آرٹ اور سماجی زندگی

1

آرٹ کا سماجی زندگی سے تعلق ایک ایسا سوال ہے جو ہر اُس لٹریچرمیں موضوع بحث بنتا ہے جو اپنے ارتقا کی ایک واضح سطح تک پہنچ چکا ہو۔ اکثر اس کا جواب متخالف ومتضاد معنوں میں دیا جاتا ہے ۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ آدمی سبت (آرام کا دن، یہودیوں کے نزدیک اتوار) کے لیے نہیں بنا ہے بلکہ سبت آدمی کے لیے ہے ۔ معاشرہ فن کار کے لیے نہیں بنا بلکہ فنکار معاشرے کے لیے ہے ۔ آرٹ کا کام یہ ہے کہ وہ انسانی شعور کے ارتقا میں مدد کرے تا کہ وہ اپنے سماجی نظام کو اور بہتر بنائے۔
اس نقطہِ نظر کو اس کے مخالف پُر زور طریقے سے مسترد کرتے ہیں ۔ان کے خیال میں آرٹ بطور خود ایک مقصد ہے ،اسے کسی دوسرے مقصد کے لیے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ ہواستعمال کرنا آرٹ کی حرمت اور عظمت کو گرانا ہے۔
یہ دونوں نقطہ ہائے نظر ہمارے سولہویں صدی کے ترقی پسند ادب میں بہت نمایاں ہو کر سامنے آئے ۔اس موقعہ پر پساریو کا تو کیا ذکر کیا جائے جس کے انتہائی یک رخے پن نے اُسے لُولُو بنا کر رکھ دیا ۔ البتہ چرنی شیوسکی اور ڈوبروولیو بوف اس نقطہ نظر کے اس دور میں بڑے حمایتی ہیں۔ چرنی شیوسکی نے اپنے ابتدائی تنقیدی مضمون میں لکھا ہے:
’’آرٹ برائے آرٹ ہمارے دورمیں ایسا ہی عجیب ہے جیسے کہا جائے دولت برائے دولت ، سائنس برائے سائنس وغیر ہ وغیرہ۔ اگر آدمی معطل ہو کر نہ بیٹھ جائے تو تمام انسانی سرگرمیاں انسانیت کی خدمت کرتی ہیں۔ دولت اس لیے ہوتی ہے کہ آدمی اس سے استفادہ کرے ، سائنس اس لیے ہے کہ انسان کی رہنمائی کرے ۔آرٹ کو بھی کسی مفید مقصد کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ محض لطف اندوزی کے لیے‘‘۔
چرنی شیوسکی کے خیال میں آرٹ( ’’اس میں سب سے اہم‘‘ شعروسخن )کی قیمت کا اندازہ اس سے لگایا جائے جس قدر کہ اس نے معاشرہ میں علم کو پھیلایا ۔اس نے لکھا ہے کہ ’’آرٹ نے یا بہتر ہوا گر کہا جائے کہ شاعری نے (کیونکہ آرٹ کی دوسری اصناف نے بہت کم کام کیا ہے ) خواندہ عوام میں بہت کچھ علم کو پھیلایا ہے اور زیادہ اہم امر یہ ہے کہ کہ سائنس کے پیدا کردہ تصورات سے انہیں آشنا کیا ہے ۔ زندگی کے متعلق شاعری کا یہی اہم کام ہے ۔ یہی خیال اس نے اپنے مشہور مقالہ ’’حقیقت سے آرٹ کا جمالیاتی رشتہ ‘‘میں ادا کیا ہے ۔اس کے سترھویں مقالہ کے مطابق ’’آرٹ نہ صرف زندگی کو پھر سے پیدا کرتا ہے ۔بلکہ اسے واضح بھی کرتا ہے وہ اکثر زندگی کے عجائبات (مظاہر)کے متعلق فیصلہ صادر کرنے کا کام دیتا ہے‘‘۔
