ترقی پسند فکر اور عصری تناظر ( ادیبوں کی ایک کانفرنس کے لیے لکھا گیا)

پیر کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ اس کا خلیفہ بھوکا، ننگا، اور تنگ دست رہے ۔ تاکہ وہ اُس کی روحانی محتاجی اور جسمانی چاکری میں ہی لگا رہے ۔ اور ہر نئے پرتجسس دکھ میں مزید خلوص سے اُسے مدد کو پکارتا رہے۔ سلسلہ دکھوں اور دعاؤں کا ، مزید دکھوں دعاؤں کا چلتا رہے۔ امریکہ پیر ہم اُس کا خلیفہ۔ پراسراریت میں لپٹی اُس کی ہر وار پہ ہم گر یہ بھری آواز میں اُس کی مزید عنایتوں کرامتوں کو آوازیں دینے لگتے ہیں۔
عقل ودانش سے لدے ہوئے پاکستانی دانشوروں نے سوویت یونین کی تحلیل پہ کل بغلیں بجائی تھیں ، مگر آج وہ تاسف سے بغلیں جھانک رہے ہیں۔ مگر ان کے بغل بجانے اور بغل جھانکنے کے دوران پاکستان میں ساٹھ ہزار ہم وطنوں کی ناقابل شناخت لاشیں اٹھیں، لاکھ سوا لاکھ افغان جان سے گئے۔ اور بلوچستان کے اعداد و شمار ہی ناممکن ہیں کہ یہاں گنتی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ کارپوریٹ دنیا کی ہر اٹھکیلی یہاں کوئٹہ کی ویمن یونیورسٹی کو آگ و بارود میں لپیٹ لیتی ہے، اور اُس کا ہر نیا تقاضا مساجد و امام بارگاہوں اور پشاوری سکول کو قبرستان میں بدل ڈالتا ہے۔ آؤ دعا کریں ۔ خدا کسی دشمن ملک کو بھی سیندک و ڈھونڈک و ریکوڈک و گوادر کی نعمتیں نہ بخشے کہ جس سرزمین پہ سونا تانبا اور گیس و تیل ہوں گے وہاں آسیب کا حتمی تاریک سایہ رہے گا۔سمندر سے گہری دوستی والا ’’ دوست ‘‘ گینتی بیلچہ لے کر دوست سمندر کا پیٹ پھاڑ رہا ہے ۔ ہمالہ سے بلند دوستی والے کو اس سے کیا غرض کہ آپ کتنی تکلیف میں ہیں۔ کیاآپ کو معلوم ہے کہ قرہ قلی ٹوپی کس طرح بنتی ہے؟ ۔حاملہ زندہ بھیڑ کا پیٹ چیر کر اس کا بچہ زندہ نکالا جاتا ہے اور اُس بچے کا چمڑا اُدھیڑ کر قرہ قلی ٹوپی بنتی ہے۔ امریکہ اور چین و سعودی کو ہر حال میں ہمارے بھیڑ کے بچے سے نہیں،خود ہم سے، یعنی انسانوں سے قرہ قلی ٹوپی بنوانی ہے۔
ماؤں سے کوئی پوچھے کہ اُن کے معصوم ننھے بچوں کے لیے قتل گاہ سجانے کی سزا کیا ہو ۔ کیا وہ مائیں قیامت کے دن نصیر اللہ بابر سے لے کر ضیاء الحق اور حمید گل تک اور اُس کے بعدآنے والے اُن کے ساتھی پالیسی سازوں کے لیے زبان پہ دو چار سانپ اور ایک دو بچھو لٹکانے کی سزا پر مطمئن ہوں گی؟۔

خواتین وحضرات: فکر روشن ہو یا تاریک، اُسے سوچتا اور پھیلاتا تو دانشور ہی ہے ناں۔ ذرا دیکھیے کہ یہاں پاکستان میں دانشوروں کی اکثریت بلکہ حتمی اکثریت کیا کرتی ہے؟۔ کم از کم پچاس ٹی وی چینلوں کے دانشور کیا کر رہے ہیں۔ ہر چینل پہ دس دانشوروں کی اوسط، کُل کتنے دانشور بنے۔ اردو اور دیگر قومی زبانوں کے اخبارات رسائل کتنے ہیں، اور ہر ایک میں صرف دس دس دانشور بھی لگائیں تو کتنے بنتے ہیں۔ علاوہ ازیں کم از کم پچاس برس سے ڈیرہ غازی خا ن کے ہائی سکول سے لے کر پنجاب یونیورسٹی لاہور کے جید دانشور اور مستقبل میں بننے والے دانشور یعنی طالب علم کس مکتب فکر سے تعلق رکھتے رہے ہیں۔
چنانچہ صورتحال یہ بن گئی کہ سکول اور مدرسہ نظامہا ئے تعلیم میں ہر طرح کا فرق مٹ گیا۔ ایک مخصوص طرزِ فکر کے نصاب و تعلیم کے نتیجے میں صورت حال یہ ہے کہ:
نمبر1۔ تاریخ میں، میں یعنی بلوچ آپ کی سرزمین کے، حریت و آزادی کے پانچ شہیدوں تک کے نام نہیں گنوا سکتا۔
آپ اس حال میں موجود تمام دانشور مل کر بھی پر تگیزیوں ، ترکوں ترکمانوں، انگریزوں ، اور سول و فوجی مارشل لاؤں میں مارے جانے والے ایک درجن تک بلوچ شہیدوں کے نام نہیں جانتے۔
2۔ جغرافیہ میں کس کو یہاں معلوم ہے کہ پاکستان و ایران کے بلوچ ساحل کی طوالت کیا ہے، کتنے بندرگاہ ہیں، تیل و گیس زمین کی کس تہہ میں بنتے ہیں۔ پرتگیزی سامراج نے یہاں کونسے شہر جلائے تھے اور انگریزوں کا شہرِ سوختہ کونسا ہے۔
-3 ثقافت میں سیوی اور روہی کے بارے میں ہمارے بچے کتنا جانتے ہیں۔ آپ کے پیلوں ،اونٹوں اور میرے کھجوروں مچھلیوں کی قسموں کے دو چار نام بھی معلوم نہیں مگر عرب کے چوغوں اور یوپی کے پاندانوں میں ہمارا علم مثالی ہوتا ہے۔
-4 آرکیالوجی میں کس کو معلوم ہے کہ موہن جو دھڑو کے باپ کا نام پیرک ہے اور دادے کا نام مہر گڑھ ہے ۔ اور یوں ہم اس پورے خطے کے باسی گیارہ ہزار پرانے لوگ ہیں۔ سب سے پرانی تہذیب کے ۔ اور یہ کہ ہم کہیں باہر سے نہیں آئے، یہیں ہیں ہماری جڑیں۔
-5 مائتھالوجی میں کتنوں کو معلوم ہے کہ جس مائتھالوجی کو مذہب میں ڈھالنے کی کوششیں انڈیا کرتا ہے وہ مائتھالوجی بلوچ کا ہے۔ اور اس کا ہیڈ کوارٹر بلوچ کے ضلع لسبیلہ کے ہنگلاج میں ہے۔
-6 ادب میں شرطیہ طور پر ایک بھی بلوچ کو پتہ نہیں کہ یہاں کے جس دانشور کے مزار کو چرس و چادر پوشی ،نرینہ اولاد بخشنے کی قوت رکھنے اور قوالی و دھمال کی آماجگاہ میں بدل دیا گیا ہے اُس نے انگریز سامراج کے تھانو ں کو برباد کرنے کی کال دی تھی۔
-7 ذرائع ابلاغ کے شعبے میں مرگ و ماتم کو بھی سکور بورڈ کے حقیر عنصر میں بدل دیا گیا ہے۔ ایسا ہلکا پن اور چسکیوں بھرا سماج تشکیل دیا گیا جس میں وزن اور بھاری پن نام کو نہیں ہے۔
-8 درآمد درآمد درآمد۔ ہمارے یہ دانشور اور ان کی فکر ایک ایسا سماج تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے جہاں ہیرو تک باہر سے درآمد شدہ ہیں۔ حیران کن نہیں کہ ہمارے ملک کے آفیشل ہیرو سب کے سب باہر کے ہیں۔
-9 حالاتِ حاضرہ سے جانکاری کا یہ عالم ہے کہ آپ سیاست میں میرے نوابوں سرداروں کے علاوہ دس سیاستدانوں کا نام نہیں جانتے اور ہم آپ کے مخدوم و فیوڈل حکمران سیاست کاروں کے علاوہ آپ کے دس جینوئن سیاست دانوں کا نام نہیں جانتے۔
اس پورے ہال میں کوئی نہیں جانتا کہ سکندر اعظم کی جن فوجوں کا انسان کچھ نہ بگاڑ سکا تھا ، انہیں ہمارے مچھروں، ساونی سیلابوں اور موسم کی حدت شدت نے یوں برباد کر ڈالا کہ میسو پوٹیمیا کی ماؤں نے ’’ ڈھول سپاہیا‘‘ کی لوریاں گانا ہی بند کر دیں۔
خواتین و حضرات۔ یہ ہے ہمارا سماج، ہماری فکر اور ہمارا دانشور۔
تو حل کیا ہے: وہی جب سکندر اعظم سردیوں میں دھوپ پہ لیٹے فلاسفر کے پاس گیا اور اپنا تعارف کرایا کہ بادشاہ فلاں فلاں۔ بتائیے میں آپ کے لیے کیا کروں۔
تو فلاسفر نے لیٹے لیٹے جواب دیا تھا، کچھ نہیں بس دھوپ کے راستے سے ہٹ جاؤ۔
لہٰذا بس ایک تقاضا ہے ہمارا اِن اینکروں، ایڈیٹروں، پروفیسروں اور صدارتی تقاریر لکھنے والوں سے کہ: سورج کی شعاعوں کے راستے سے ہٹ جاؤ۔
مگر ، کیا تقاضوں سے یہ ہٹ جائیں گے؟

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*