سمو بیلی

” فکر مست محض نظریاتی دانشورانہ نکتہ وری نہ تھی-یہ تو عوامی پذیرائی اور قبولیت کا ایک ایسا انقلاب تھا جسے جان ریڈ کے بقول،”ہزاروں لاکھوں کان ایسے تھے جو اس کی باتیں سننے کے لیے جیسے پہلے ہی تیار ہوں”- ذرا غور کیجیے کہ غربت و افلاس میں پڑا ہمارا قبائلی ،اپنا آنہ آنہ سنبھال کر رکھتا ہے- اپنی اولاد پہ بھی خرچ کرنے سے قبل وہ دس بار سوچتا ہے- مگر وہی calculated شخص جب مست توکلی کو گزرتا دیکھتا ہے تو جا کر اس کی منتیں ،سماجتیں کرتا ہے ،اسے مہمان ٹھہراتا ہے ،سمو کے نام پہ پانچ سات دنبے خیرات کرتا ہے یا پھر سمو کی شادی رچانے آٹھ دس دنبے کاٹ ڈالتا ہے _آس پاس سے بھی ہر شخص اس فرضی شادی کے لیے اپنے اپنے خیمے سے ایک ایک دنبہ سر پہ اٹھائے مرکزی اجتماع کی طرف چلتا آتا ہے-یوں بغیر دعوت کے، بغیر کارڈ کے ،بغیر کسی واحد میزبان کے،دلہا توکلی اپنی شادی کا ایک ہی نشست میں ہزاروں روپے والا جشن مناتا ہے _ اس جشن میں حال احوال ہوتا،جھگڑے تصفیے میں ڈھل جاتے ،سیاسی سماجی مسائل پہ بحثیں ہوتیں، موسیقی ہوتی ،رقص دریس ہوتا اور کلام مست گایا جاتا -ابھی ادھر سے فارغ ہوئے نہیں کہ اگلی وادی میں ایک اور میریج ہال تیار ہے- دلہا کے انتظار میں ایک اور امت کھڑی ہے – سمو کی شادیوں کی محفلیں ہی تو اس ناصری کے مرید کے ہیکل تھیں_بلوچ لوگ اس انقلابی کی باتیں سنتے ،اور اس کی دعائیں لینے ایک دن میں دو دو چار بار سمو کی شادی کا جشن مناتے_مرد و زن امڈ امڈ کر آتے اس چے گویرا کی محفل میں جو نہ سردار تھا نہ سرکار ،جو نہ وار لارڈ تھا نہ بھتہ وصول کرنے والا،نہ فتوی فروش تھا اور نہ ظاہر دار _
مالدار بھی خود ،قصائی بھی خود،سجی کے باورچی بھی خود،کھانے والے بھی خود_(میرے عوام کی نفسیات اب بھی وہی ہے ،کوئی مست جیسا پاک انقلابی ان کے پاس جائے تو!!)_
اور یہ سارا جشن سمو کے نام کا تھا،سمو کی شادی کا فقرہ ہی مست کو تخیل اور شاعری میں اس کے خیمے کی طرف لے جا سکتا تھا،سمو کی شادی کا ہی بجار(امداد باہمی کا دنبہ)ہوتا تھا-
مگر سمو ایک عورت تو نہ تھی،سمو کی صورت تو کل عورت ذات تھی_ اسی لیے تو اس جشن میں گوشت خوری سے ذرا پہلے مست توکلی اپنے یک نقاطی انقلابی ایجنڈے کا مرغوب فقرہ ضرور کہتا:” یک بریں سمو را جا جھاڑ،نا تیں ماہ گوژ دی نہ وروں”_( پہلے سمو کی رعیت یعنی آس پاس خیموں میں موجود عورتوں کا حصہ انھیں کھلادو ،وگرنہ ہم نہ کھائیں گئے)_ ارے کیا یہ ون ملین ڈالر فقرہ ،زندگی سے گریز کا فقرہ تھا؟ یا پھر یہ ہی فقرہ عین زندگی تھا!_ ایک بھی شخص نہیں پورے بلوچ سماج میں میں بشمول میرے، جو اس اکیسویں صدی میں بھی اتنا پروگریسو ہو جتنا پروگریسو دو سو برس قبل مانڑک بند میں توکلی نامی ایک چرواہا تھا_
سمو کی قوم کا حصہ منصفانہ طور پہ بانٹنے کے بعد ،مست محفل میں موجود لوگوں میں گوشت برابر برابر بانٹ دیتا اور پھر اپنا اور اپنی دوست سمو کا حصہ وصول کرتا_مست دونوں حصے اٹھائے محفل سے زرا دور جا کر بیٹھ جاتا اور ایک شخص کو کھانا پیش کرتا نظر آتا_ وہ شخص نظر نہ آتا ،بس کھانا ختم ہورہا ہوتا- کھاتے ہوئے مست اس شخص سے گفتگو بھی کیے جاتا مگر زور زور سے نہیں بلکہ ایسے ،جیسے قریب بیٹھی ہوئی شخصیت سے کی جاتی ہے_(ہماری مائتھالوجی کے صدقے جائیے)_
اقتباس کتاب: مستیں توکلی
مصنف: شاہ محمد مری

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*