڑھیوں کی بلند ترین صف پر کھڑے ہو کر ایک لیکچر نما تقریر کردی۔ بہت گہری،اور معلوماتی گفتگو۔ سوالات کے جوابات تھے۔ تبصروں پہ اثبات یا عدم اتفاق تھا، مثالیں اور حوالے تھے۔ یوں ہم ایک بھر پور سائنسی سیشن انجوائے کر چکے اور ہمیں تاریخی حقائق سے خوب آگا ہی ہوئی۔
پھر ہمیں دَمب میں گھمایا گیا۔ یہ محض ایک وزٹ یاچکر نہ تھا، سمجھیں ایک پہر کا سفر تھا۔ دانشوروں میں بزرگ اور ناتواں بھی تھے اور جوان و محنتی بھی۔ چنانچہ اس بڑے گروہ میں سے تھکنے والے تھک کر درختوں کے نیچے ”منرل واٹر“ کی بوتلیں خالی کر رہے تھے۔اور سیکھنے والے جھولیاں بھر بھر اپنی یادداشت کے مشکیزوں میں انڈیل رہے تھے۔ حسن صاحب ہر سوال کا مدلل جواب دینے اور رہنمائی کے لیے ساتھ ساتھ تھا۔
جب بھی آپ ہڑپہ، موہن جوداڑو اور مہر گڑھ کے متعلق بات کر رہے ہوتو کنجوسوں کی طرح پانچ چھ سو سالوں کی بات نہ کریں۔ ہزاروں برسوں میں جائیں۔ہم محبوب اور برگزیدہ لوگ ہیں کہ فطرت کی زبردست سخاوت ہوئی ہے ہم پر۔ہم بارکھان کی ”روڈھو سی ٹس بلوچستانی سِس“نامی وہیل مچھلی (4کروڑستر لاکھ سال)کے مالک ہیں۔ ڈیرہ بگٹی کا بلوچی تھیریم (ساڑھے تین کروڑ سال) مہر گڑھ (گیارہ ہزار سال)، پیرک (چار ہزار سال)، موہن جو دھڑو چار ہزار سال)، اور ہڑپہ (دو ہزار چھ سو سال)،کے امین اور مالک لوگ ہیں۔
ہم پہ البتہ ایک بہت بڑاظلم یہ ہوا ہے کہ ہمارے مورخ، اور دانشور بہت پالتو،بہت متعصب اور بہت تنگ نظر تھے۔ نصاب سازوں کے ہاتھوں بنے نصاب میں ابھی تک ہمیں یہیں کہیں قریب گھمایا جاتا رہا ہے۔ اُن بے چارے کاہل وجاہل نصاب سازوں کو دُور نہ دیکھ سکنے کی بیماری ہے: مایو پیا نامی بیماری۔ یہ لوگ غزنوی غوری سے آگے دیکھنے کی نعمت سے محروم تھے۔ دولے شاہ دربا رکی یہ مخلوق زیادہ سے زیادہ دو ڈھائی ہزار پیچھے کوئی فرضی دراوڑ یا پھر آریا گھڑ کے اپنے زنگ آلود دماغوں کی گال پہ پٹختی رہی ۔
اِن بے تاریخ نصاب سازوں نے ہماری نسلوں کو اُن کی تاریخ سے کاٹ کر کبیرہ گناہ کیے ہیں۔ حلب اور کیسپین گھما کر اِن نقلی اور ”سلیکٹڈ“ لکھاریوں نے اپنی دانست میں ہماری تاریخ کو پستول سے قتل کر دیا۔ مگر مکافاتِ عمل میں اُن کے اپنے جغرافیہ کو توپ کے گولے لگے۔ اُن کی آنکھوں کو، اُن کے دماغوں کو، اور اُن کی عقلوں کو مردار خوری کے باوجود پیٹ نہ بھرنے کی بیماری لگ گئی۔
انہوں نے اپنی کھوئی شناخت پہ اپنے سینوں پہ دوہتھڑ مار کرمرثیے کہنے کے بجائے اوروں کی شناخت پر چاند ماریاں کیں۔ شناخت تو بیالوجیکل معاملہ ہے۔ انہوں نے اُسے بھی نظریاتی بنالیا۔ انجام؟۔انجام یہ کہ ان کا ہر مصنوعی بند ٹوٹتا چلا گیا۔ ان کو وسعت واطمینان نصیب نہ ہوا۔ ہم ہی رہ گئے۔ ہماری ثقافت رہ گئی اور ہماری تاریخ رہ گئی۔
ایک اور کام بھی ہوا۔آرکیالوجی نے بھی، ایک سو سال تک ہمارے تاریخ دانوں کو خوب چکر دیے۔ ہوا یہ کہ موہن جو دھڑو اور ہڑپہ تو دریافت ہوگئے۔ اور اس طرح چار ہزار سال قبل کی تاریخ تو مل گئی۔ مگر موہن جو دھڑو اور ہڑپہ کا منبع مہر گڑھ مٹی کے نیچے چھپارہا۔ گیارہ ہزار سال پیچھے کا سراغ نہ مل سکا تھا۔ہمیں ہڑپہ اور موہن جو دھڑو، کی صورت ایک ایسا درخت ملا جس کا تنا تو موجود تھا مگر جس کی جڑیں دریافت نہ ہوئی تھیں۔ لہذا ”ماہرین“ خواہ انگریز ہوں یا یہاں کے، سب کے سب تناکو ہی جڑ سمجھ بیٹھے۔ کسی نے اُسے آریا کہا، اور تاریخ کو کسپین یا ترا کرائی،کوئی دراوڑ کی فرضی دستار گھڑنے لگااور اپنی تحریر کے ساتھ ہمیں زنجیبار کے طواف کرانے لگا۔
بلوچستان کی طرف آرکیالوجسٹوں کا رُخ بھی اسی نیت سے ہوا تاکہ وہ مغرب کی طرف ہڑپہ کے ”اثرات“ اور اولاد تلاش کریں۔ ظاہر ہے وہ یہی سوچ سکتے تھے۔ اُن کے خیال میں ہڑپہ ہی قدیم ترین تھا۔ اور اس کی آئندہ کی شاخیں تلاش کرنی تھیں۔ چنانچہ 1960کی دہائی میں فرانس کے ایک مشن نے بلوچستان میں کھدائی شروع کی۔اس مشن میں ڈاکٹر فرانکوئس جیرج (Dr. francois jarrige)اور اس کی بیگم ڈاکٹر کیتھرائن جیرج بھی شامل تھے۔ وہ ”ہڑپہ“ تلاش کرنے وسطی بلوچستان میں اورؔ ناچ کے علاقے چلے گئے۔ مگر 1973میں جب بلوچستان کے اُس علاقے کے حالات خراب ہوئے تو وہ ہڑپہ کی ہم عصر تلاش کرنے،مہر گڑھ آئے۔
اوریہیں وہ بگ بینگ ہوا جس نے ہمارے اب تک کے سارے تاریخ دانوں کو باطل ثابت کر ڈالا۔ ہوا یوں کہ مہر گڑھ کھدائی میں ہڑپہ کی ”شاخ نہیں بلکہ اُس کی جڑ“مل گئی۔ یعنی ہم پڑپوتے سے ہوتے ہوئے پر دادا تک پہنچ گئے۔ یہ پر دادا نہ صرف آرکیالوجی میں اس خطے کا پردادا ہے،بلکہ سوشیالوجی، انتھروپالوجی، اکنامکس، اور تھیالوجی میں بھی۔
ہڑپہ کا شجرہ ِ نسب
۔1۔ پرداد ا،مہر گڑھ
اب تک کی تخلیق کے مطابق درہِ بولان کے دھانے پہ واقع مہر گڑھ دنیا بھر میں تہذیب کا قدیم ترین پنگھوڑا ہے۔یہ سورج دیوتا کو ماننے والے لوگ تھے۔ 9000 سال ہزار قبل مسیح یہ علاقے انسانی آبادی کے اولین مقامات تھے۔ لہٰذا یہ لوگ نہ صرف پاکستان اورجنوبی ایشیاء میں،بلکہ پوری دنیامیں قدیم ترین کلچر اور تمدن کے علمبردار تھے۔یہ اینٹوں سے منصوبہ بند مکانات بناتے تھے۔ مکانات کے نیچے تہہ خانے موجود تھے۔ وہ سٹوریج سہولتیں رکھتے تھے۔ اور اناج کا گودام بھی ہوتا تھا۔ یہاں ایک باقاعدہ ڈرینیج نظام ہوا کرتا تھا۔
مہرگڑھ اپنے مردے دفن کرتا تھا۔ چنانچہ قبرستان موجود ہوتا۔کھیلوں میلوں اور محفلوں کے لیے میدان مخصوص تھے۔