چرنی شیوسکی اور اس کے حواری ڈوبرولیوبوف کی رائے میں بے شک آرٹ کا کام زندگی پیدا کرنا اور اس کی عجوبات پر فیصلہ صادر کرنا تھا۔ اور نہ یہ اتفاقیہ امر تھا کہ نکراسوف نے اپنے شاعرانہ الہام کو ’’انتقام غم ‘‘ کا الہام کہا ۔وہ اپنی نظم ’’شہری ‘‘ میں شاعر سے کہہ رہا ہے:
اے کہ تو جسے آسمانی مدد حاصل ہے
اُس کا چنا ہوا پیغمبر ہے ۔۔۔ یہ کہنا غلط ہے کہ
محروم اور دھتکارے ہوئے لوگ
تیرے جوش انگیز نغمے کے لیے بہرے ہیں
یقین کر وہ بالکل نہیں گر گئے ہیں
ان کے ہر ایک دل میں اب بھی خدا بسا ہوا ہے
اور تکلیف سے آہستہ آہستہ ہی سہی
ان کی روحوں تک پُر خلوص
(ایمان) کی آواز پہنچ سکتی ہے
اے شہری آرٹ کی خدمت کر
اور ان لوگوں کے لیے زندہ رہ
ان کے لیے ، ان پُر محبت دلوں کے لیے
اور انہیں دلولے سے بھردے
ان الفاظ میں شہری نکراسوف نے آرٹ کے مقصد کو اپنی سمجھ کے مطابق بیان کردیا ۔یہی وہ طریقہ تھا جس کے تحت اس دور میں نامور مجسمہ سازوں مصوروں( مثلاً پیرو کرامسکوئی )کے نزدیک آرٹ کا یہی مقصد تھا ۔اور وہ نکراسوف کی طرح بحیثیت ’’شہری‘‘ آرٹ کی خدمت پوری جدوجہد سے کر رہے تھے ۔ اور اسی کی طرح ان کا کام زندگی کے عجوبوں (مظاہر) پر فیصلے کرنا تھا۔
مخالفین کے مقابلے میں تخلیقی آرٹ کے نقطہِ نظر کا زبردست محافظ نکولس اول کے دور کا پشکن تھا۔ اس کی نظموں ’’بھیڑ‘‘ اور ’’شاعر سے خطاب ‘‘سے سب واقف ہیں۔ شاعر سے لوگوں کا مطالبہ تھا کہ وہ ایسی نظمیں لکھے جو لوگوں کے اخلاق کو سدھاریں مگر ان کے اس مطالبے کو پشکن نے بُری طرح جھڑک کرمسترد کردیا:
باتونی ریاکارودفع ہوجاؤ
امن پسند شاعر کو تمہارے انجام کی کیا پروا؟
جاؤ بحرِ عصیاں میں ڈوب مرو
تم پر نغمے اثر انداز نہیں ہوسکتے
تمہارے کارناموں پر میں منہ پھیرتا ہوں
کوڑے ،تہہ خانے ،اور شکنجے
اس وقت تک جب تک قیمت نہ ادا ہوجائے
تمہاری جہالت کمینگی غلامانہ ضلالت اور دیوانگی کی

پشکن نے درج ذیل اشعار میں شاعر کے مشن کے متعلق اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے:
نہ دنیاوی ہنگامہ آرائی کے لیے
نہ حرص دولت اور نہ فتنہ وفساد کے لیے
بلکہ دلکش ان شعروں کے لیے جو جذبات کو ابھاریں
ایسی ہی دعاؤں کے لیے شاعروں کو زندگی بخشی جاتی ہے
یہیں سے آرٹ برائے آرٹ کا نظریہ بہت نمایاں طور پر سامنے آتا ہے ۔ سولہویں صدی کی ادبی تحریک کے مخالفوں کا بار بار پشکن کی مثال پیش کرنا بلا سبب نہیں تھا۔
