کچھ عرصے کے بعد بسوں کے بائیکاٹ کی تحریک الاباما ؔ میں بھی شروع ہوئی مگر منظم نہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی دب گئی۔ انتہا پسند گوروں نے پادری شٹل ورتھ کا گھر بموں سے اُڑادیا لیکن وہ ایک پڑوسی کو ہسپتال لے گئے اس لیے بچ گئے تھے۔ اسی اثنا میں ’کالوں کی ترقی کی قومی انجمن‘ (NAACP) ہماری ریاست میں خلاف قانون جماعت قرار دے دی گئی اور سینکڑوں نیگرو گرفتار کر لیے گئے۔
ایک روز میں اپنے دوستوں کے ساتھ سنیما دیکھ کر لوٹ رہی تھی۔ میری سہیلی پیگیؔ بھی موٹر میں تھی۔ اُس کا رنگ گندمی تھا۔ بال سنہری تھے اور آنکھیں سبز۔ چنانچہ اکثر ناواقف لوگ اُس کو گورا ہی سمجھتے تھے۔ میں گھر کے سامنے پہنچ کر موٹر سے اُترنے ہی والی تھی کہ ایک گورے سپاہی نے ہمارا راستہ روک لیا۔ اور پوچھنے لگا کہ تم نیگرو ایک گوری لڑکی کو کہاں لے جارہے ہو۔ اُس نے ہم سب کو موٹر سے اُترنے کا حکم دیا اور پیگی کے علاوہ سب کی تلاشی لینے لگا۔ اُس وقت تک ریاست الاباماؔ میں کالوں اور گوروں کو آپس میں ملنے کی اجازت نہ تھی۔ سپاہی نے ہم سب کو جیل میں بند کردینے کی دھمکی دی اور پیگیؔ کو بھی نیگروں سے دوستی کرنے پر خوب بُرا بھلا کہا۔
جب پیگیؔ نے سپاہی کو بتایا کہ میں بھی نیگرو ہوں تو وہ بہت سٹپٹایا اور اپنی شر مندگی دور کرنے کے لیے لڑکوں کی پہلے پٹائی کی پھر موٹر کی خوب تلاشی لی تاکہ کوئی چیز ایسی مل جائے کہ اُس کو ہمیں جیل بھیجنے کا بہانہ ہاتھ آجائے۔ اس قسم کے واقعات کالوں کی زندگی کا معمول بن چکے تھے ۔
میں چودہ برس کی ہوئی تو برمنگھم کی قصباتی زندگی کی سخت گیریاں میرے لیے ناقابل برداشت ہوگئیں ۔ میں اپنی ناآسودگیوں کا اصل سبب سمجھنے سے قاصر تھی ۔ شہری حقوق کی تحریک کا بھی اُس وقت تک مجھ پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھاکہ میں اپنی بے چینیوں کو کسی اُصول کی شکل دے سکتی ۔مجھے تو بس یہ محسوس ہوتا تھا کہ میرا دم گھٹا جارہا ہے لہٰذا مجھے یہاں سے چلاجانا چاہیے ۔ درمیانہ طبقے کے نیگرو گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیاں اپنی نسلی تذلیل کو چھپانے کی خاطر ناچ ، گانے ، سینما اور دوسرے بے ضرر مشغلوں میں پناہ لیتے تھے مگر مجھ کو ان چیزوں سے سخت نفرت تھی۔
میرے والدین نے خوشی خوشی مجھے نیویارک جانے کی اجازت دے دی اور میرا داخلہ ایلزبتھ ارون ہائی اسکول میں ہوگیا۔
نیویارک روانہ ہونے کے لیے ٹرین کے ’کالے‘ کمپارٹمنٹ میں بیٹھی تو ڈبہ نیگرو لڑکوں اور لڑکیوں سے بھراہوا تھا۔ جو مختلف کالے سکولوں اور کالجوں میں داخلے کے لیے جارہے تھے۔ مگر یہ راستے میں اُترتے گئے اور واشنگٹن پہنچتے پہنچتے ڈبہ بالکل خالی ہوگیا۔ واشنگٹن میں گورے مسافروں کی یلغار شروع ہوئی ۔ لیکن اُنہو ں نے میری طرف توجہ نہیں کی اور نہ اس بات کی پرواہ کی کہ کمپارٹمنٹ کالوں کا تھا۔ جوں جوں نیویارک قریب آتا گیا میرا اعصابی تناؤ بڑھتا گیا۔ میں کچھ یہ سوچ کر خوش ہوتی کہ نیویارک میں کالے گورے کے ہر وقت کے جھگڑوں سے نجات مل جائے گی مگر دوسرے ہی لمحے یہ خوف ستانے لگتا کہ اگر میں اُس بدگمانی پر قابو نہ پاسکی جو نسلی نفرتوں میں پرورش پانے کے سبب سے روشن خیال گوروں کے خلاف پیدا ہوجاتی ہے تو پھر کیا ہوگا۔