مہر گڑھ 9000 ق م سے لے کر 2000 ق۔ م تک آباد رہا، جی ہاں سات ہزار سال تک۔ چونکہ یہ تہذیب کبھی تباہ اور ختم نہ ہوئی۔اس لیے محفوظ طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ہم بنیادی طور پر اُنہی لوگوں کی آل اولاد ہیں۔
مہر گڑھ کا زمانہ‘ بہت عرصہ تک پتھر کا زمانہ رہا۔جیالوجی کی زبان میں اسے Neolithicکہتے ہیں۔مہر گڑھ نے اِس Neolithic انقلاب کے تقریباً ہر مرحلے کو دیکھا ہے۔
انسان نے پتھر کو پتھر سے ٹکرا ٹکرا کر پتھر کے اوزاربنائے۔ ظاہر ہے کہ اِن ابتدائی پتھر والے اوزاروں کی سطح کھردری رہی، اور یہ کسی بھی طرح خوبصورت اور جاذبِ نظر نہ تھے۔
یہ اوزار انسان کی مادی زندگی میں بہت ہی اہم تبدیلیوں کے ساتھی ہیں۔ ایک بار جب اوزار بننے شروع ہوئے (خواہ کتنی ہی ابتدائی صورت میں) تو پھر زمین اُن سے اپنی کاشت کا رقبہ اور کوالٹی بڑھواتی جاتی ہے، جو پھر انسان کو مجبور کرتا ہے کہ اوزار وں کو مزید بہتر اور تعداد میں زیادہ بناتا جائے۔
مہر گڑھ کو مندرجہ ذیل ادوار میں تقسیم کیا گیاہے:
۔1۔ نیم خانہ بدوش زمانہ،یعنی 9000 – 6000 ق م۔ یہاں زراعت کی اولین نشانیاں ملی ہیں جن میں دالوں کی باقیات ملی ہیں۔ سات ہزار سال قبل مسیح میں کھجور کی فصل کی ابتداء یہیں سے ہوئی تھی۔ یہیں پر جَو کے دانے ملے ہیں۔
زراعت نے لگتا ہے جانوروں کو پالتو بنا کر،انھیں گھر میں پالنے کے عمل کو تیزی بخشی۔ بکریاں تو پہلے ہی پالتو بنا دی گئی تھیں، اب کے پکڑے گئے جنگلی گائے بیل کو بھی پالتو بنا کر اس کی نسل بڑھانے کا عمل شروع ہوا۔
اُس دور میں استعمال ہونے والی ہڈیوں کے بنے اوزار بھی یہاں ملے ہیں۔مہر گڑھ میں جانوروں کی پشم سے کپڑا بُنا جاتا تھا۔ اس ابتدائی دور میں کپڑا بننے کے آثار بھی ملے ہیں۔
لوگ اپنے مُردوں کو دفن کرتے تھے۔اُن کے ساتھ اُن کے زیورات (خوبصورت پتھر کے منکوں کی مالائیں اور سیپ، گھونگے کے زیورات) بھی دفن کیے جاتے تھے۔مہر گڑھ کے لوگوں کی قبریں مشرق سے مغرب کی جانب ہوتی تھیں۔ مردے کو قبر میں بائیں پہلو لٹایا جاتا تھا۔اس کا سر مشرق کی طرف ہوتاتھا اور چہرہ جنوب کی طرف۔ ہاتھ اور ٹانگیں سیدھی نہ ہوتی تھیں بلکہ مختلف زاویوں میں مڑی ہوئی ہوتی تھیں۔ (1)
قبروں میں مردے کے صرف اوزار ہی دفن نہیں کئے جاتے تھے بلکہ ذبح کئے ہوئے جانور بھی ساتھ رکھے جاتے تھے۔
۔2۔سوتی کپڑے کا مہرگڑھ(-5000 4000 ق م)۔یہاں اب مہر گڑھ کا انسان سوتی کپڑے پہنتا تھا جبکہ باقی دنیا ابھی پشم پوش تھی۔
مہر گڑھ ہی میں اسی زمانے میں دستی برمے اور کمہارکے چاک انسانی استعمال میں آ چکی تھیں۔ یہاں دلکش نقش و نگار سے سجے ہوئے خوبصورت برتن تیار کئے گئے۔
5000ق۔ م کے ملنے والے برتن عورتوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ مادر نسبی اور اشتراکی نظام کے اس آخری مرحلے میں چاک پر برتن بننے شروع ہوتے ہیں۔ یہ گویا اس بات کا اظہار ہے کہ سماج میں طاقت کاتوازن عورت کے ہاتھ سے نکل کر مرد کے ہاتھ میں منتقل ہو گیا اور سماج میں اونچ نیچ پر مشتمل طبقات کاآغاز ہو گیا۔
۔3۔(مہرگڑھ کانسی کا دور 4000- 3200 قبل مسیح)۔یہ ایک اہم ٹیکنالوجیکل ترقی تھی۔ یوں پتھر واحد انسانی اوزار کے بطور اپنی طویل اہمیت کھو بیٹھا۔
کانسی کے زمانے کی شناخت یہ ہے کہ اس میں سپیشلائزڈ صنعتیں آئیں اور ایک عمومی منظم تجارت آئی۔
جن لوگوں کو یہ خصوصی کان کنی کرنی پڑتی تھی انہیں خوراک کی پیداوار کے کام سے تو فارغ کرناتھا، اسی طرح کاٹنے والوں کو بھی، اور لوہاروں کو بھی۔ سماج نے ایسا کرنے کے لئے زائد خوراک پیدا کی۔ نسبتاً دور دراز واقع دھات کے معدن بھرے پہاڑوں سے کچ دھات کی ٹرانسپورٹ کی مدمیں زائد خوراک کا ایک حصہ وہاں شفٹ کرنا تھا۔اس طرح شہر (یا گاؤں) بڑا ہوا جہاں ثانوی صنعتیں قائم ہوئیں اور بیرونی تجارت ہونے لگی تھی۔ دستکاروں، تاجروں، ٹرانسپورٹ کارکنوں، اہل کاروں، سپاہیوں اور ملاّؤں کی اچھی خاصی تعداد کو کاشتکاروں، چرواہوں اور شکاریوں کی طرف سے پیدا کردہ زائد خوراک مہیا کرنا تھا۔
مہر گڑھ نے ایسا ہی کیا۔ اس مرحلے (4300۔3800 ق م) کے ظروف یہاں 75 ہیکٹرز پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یعنی آبادی اور آباد کاری اچھی خاصی پھیل چکی تھی۔
اس ضرورت نے تجارت بڑھوائی، تجارت نے پھردنیا بھر کے مہر گڑھوں کو باہم مربوط کیا۔ کسان آبادیاں خانہ بدوش قیمتی پتھر فروشوں کو اناج بیچنے لگیں۔ لہٰذا منکے اور مالائیں بلوچستان کے اولین فرد کے لیے خوراک کا درجہ رکھتی تھیں۔ تانبہ اور کانسی کی دریافت نے اناج اور منکوں کی پیداوار (کھدائی سے) میں اضافہ کردیا۔ لہٰذا سائنس‘ ضرورت کی وجہ سے عملی دستکاریوں سے ہوتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔
۔4۔نقل مکانی کرتا ہوا مہر گڑھ، (3800 ق م)۔
یہاں مہر گڑھ کی آبادی زوال پذیر ہونا شروع ہوئی۔مہر گڑھ کی آبادی کی آخری نشانیاں اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ یہاں کے باسی اپنی بستی آہستہ آہستہ خالی کرنے لگے تھے اور وہاں سے نقل مکانی کرنے لگے تھے۔ ان میں سے کچھ مہر گڑھ کے جنوب میں نو کلو میٹر دور ایک چھوٹی بستی ”نو شیرو“میں آباد ہو گئے۔ باقی زرخیز وادی ِسندھ کو نقل مکانی کرگئے۔ اس لئے کہ موسمی تبدیلیوں کے باعث بلوچستان بنجرہوگیا تھا۔ہم ایک بار پھر دہراتے ہیں کہ مہر گڑھ تباہ نہ ہوا بلکہ نقل مکانی کر گیا۔
یہاں سے لوگ ہڑپہ اور موہن جو داڑو کے علاقوں کی طرف جانے لگے تھے۔ ہڑپہ کے لوگوں کے سر کی ہڈیوں اور دانتوں پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ مہر گڑھ سوئم کے لوگوں سے قریبی تعلق رکھتے تھے۔
اس دور کی ایک اور خاص بات ہے۔ اور یہ بات مہر گڑھ کے پچھلے ادوار سے مختلف ہے۔ اب ان لوگوں کی قبریں عموماً شمالاً جنوباً ہوتی تھیں اور اندر لاش کاچہرہ مغرب کی طرف ہوتا تھا۔ چاہے مردہ گھٹنے سکیڑے گٹھڑی بنا لیٹا ہوتا یا سیدھا، اس کا رخ مغرب کی طرف ہی ہوتا تھا۔ (2)۔یہ جو آج کل ہمارے خطے میں مُردے شمالاً جنوباً لٹا دیے جاتے ہیں اور اُن کا رُخ مغرب کی طرف کیا ہوتا ہے، ایسا ہم چھ ہزار سال قبل سے کرتے چلے آرہے ہیں)۔
۔2۔ہڑپہ کا دادا: پیرک (لوہے کا زمانہ)۔
مہر گڑھ کے لوگ جنوب کی طرف نقل مکانی کر گئے تھے، قریبی نوشیرو میں۔پھر، نوشیرو کی آبادی مزید جنوب کی طرف ہجرت کر گئی۔ یہ انسانی نسل ہمیں سندھ میں موہن جو دڑو اور سبی میں پیرک میں ملتی ہے۔ پیرک میں بھی یہ نسل ہستی سے مٹی نہیں بلکہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پیرک کے لوگوں نے اپنی مجبوریوں اور رضا سے پیرک میں رہائش ترک کر دی اور کسی اور مقام کو لاد چلے۔(3)۔
”پیرک“کو2200 سال قبل مسیح میں آباد کیا گیا تھا۔ یہ چاول پیدا کرنے والا وسیع مرکز تھا۔ یہ شہر2200 سے لے کر 1000 سال قبل مسیح تک تقریباً ایک ہزار برس تک آباد رہا۔
سائنس دان متفق ہیں کہ مہر گڑھ کایہ دور لوہے کا ابتدائی دور ہے۔ اس عہد کی کھدائی نے انکشاف کیا کہ یہاں ملنے والی چیزوں سے 80 فیصد لوہے کے عہد کی ہیں۔(4)یوں،یہاں پیرک میں انسان نے پتھر اور ہڈی والے زمانے کو دفن کر دیا اور بلند و برتر دھات یعنی لوہے کے استعمال کی ابتداء کر دی۔
۔3۔ہڑپ کا باپ موہن جو دھڑو
یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ اگر پڑپوتا ہڑپہ، بیٹا پیرک ہے اور اگر پردادا مہر گڑھ ہے، مہر گڑھ کا بیٹا پیرک ہے تو پھر یعنی ہڑپہ کاباپ اور مہر گڑھ کا پوتا کون ہے۔
وہ موہن جو ڈھڑو ہے۔
(جاری ہے)
حوالہ جات
۔Pterone, Pier Paolo: Mehrgarh:New Bio-Cultural
Evidence from the Neolithic Graveyard. in the
book,South Asian Archology, 1997, ROMA.صفحہ 287
۔یحییٰ امجد،”تاریخ پاکستان“قدیم دور۔ 1997، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، صفحہ نمبر 396
۔جارج، جین فرانکوئس۔Fouilles de pirak۔ انگریزی حصہ۔ 1979۔ پیرس۔ صفحہ 406
۔۔ جارج، جین فرانکوئس۔Fouilles de pirak۔ انگریزی حصہ۔ 1979۔ پیرس۔ صفحہ 361
ماہنامہ سنگت کوئٹہ