آرٹ کے متعلق دو متخالف ومتضاد نقطہ ہائے نظر ہیں ۔ان میں سے کونسا درست ہے ؟۔ اس سوال کا جواب دینے سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سوال بے ڈھنگے پن سے اٹھایا جاتا ہے ۔ اس قسم کے سوالات پر ‘‘فرض ‘‘ یعنی ڈیوٹی کے نقطہ نظر سے غور نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر کسی ملک کے آرٹسٹ مخصوص دور میں ’’دنیاوی ایجی ٹیشن اور ہنگامہ خیزی ‘‘ سے احتراز کرتے ہیں، اور دوسرے دور میں ایجی ٹیشن اور ہنگامہ خیزی کی حمایت کرتے ہیں تو یہ کہنا غلط ہے کہ وہ لازماً کسی کی ہدایت پر مختلف اوقات میں مختلف ’’فرض‘‘ انجام دے رہے ہیں بلکہ مخصوص سماجی صورت حال سے ان کا ذہن ایک دفعہ ایک طرح اور دوسری سماجی کیفیت میں دوسری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے جب ہم اس سوال پر غور کریں تو ہمیں اس نقطہ نظر سے غور نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ حقیقت میں کیوں اور کیا ہونا چاہیے ۔جب ہم اس طرح سوال پر غور کرتے ہیں تو سوال کی صورت مندرجہ ذیل ہوجاتی ہے:
وہ کونسی اہم سماجی کیفیت ہے جس کے تحت وہ لوگ جو آرٹ سے دلچسپی رکھتے ہیں متاثر ہو کر اس عقیدے ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ کی گرفت میں آجاتے ہیں؟۔
جب ہم اس سوال پر غور کریں گے تو دوسرے سوال کا جواب مشکل نہیں رہے گا یعنی وہ کونسی بہت اہم سماجی کیفیت ہے جس کے تحت وہ لوگ جوآرٹ سے بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور نام نہاد افادیت کا نقطہِ نظر اختیار کر لیتے ہیں یعنی آرٹ کی تخلیقات کو ’’عجوبات (مظاہر)زندگی پر فیصلہ صادر کرنے کا مجاز قرار دیتے ہیں۔
ہر دو سوالات میں سے پہلا سوال ہمیں پشکن کی طرف لے جاتا ہے۔
ایک وقت تھا جبکہ وہ آرٹ برائے آرٹ کے نظریئے کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس نے ہنگامہ خیزی سے پرہیز نہیں کیا بلکہ وہ اس کے لیے بیقرار تھا۔ یہ الیگزینڈراول کے زمانے کی بات ہے ۔اُس وقت وہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ ’’لوگ‘‘ کوڑوں ،تہہ خانوں اور شکنجوں کو برداشت کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ اپنی نظم’’آزادی‘‘ میں برہمی کے ساتھ چلّارہا ہے:
ناخوش قوم ہر طرف
انسان کوڑوں اور ہتھکڑیوں کے مارے ہوئے
سب پر بے انصافی کی حکمرانی
اور پُر از نخوت نواب اقتدار کے نشے میں چُور
بد خیالوں کا تیرہ وتاریک اندھیرا
مکرنکولس اول کے دور میں اس کا ذہن بالکل تبدیل ہوگیا اور اس نے ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ کے نظریئے کی حمایت کی۔ اس کے طرزِ عمل کی اس بنیادی تبدیلی کا کیا سبب تھا؟۔
نکولس اول کے دور کا آغاز دسمبر 14کے پُر آشوب واقعات سے ہوا ہے (یہ واقعات سینٹ پیٹرز برگ گیریزن کی مسلح بغاوت کے نتیجے میں ہوئے جس کی رہنمائی روسی اشرافیہ کے تعلیم یا فتہ انقلابی افسر کر رہے تھے۔ ان کی خفیہ تنظیم کے مطالبات سرف ڈم یعنی رعیتی نظام کا خاتمہ اور زار کی مطلق العنانی کے اختیارات میں کمی تھے ۔وہ دسمبری کہلاتے ہیں۔اس بغاوت کو بری طرح کچل دیا گیا۔ انقلابی افسروں کو پھانسیاں دی گئیں اور بہت سے شرکا کو سائبیریا جلا وطن کردیا گیا)۔ ان واقعات کا ہمارے ’’سماج ‘‘اور پشکن کی شخصیت پر نہایت گہرا اثر پڑا اور اس کی اخلاقی اور دانشورانہ سطح گر گئی۔۔۔ ’’میں کہ نوجوان تھا‘‘ ہر زن لکھتا ہے:’’مجھے یاد ہے کہ سماج کا اونچا طبقہ کس درجہ گر گیا ۔ اور نکولس اول کے تخت نشین ہونے کے بعد نہایت سنگدل اور فرومایہ بن گیا۔ اشرافیہ (طبقہ امرا) کی آزادروی اور محافظ دستے کی جراَت انگیز روح جو الیگزینڈر کے زمانے کی خصوصیات تھیں1826میں ناپیدہوگئیں۔ ایک حساس دانشور کے لیے ایسے سماج میں رہنما انتہائی اذیت ناک تھا ۔’’چاروں سمت موت کی سی خاموشی اور اندھیرا ‘‘ ۔ایک اور مضمون میں ہرزن لکھتا ہے۔ ’’سب کے سب مطیع ،فرماں بردار، تھڑولے اور انتہائی تھوتے بن کر رہ گئے تھے۔ اگر کوئی کسی سے ہمدردی کرتا تھا تو وہ کا سہ لیسوں اور خوشامدیوں کی غضب ناک نظروں کا نشانہ بنتا تھا۔ اُسے دھتکاردیا جاتا تھا،اس کی آبرو ریزی کی جاتی تھی۔‘‘ یہ وہ زمانہ ہے جب پشکن کی نظمیں ’’بھیڑ‘‘ اور ’’ شاعر سے خطاب‘‘ لکھی گئیں جن میں وہ مسلسل ہمارے دونوں دارالحکومتوں (سینٹ پیٹرز برگ اور ماسکو )کی اکتادینے والی بے کیفی اور کم ظرفی کی شکایت کر رہا ہے لیکن یہ صرف اس سوسائٹی کی ہی، جس میں وہ گھرا ہوا تھا،اور دکھی تھا ،کم ظرفی نہ تھی بلکہ ’’حکمران حلقوں‘‘ سے جن سے اس کے تعلقات تھے اس کے لیے وہ بھی شدید پریشانی اور اذیت کا سبب تھے ۔
ان کہانیوں کے مطابق جن کا بہت چرچا رہا، 1826میں نکولس اول نے ازراہِ مرحمت خسر وانہ پشکن کی ’’جوانی کی سیاسی غلطیوں کو معاف کردیا ‘‘ بلکہ فراخ دلی سے اس کا سرپرست بھی بن گیا۔ لیکن یہ کہانیاں سرتا پاغلط تھیں ۔نکولس اور اس کے دست راست پولیس کے افسرِ اعلیٰ بینکنڈروف نے پشکن کو مطلق ’’معاف ‘‘ نہیں کیا اور اس کی ’’سرپرستی‘‘ عرصہ دار تک پشکن کو ذلیل کرتی رہی۔ بینکنڈروف نے نکولس کے سامنے یہ رپورٹ پیش کی’’ مجھ سے انٹرویو کے بعد اعلیٰ حضرات کے متعلق پشکن نے انگلش کلب میں جوش سے تعریفی باتیں کیں اور ڈنر کے اپنے ساتھیوں کو مجبور کیا کہ وہ شہنشاہ کا جام صحت پئیں۔ وہ ناکار گی کی راہ پر باقاعدہ گامزن ہے لیکن اگر ہم اس کی زبان اور قلم کو اپنی پسند کے مطابق چلا سکیں تو اچھی بات ہے ‘‘۔ اس جملے کے آخری لفظ سے پشکن کی کی جانے والی ’’ سرپرستی ‘‘کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ نکولس اول اور بینکنڈوروف کا مقصد یہ تھا کہ پشکن کے آزاد فکر کو سرکاری اخلاقیات کی بد رَومیں دھکیل دیں ۔وہ چاہتے تھے کہ وہ سرکار کا قصیدہ گو بھاٹ بن کر رہ جائے۔ پشکن کی وفات کے بعد مارشل پسکی وچ نے نکولس کو لکھا’’بلحاظ ادیب کے پشکن کی موت قابل افسوس ہے‘‘۔اس کے جواب میں نکولس نے لکھا’’ مجھے تمہاری رائے سے اتفاق ہے مگر اصل بات تو کہنی ہی پڑے گی کہ وہ ماضی کے بجائے مستقبل کا شاعر تھا ‘‘۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شہنشاہ مرحوم شاعر کی زندگی کی قابل قدر تخلیقات کے بجائے اسے قابل انعام سمجھنا چاہتا تھا جو وہ پولیس کی ہدایت کے بموجب کو کولنک کے ڈرامے ’’مادرِ وطن کو عظیم طاقتور ہاتھ نے بچالیا‘‘۔جیسی تخلیقات کو ’’محبت وطن‘‘ لکھتا ۔ حتےٰ کہ وی اے ذکووسکی جیسے دنیا دار شاعر اور بہت بہتر مصاحب نے اسے مصلحت اندیشی برتنے اور روایتی اخلاق کی طرف متوجہ کرنے کی بہت کوشش کی ۔اس نے اپنے ایک خط مورخہ 12مارچ 1820میں پشکن کو لکھا:’’ہماری الھڑ جوانیاں (جونسل کو مضبوط کرنے کا کام دیتی ہیں)بہت کم تعلیم یافتہ ہیں اور وہ زندگی کے بوجھ کو سنبھالنے کی اہل نہیں۔ وہ تمہارے ان بے لگام خیالات سے آشنا ہوئے ہیں جو تم نے شعرو شاعری سے پُرکشش بنا کر پیش کئے ہیں ۔اس سے بڑا نقصان پہنچ چکا ہے ۔ناقابل تلافی نقصان ، یہ تمہیں بھی ایک روز لرزہ براندام کردے گا۔ طباعی اور جوہر قابل کوئی شے نہیں اہم شے عظمت اخلاق ہے ۔’’یقینا‘‘ آپ اس امر سے اتفاق کریں گے کہ ایسی صورت حال اور ایسے ’’عظمت اخلاق ‘‘ کا سبق دینے والوں کے مشورے نے اسے’’ عظمت اخلاق‘‘ سے متنفر کردیا اور اس نے اپنے فن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صلاح کاروں اور سرپرستوں کو للکارا:
باتونی ریاکارو دفع ہوجاؤ
امن پسند شاعر کو تمہارے انجام کی کیا پروا؟
بہ الفاظ دیگر اس صورت حال کی موجودگی کی وجہ سے یہ بالکل قدرتی بات تھی کہ پشکن’’آرٹ برائے آرٹ ‘‘ کا قائل ہوجائے اور شاعر سے مخاطب ہونے کے نام سے خود اپنے سے مخاطب ہو:۔
تم ایک بادشاہ ہو ، تنہا چاہے جہاں جاؤ
جدھر تمہارا آزاد ذہن تمہیں لے جائے جاؤ
اپنے افکار کے بیجوں کو پالتے پوستے بناتے سنوارتے
اور شریفا نہ خدمت کا کوئی معاوضہ نہ مانگتے ہوئے
پساریف ؔ نے دوران بحث مجھ سے کہا کہ شاعر پشکن نے پُر جوش الفاظ اپنے سرپرستوں سے نہیں بلکہ’’عوام‘‘ سے کہے ہیں لیکن اس دور کے ادیبوں کے سامنے حقیقی ’’عوام‘‘ تو موجود ہی نہیں تھے ۔پشکن کے لیے لفظ عوام وہی معنی رکھتا ہے جو اس کی نظم ’’ہجوم‘‘میں ملے گا اور اس کے یہ الفاظ محنت کش عوام سے مراد نہیں ہیں۔ اپنی نظم’’ خانہ بدوش‘‘ میں اقامت تبدیل کرنے والے خانہ بدوشوں کا اس نے اس طرح ذکر کیا ہے۔