پادری میلش اور اُس کی بیوی نیویارک کے ریلوے سٹیشن میں میرا انتظار کر رہے تھے ۔ وہ گورے تھے ۔لیکن میکار تھی کے زمانے میں اپنی نیگرودوستی کے کارن بڑی سختیاں جھیل چکے تھے۔ پادری میلش گر جاگھر میں میکار تھی کے طرزِ عمل پہ کڑی نکتہ چینی کرتے اور برملا کہتے کہ سچاعیسائی وہ ہے جو ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف صف آرا ہوجائے ۔وہ ’سوویٹ امریکہ دوستی‘ کی انجمن کے رُکن بھی تھے اور کمیونسٹوں اور دوسرے مظلوموں میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے ۔ ان جرائم کی پاداش میں پادریوں نے اُن پر مقدمہ چلایا اور گرجا گھر اُن سے چھین لیا جہاں وہ برسوں سے وعظ کہا کرتے تھے ۔ لیکن پادری ملیش نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے ایلز بتھ ارون ہائی سکول کے نام سے نیویارک میں ایک سکول قائم کرلیا۔
پادری میلش اور ان کی بیوی نے مجھے اپنی اولاد کی طرح رکھا۔ البتہ مجھے سکول کے نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں تھوڑا وقت لگا۔ اس لیے کہ ایلز بتھ ہائی اسکول میں وہ تکلفات نہ تھے جس کی میں عادی تھی ۔ استاد پھٹے پرانے کپڑوں میں آتے۔ اور طالب علموں سے برابر کے دوستوں کی طرح ملتے۔
اسی سکول میں میں نے پہلی بار سوشلزم کا نام سنا ۔ تاریخ کے استاد نے جب سوشلزم کے ابتدائی اُصول بیان کیے تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ کوئی ایسا معاشرہ بھی ہوگا جس میں ہر شخص کو اپنی لیاقت اور صلاحیت کے مطابق سوسائٹی کی خدمت کا موقع ملے گا۔ اور سوسائٹی اُس کی مادی اور روحانی ضرورتیں پوری کرنے کی ذمے دار ہوگی۔ سائنسی سوشلزم کی باریکیاں تو میری سمجھ میں نہیں آئیں۔ البتہ ان تجربوں کا مجھ پر بہت اثر ہوا جو خیالی سوشلسٹوں نے برطانیہ اور امریکہ میں کیے تھے۔ اِ ن تجربوں کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے میں نے لائبریری سے رابرٹ اونزاور دوسرے سوشلسٹ رہنماؤں کے سوشلسٹ تجربوں کے بارے میں کئی کتابیں حاصل کیں اور بڑے شوق سے پڑھیں۔
اسی اثناء میں میں نے کمیونسٹ مینی فیسٹو کا بھی بغور مطالعہ کیا اور تب مجھ کو کئی ایسے سوالوں کے جواب ہاتھ آگئے جو مجھے عرصے سے پریشان کر رہے تھے۔ نیگرو مسائل کا کوئی حل میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ لیکن مینی فیسٹو کو کئی بار پڑھنے کے بعد میں کالے امریکیوں کے مسئلے کا رشتہ امریکہ کے عام محنت کاروں کے مسئلے سے جوڑنے میں کامیاب ہوگئی۔ مجھے مینی فیسٹو کے ایک ٹکڑے نے جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ پرولتاریہ تمام مظلوم لوگوں کا نجات دہندہ ہے بہت متاثر کیا۔ اب تک تمام تاریخی تحریکیں اقلیتوں کی تحریکیں رہی ہیں یا وہ اقلیتوں کے مفاد میں تھیں۔ پرولیتاری تحریک غالب اکثریت کی آزادی اور باشعور تحریک ہے اور اکثریت کے فائدے میں ہے ۔ پرولتاریہ جو ہماری موجودہ سوسائٹی کا سب سے نچلا طبقہ ہے اُس وقت تک نہ حرکت میں آسکتا ہے اور نہ سربلند ہوسکتا ہے جب تک کہ وہ سرکاری معاشرے کے بالائی ڈھانچہ کو تہہ وبالا نہ کردے۔ یہ بات میری سمجھ میں آگئی کہ اگر پرولتاریہ کو آزادی حاصل ہوگئی تو پھر معاشرے کے دوسرے مظلوم حلقوں کی آزادی بھی یقینی ہوجائے گی۔ میری نظر میں برمنگھم کے اُن نیگرو مزدوروں کی شکلیں گھومنے لگیں جو ہر صبح لوہے کے کارخانوں یا کوئلے کی کانوں کی سمت قطار درقطار چلے جاتے ہیں۔ اور نفرت سے بوجھل آنکھیں ، بموں کے دھماکے، چھپی ہوئی بندوقیں ، خوف کے مہیب سائے، روتی ہوئی نیگرو عورتیں ، بھوکے بچے ، نسلی بلوے، درمیانہ طبقے کے نیگرو گھرانوں کے تفریحی مشغلے ، بس کی آخری سیٹیں ، پولیس کی تلاشیاں سب کی اصل حقیقت میری سمجھ میں آنے لگی۔ اب تک میں نسلی نفرتوں کو ذاتی مسئلہ خیال کرتی تھی اور میں کالوں کی اطاعت گزاریوں پر اندر ہی کھولتی رہتی تھی، سوشلسٹ لٹریچر کے مطالعے کے بعد مجھ پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ ان نفرتوں کا تعلق سرمایہ داری نظام کے سودوزیاں سے ہے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے