آزادی کی آزردگی

تم اپنے آنکھوں کی بینائی گنواتے ہو
اپنے دمکتے ہاتھوں کو مزدور بناتے ہو
اُن درجنوں روٹیوں کا آٹا گوندھتے ہو
جن میں سے ایک نوالا بھی نہ چَکھ پاو
تُم آزاد ہو ،
دوسروں کے غلام بننے کو
امُراء کو اور امیر کرنے کو،
تُم آزاد ہو

وہ جس لمحے کو تُم جنم لیتے ہو
تُمھارے گرد وہ کارخانے لگاتے ہیں
جن کی چکیوں میں فریب پستا ہے
فریب اتنے کہ
عمر بھر کھانے کو کم نہ پڑیں
تُم اپنی اس عظیم آزادی میں سوچتے ہو
انگلیوں پہ اپنی سجدہ گاہ لئے
ایک آزاد سوچ رکھنے کو
تُم آزاد ہو

تُمھارے یہ نیم جُھکے سر ،
جو گردن سے کٹے ہوئے لگتے ہیں
اور اپنے لمبے ، لٹکتے دونوں ہاتھ لئے
اپنی اس عظیم آزادی میں جھومتے ہو
تُم آزاد ہو، غمِ روزگار سے
تُم آزاد ہو

تُم اپنے وطن سے مُحبت کرتے ہو
جیسے یہ تُمھارا سب سے قیمتی سرمایہ ہو
مگر ایک دن، مثلاً
وہ امریکہ کے حمایتی بن جائیں
اور تُم بھی،
اپنی اس عظیم آزادی کے ہمراہ
ایک فوجی ہوائی اڈا بننے کو
تُم آزاد ہو

تُم یہ منادی کرتے پھرو
کسی کو ایک آلے ،
عدد یا واسطے کے طور پر نہیں
بلکہ ایک انسان کے طور پر رہنا چاہئے
لیکن وہ تمُھیں یکدم ہتھکڑیاں پہنا دیں
گرفتاری، قید یا پھانسی لگ جانے کو ،
تم آزاد ہو

لوہے ،لکڑی یا ریشم کا
کوئی ایسا پردہ نہیں
جس نے تُمھاری زندگی کو
ڈھانک رکھا ہو
آزادی مُنتخب کرنے کی
کوئی ضرورت نہیں
تُم آزاد ہو
مگر اس قسم کی آزادی
ستاروں تلے آزردگی ہی ہے۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*