شرمندہ ہے محنت خوفزدہ ہے خیال
ان دماغوں پر گندے تصورات کی حکمرانی ہے
وہ اپنی آزادی کا سودا کر سکتے ہیں
روپیہ کے لالچ میں زنجیریں پہن سکتے ہیں
جو کچھ اس میں کہاگیا ہے اسے شہری کاریگروں کے متعلق کہنا بہت غلط ہے۔
اگر مذکورہ بات درست ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ کو جب ہی قبول کیا جاتا ہے جب کبھی آرٹسٹ اپنے سماجی ماحول کے دباد میں ہوتا ہے۔
اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ نتیجہ نکالنے کے لیے پشکن کی مثال کافی نہیں۔ میں اس کے خلاف توکچھ نہیں کہوں گا بلکہ دوسری مثالیں پیش کروں گا اور وہ میں اِس وقت فرانسیسی لٹریچر میں سے دوں گا جو اس ملک کا لٹریچر ہے جس کے دانشورانہ پایہ کو سارے براعظم یورپ میں کم از کم گذشتہ صدی کے نصف تک اعلیٰ ترین تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔
پشکن کے ہم عصر فرانسیسی رومان پسند ماسوائے چند کے’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ کے نظریئے کے قائل تھے ۔ان ہی میں بڑی مستقل مزاجی سے اس نظرئیے کو ماننے والا تھیوفیل گویٹر آرٹ کی افادیت کے قائل ادیبوں کو اس طرح پھٹکاررہا ہے :
’’ہر گز نہیں تم اے گدھو ،گھٹیا کے مریضو ۔ایک کتاب جیلی کا شوربہ نہیں بن سکتی ، اور نہ ایک ناول بنا تسمے کا جوڑا بن سکتا ہے ۔ ماضی ، حال اور مستقبل کے پوپ مل کر بھی ایسا نہیں کرسکتے ہیں؟ ۔ نہیں ،اور ہزار بار نہیں ۔ میں ان میں سے ایک ہوں جو غیر ضروری کو سمجھتے ہیں۔ تمام چیزیں اور عوام جتنی زیادہ خدمت انجام دیں ان کے لیے میری محبت نفرت میں بدل جاتی ہے‘‘۔
بودیلیئرکی سوانح پرنوٹ لکھتے ہوئے اسی گوٹیر نے فلورس ڈومال کے مصنف کی اس لیے تعریف کی ہے کہ اس نے آرٹ کی آزادی کو برقرار رکھا اور اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ شاعری کا ایک ہی مقصد اور مشن ہے کہ وہ پڑھنے والے کی روح میں ایک ہیجان پیدا کردے اور اپنی آزادی کو حقیقی طو رپر برقرار رکھے۔ گوٹیر کے خیال میں ’’حسن‘‘ کا تصورسماجی اور سیاسی نظریات کے مقابلے میں کتنا پست ہے وہ اس کے مندرجہ ذیل بیان سے معلوم کیا جاسکتا ہے ۔
’’ میں نہایت خوشی سے اپنے فرانسیسی ہونے اور شہری کہلانے کے حق کو حقیقی رافیل یا برہنہ حسینہ کو دیکھ لینے کے بارے میں چھوڑ دوں گا‘‘۔
یقیناًگوٹیر نے حد کردی اس کے باوجود کہ پیرانا سیؔ ان (آرٹ برائے آرٹ گروہ کے مدعیوں کے پیشوا) گوٹیر کی جوانی کے دوران ’’آرٹ کی حکمرانی‘‘ کے دعوے کی تنا قص کی حد تک شاید مخالف ہوں لیکن وہ گوٹیر سے متفق ضرور تھے۔
فرانسیسی رومان پسندوں ، اور پیرانا ؔ سیوں کے اس ذہنی رجحان کی کیا وجہ تھی ؟۔کیا وہ بھی اپنے سماجی ماحول کے دباؤ کے سبب وہ رُخ اختیار کئے ہوئے تھے؟ ۔
گوٹیر نے اپنے ایک مضمون میں جو اس نے 1857میں تھیٹر فرانسیس آف الفریڈڈی وگنی کے ڈرامے چیٹرٹن کے 2فروری 1835میں کھیلے جانے کا ذکر اس انداز میں کیا:
جلسہ گاہ میں موجودجن کے سامنے چیٹرٹن پُرجوش تقریر کر رہا تھا وہ لمبے لمبے بالوں والے زرد رُو نوجوان تھے جن کو یقین کامل تھا کہ ان کے لیے اس دنیا میں کوئی باعزت ذریعہ معاش نہیں رہا ہے ۔ سوائے نظمیں کہنے اور تصویریں بنانے کے اور کوئی کام نہیں ہے۔ وہ بورژوا لوگوں کو ایسی نفرت سے دیکھتے اور انہیں ذلیل سمجھتے تھے جس طرح ہائیڈلبرگ اور جینا کے ناتراشیدہ (جرمن طلبا )دیکھتے تھے۔
یہ قابل نفرت بورژوا لوگ کون تھے؟
’’ان میں شامل تھے ‘‘ گوٹیر کہتا ہے ‘‘ تقریباً سب لوگ بینک کار ، دلال ،وکیل ،تاجر ،دکاندار وغیرہ وغیرہ ۔مختصر وہ سارے کے سارے جو رومان پسندشاعروں اور ادیبوں کے حلقوں کے علاوہ تھے اور جوبے لطفی سے روزی کمالیتے تھے ۔‘‘
ایک مزید مثال موجود ہے ۔اپنی تصانیف میں سے ایک اوڈس فنام بولس کیوز پر تبصرہ کرتے ہوئے تھیوڈور ڈی بینوائل تسلیم کرتا ہے کہ وہ خود ’’بورژوازی ‘‘سے نفرت کی مصیبت میں گرفتار ہوگیا تھا ۔پھر اس نے اس امر کی وضاحت کی کہ اصطلاح ’’بورژوازی ‘‘سے کیا مراد ہے ۔رومان پسندوں کی زبان میں بورژوازی سے مراد ہے:’’ایسا شخص جس کا خدا محض 5فرانک کا سکہ بن گیا ہو ،جس کے تصور میں اپنے ذاتی فائدے کے علاوہ کچھ اور نہ رہے ،اور جو شاعری میں عاشقانہ جذبات اور چھپی ہوئی تصویروں کا دلدادہ ہو۔‘‘
بینوائل یہ جتاتے ہوئے پڑھنے والوں سے التجا کرتا ہے کہ وہ اس کی کتاب ’’ اوڈس فنام بولس کیو‘‘کے مطالعے سے پریشان نہ ہوں جو رومان پسندوں کے دور کے آخر میں شائع ہوئی۔ جس میں ان پکے بدقماش لوگوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جو بورژوا طرز زندگی اختیار کئے ہوئے ہیں اور رومان پسند فن کاروں کا احترام نہیں کرتے۔
مذکورہ بالا مثالیں اور وضاحتیں اس حقیقت کی قابل یقین شہادت پیش کرتی ہیں کہ رومانوی اپنے بورژوا سماجی ماحول کے دباؤ میں تھے ۔سچ یہ ہے کہ بورژوا سماجی رشتے ان کے نزدیک خطرناک نہ تھے۔ رومانوی حلقے میں خو د نوجوان بورژوا طبقے کے لوگ موجود تھے جو بورژوا سماج کے رشتوں پر معترض نہ تھے ۔ان کی بغاوت بورژوا طبقہ کے لوگوں کی تنگدلی ،بے کیفی ،بے ذوقی ،اور سوقیانہ طرز زندگی کے خلاف تھی ۔ نیا آرٹ جس پر وہ لٹو ہوچکے تھے انہیں اس تنگدلی بے کیفی بے ذوتی اور سوقیانہ بازاریت سے پناہ دے رہا تھا ۔ فرانس میں بوربون شاہی کی بحالی کے آخری زمانے اور لوئی فلپ کے دور حکومت کے ادھواڑے میں جو رومانویوں کے لیے بہترین زمانہ تھا فرانس کے نوجوانوں کے لیے یہ بات بہت دشوار تھی کہ اپنے کو بورژوا طبقے کی گندہ تنگدلی ،بے مزہ بے لطف سوقیانہ زندگی سے مانوس کر سکیں کیونکہ کچھ دیر قبل ہی فرانس ہلاڈالنے والے انقلاب اور نپولین کے دور سے گزرا تھا جس نے انسانی جذبات میں نہایت عمیق تلاطم برپا کردیاتھاؔ (1)۔ اور جب بورژوا طبقہ سماج پر چھا گیا اور جب اس کی زندگی اس جدوجہد کی گرمی سے بے نیا زہوگئی جووہ آزادی کے لیے کر رہا تھا نئے آرٹ کے لیے سوائے اس کے اور کچھ نہیں رہا کہ وہ بورژوا طرز زندگی کا ابطال (نفی ) خیال پر ستانہ نظریہ کی صورت میں کرے۔ رومانوی آرٹ نظریاتی خیال پرستی ہی تھا۔ رومانوی اس ابطال (نفی ) کا اظہار ’’معتدل اور تابعدارانہ ‘‘ انداز میں صرف اپنے آرٹ کے کاموں میں ہی نہ کرتے تھے بلکہ خارجاً جلوہ گری میں بھی اس کا مظاہرہ کرتے تھے ۔ ہم گوٹیر سے ان نوجوانوں کا حال سُن چکے ہیں جو چٹرٹن کے ڈرامے میں سروں پربڑے بڑے بال رکھے ہوئے تھے ۔ کون ہے جس نے خود گوٹیر کی سرخ واسکٹ کا ذکر نہیں سُنا ہے جسے دیکھ کر’’بھلے لوگ ‘‘ خوف سے کانپنے لگتے تھے؟۔ نوجوان رومانویوں کا عجیب وغریب لباس پہننا ، لمبے لمبے بال رکھنا قابلِ نفرت بورژوازی اور اپنے درمیان حد بندی کرنا تھا۔زرد چہرہ بھی،کہنا چاہیے کہ زرد چہرہ بورژوا خوشحالی اور شکم پروری کے خلاف احتجاج تھا ۔
گوٹیر کہتا ہے ’’ اس زمانے میں رومانوی حلقے میں زرد بلکہ سبزی مائل چہرہ بنانا ، چہرے پر مردنی طاری کرنا عام فیشن بن گیا تھا ۔یہ انسان کی بدنصیبی کا اظہار تھا ۔انگریزی شاعر بائرن کی وضع اختیار کرنا جس سے ظاہر ہو کہ جوش عشق یاطیش میں مرا جارہا ہے۔

۔1۔ الفریڈڈی سیٹ نے اس عدم ہم آہنگی کو یوں بیان کیا ہے:
فرانس دوکیمپوں میں منقسم ہے۔ ایک وہ جس میں بلند نظر مصیبت زدہ قیمتی روحیں ہیں۔ لاتعداد باتوں کے لیے ترستی ہوئی خمیدہ سرنالاں وگریاں جنہوں نے اپنے کونہ پورے ہونے والے خوابوں کی دنیا میں بسا رکھا ہے ۔مگر تلخیوں کے اس طوفانی سمندر میں نرسلوں کے سوائے او رکچھ نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف موٹے نکڑے اور اکڑ کررہنے والے خوش وخرم لوگ ۔اور انہیں سوائے پیسہ گننے کے اور کسی چیز کی پروا نہیں۔ اس فضا میں سبکیاں اور سبکیاں ہیں یا پھٹ پڑنے والے قہقہے۔ اول الذکر روح کی پیداوارہیں اور ثانی الذکر جسم کی۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*