بارشوں کی تباہی

سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کی مجموعی زندگی ستر سال گزر جانے کے باوجود مکمل طرح اربنائیذڈ نہیں ہوسکی، اور وہ ہو بھی تو کیسے ہو، جب قدرتی وسائل جو قدرت نے مقامی لوگوں کے قدموں تلے رکھے تاکہ ان کو کسی کی محتاجی نا کرنی پڑے ان سے ان کو محروم رکھاگیا ہو، لوگوں کو مستقل رہائشی سٹی پلین دینے کے بجائے سرکار کا پورا زور بحریہ اور ڈفینس ہاؤسنگ سوسائٹی جیسے میگا پروجیکٹ پرہو۔ملک کے اہم شہروں میں مقامی لوگوں کا کاروبار میں نہ ہونا بھی دوسرا اہم پہلو ہے. تبھی تو ہر اینکر اور افسر شاندار تہذیب کے لوگوں کو جاہل اور گنوار کہہ کر پکارتا ہے. لیکن وہ لوگ جن کو اس ملک کے حکمرانوں نے معاشی تنگدستی اور انجانے خوف میں مبتلا کر رکھاہے، وہ عام لوگ خدا مختلف انداز سے سوچتے ہیں۔ کیوں کہ وہ ساتھ رہتے ہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے کراچی سے میرا دوست اپنی فیملی کو تھر گھمانے لے گیا۔جب وہ کارونجھر پہنچا تو وہاں سے مجھے فون کیا۔ یار یہ پہاڑ نہیں کچھ اور ہے، یہ دیکھتاہے اور سنتا بھی ہے۔ اس کے رنگ ہیں مور کے پنکھ جیسے اور ان کی طرح گاتا بھی ہے اور پھراس نے شیخ ایاز کی وہ نظم سنائی.

کارونجھر تو جو پہاڑ ہے تیرے اندر ایک آگ ہے میرے اندر بھی ایک آگ ہے دیکھنا ہے پہلے تو پھٹتا ہے یا میں

حقیقت یہ ہے کہ قدرت لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے جس میں ہر طرف آرٹ بھرا ہوا ہوتا ہے، جس سے لوگوں کے اندر ان دیکھا ٹہراؤسا ہوتا ہے اور وہ قدرت کے درمیان رہتے ہوئے زیادہ انسان رہتے ہیں۔ زیادہ انسان ہونے کی وجہ سے حکمرانوں کے لئے شاید ناپسندیدہ ہو ں کیوں کہ ان کی باتوں میں بناوٹ کم ہوتی ہے،جو کہنا ہوتا ہے سیدھی طرح کہہ دیتے ہیں، سنا ہے چاغی کا پہاڑ بھی کارونجھر جیسا مختلف تھا، سنتا دیکھتاگاتا پہاڑ،

وہی دن کہ جب

آسمان!۔

تیری آنکھوں میں کالا دھواں

بھر گیا تہا

تیرے اندر بڑے زور کا اک دھماکا ہوا تھا

تب ہی، چہچہاتی ہوئی ساری چڑیون کے پر جل گئے تھے

تب ہی چارسو سانس لیتی ہوئی زندگی راکھ ہوکر بکھرنے لگی تھی (زبیر رضوی)۔

چاغی کا پہاڑ اب پہچانا نہیں جاسکتا، اس نے دیکھنا، سننا اور گانا بند کردیا. وہ اب بہت سارے لوگوں کے حافظے میں پیوست ہوکر رہ گیا ہے۔ دیکھا جائے تو ان کی اہمیت حکمرانوں کے لئے ایک ایٹمی تجربے سے زیادہ نہ ہو لیکن مقامی لوگوں کی زندگی میں یہ اس طرح شامل ہے جیسے پھول، پرندے، دانا پانی۔ اسی طرح ستر سالہ تاریخ رکھنے والے حکمرانوں کی طویل فہرست ہے جنہوں نے سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کی نہ شہری بننے میں مدد کی نہ ان کو دیہاتی رہنے دیا۔

اب کے ساون میں بھی کچھ ایسا ہوا، سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کی کھڑی فصلیں ڈوب گئیں، بڑی تعداد میں مال مویشی پانی کے تیز بہاؤ میں بہہ گیا، لاکھوں کی تعداد میں مقامی لوگ بے گھر ہوئے جہاں ان میں سے بہت سے لوگوں کو مچھروں نے کاٹ کر کے مارا تو بہت سے بچے چلچلاتی دھوپ میں غذا کی کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں گئے۔ سندھ کے سرکاری اعداد کے مطابق 3لاکھ سے زیاد لوگ بے گھر ہوئے جس میں حیدرآباد، میرپورخاص، بدین ڈویژن شامل ہیں جب کہ کاچھو اور کوھستان کا علائقہ الگ ہے۔دیکھا جائے تو ہر سال ساون کے مہینے میں سخت بارشیں ہوتی ہیں سندھ اور بلوچستان کے لوگ ڈوبتے اور مرتے ہیں، تو آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟۔ کیا اس ملک کے پاس ہنر مند سائنس دانوں، انجنیئرز، ڈاکٹرز اور جدید علم سے واقف اساتذہ کی کمی ہے جو ملک کو ترقی کی شاھراہ پر لاسکیں۔ دراصل ایسا نہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ملک کی ترقیاتی عمل سے ان سب کو اور مقامی لوگوں کو محروم رکھنا۔ ان کو عوامی پروجیکٹ کے اہم فیصلوں میں شامل نہیں کرنا، ان کو غیر اہم سمجھنا۔خواہ وہ سی پیک کا معاملہ ہو یا تھر کول کا،یا پھر ایل بی او ڈی ہو یا آر بی او ڈی کا عوامی پروجیکٹ یہ ہے وہ بنیادی حقیقت کی سفاکی جسے کوئی تسلیم نہیں کرتا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*