ہفت روزہ عوامی جمہوریت ۔۔۔چَنّی گوٹھ کسان کانفرنس

ہفت روزہ عوامی جمہوریت ستر کی دھائی کے اوائل میں پاکستان میں عوامی تحریک کے ابھار کا سمجھیے ترجمان رہا ہے۔ اِن برسوں میں سی آر اسلم کی پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے تحت بہت بڑی ٹریڈ یونین اور کسان تحریک چلی۔ لاکھوں کو چھوتی ہوئی تعداد کی بڑی کسان کانفرنسیں ہوئیں۔ عوام الناس کی ایک بہت بڑی تعداد اس نئی عوامی تحریک کی طرف متوجہ رہی۔ تین بڑی کسان کانفرنسیں ہوئیں:خانیوال، پھر ٹوبہ ٹیک سنگھ، اور (23 مارچ 1972)کو چنی گوٹھ کسان کانفرنس۔

چنی گوٹھ بہاولپور کے علاقے میں ہے۔ یہاں 23مارچ1972کو غیر مالک مزارعوں، چھوٹے مالک کسانوں اور کھیت مزدوروں کے نمائندوں پہ مشتمل کانفرنس منعقد ہوئی۔عوامی جمہوریت نے اس کانفرنس کو خوب کوریج دی۔

اس کانفرنس کا پس منظر بہت دلچسپ تھا۔ بھٹو زرعی اصلاحات کا اعلان کرچکا تھا۔ میرے آج کے نوجوان قاری لینڈ ریفارم کے لفظ سے زیادہ آشنا نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کی سیاست میں اس لفظ کا تذکرہ ہی نہیں ہوتا۔

دراصل انگریز جب یہاں حکومت کرتا تھا تو اِس نے اس خطے کو نہری نظام بنا کر دیا۔ اور یوں لاکھوں ایکڑ زرخیز اور اب تک نہ استعمال شدہ طاقتور زمین کاشتکاری کے لیے مہیا ہوگئی۔انگریز نے اِن زمینوں کو اپنے ایجنٹوں کو انعام کے بطور دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ بڑے بڑے سرداروں کو، زیادہ مریدوں والے پیروں کو،بااثر مولویوں کو، اور اپنے جاسوسوں کو۔ یوں ہوتے ہوتے حالت یہ بنی کہ ساری زرعی نہری زمین چند لوگوں کی ہوگئی اور بقیہ ساری آبادی اُن لوگوں کی نوکر چاکر بن گئی۔ اور یہ وطن ایک طرف انگریز کی کالونی بنا۔ اور دوسری طرف جاگیرداری نظام یعنی فیوڈلزم کے حوالے ہوگیا۔ فیوڈل لارڈ ہی وزیر گزیر بنتا گیا، اسی نے تھانہ کچہری اور لوکل باڈیز کے اداروں کو اپنے ہاتھ لیا۔ اور آئین ساز اداروں کو کنٹرول کرنے لگا۔ یوں عام آدمی کی حالت غلامی سے بھی بدتر ہوگئی۔

بعد میں جب انگریز چلا گیا تو ایک اور قوت بھی اس فیوڈل طبقے میں شامل ہوگئی۔ اب فوج کے افسروں کو بھی زمین دی جانے لگی۔ یعنی سردار، پیر، مولوی، انگریز جاسوس گھرانے اور فوج نے مل کر زمین پہ اپنا قبضہ مستحکم کیا اور بدترین جابرانہ قوانین بنائے۔ یہ نظام اس قدر مضبوط اور طاقتور ہے کہ آج تک جوں کا توں سلامت ہے اور کوئی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔

بھٹو جب حاکم بنا تو اُس نے زرعی اصلاحات کے نام پر کچھ اقدامات کا اعلان کیا۔ مگر کسان اور کسانوں کے ترجمان اخبار”عوامی جمہوریت“ نے ان اقدامات کو اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دے کر مسترد کردیا اور کسان جگہ جگہ جلسے جلوس اور اجتماعات کرنے لگے۔

چنی گوٹھ کسان کانفرنس ان زرعی اصلاحات کو بہت کم سمجھنے اور مکمل اصلاحات کرنے کے مطالبات کی کانفرنس تھی۔ کانفرنس کے شرکا کی نظر میں یہ زرعی اصلاحات دراصل بھٹوکی طرف سے کسانوں کی بڑھتی ہوئی بے چینی کو کم کرنے کی سازش تھے، اور اُن کی تحریک کو کند کرنے کی مکارانہ کوشش۔

ایک اور دلچسپ بات 4مارچ 1972کے شمارے میں موجود ہے۔ اس میں ایک پورے جہازی صفحے کا مضمون موجود ہے جس کا عنوان ہے: بلوچستان سوشلسٹ پارٹی کا اعلان۔

اس اعلان میں (مارچ1972) لکھا گیا ہے کہ ”پاکستان سوشلسٹ پارٹی موجودہ حکومت سے ان حالات میں کوئی توقع نہیں رکھتی جب تک کہ وہ فوراً زبان و طرز زندگی کی بنیاد پر قومیتوں کے مساوات کے اصول کو تسلیم نہ کرے۔ اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل نہ کرے۔ مکمل طور پر جمہوریت بحال نہ کرے، مارشل لا کا خاتمہ نہ کرے۔ حقوق کے طور پر روزگار تعلیم صحت کی ضمانت نہ دے۔ جاگیرداری ختم کر کے 150ایکڑ سے زیادہ تمام زمین بلا معاوضہ لے کر کاشتکاروں، مزارعین اور کم مالک زمین افراد کو بلا معاوضہ نہ دے۔ تمام بڑی صنعتوں، بنکوں،اور بیمہ کمپنیوں کو قومی ملکیت میں نہ لے۔ او ر سامراجی قرضہ ضبط نہ کرے۔۔۔“

اعلان میں بلوچستان سرکار سے مطالبہ کیا گیا کہ بلوچستان کی معدنی دولت (کانیں وغیرہ) کو بلامعاوضہ عوامی ملکیت قرار دیا جائے۔ کارخانوں کو بلوچستان کے مختلف اضلاع میں قائم کیا جائے۔ کھاد اور بیج سستے نرخوں پر مہیا کی جائیں۔ ہر ضلع میں بجلی گھر اور ضروری مقامات پر چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ منتشر آبادی کو مناسب مقامات پر یکجا کر کے بڑے بڑے گاؤں بنائے جائیں۔ سرکاری طور پر مکانات تعمیر کر کے عوام کو نہایت کم قیمت، آسان اور لمبی قسطوں پر دیے جائیں۔ تعلیم پرائمری تک لازمی اور مفت دی جائے۔۔۔ ساڑھے بارہ ایکڑ اراضی کا مالیہ مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ صوبے کے درجہ ِ چہارم کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ بڑھائی جائے۔ درجہ چہارم کے ملازمین سے افسر شاہی کی جبری خدمت قانوناً ممنوع قرار دی جائے۔ بیگار اور عوام پر مختلف قسم کے ٹیکس جو سرداروں کی طرف سے ہیں تمام صوبے میں ختم کیے جائیں۔ اشیائے صرف کے نرخوں میں کمی کے لیے ذرائع پیداوار براہِ راست عوام کی تحویل میں دیے جائیں۔

اسی شمارے میں 19فروری 1972 کو منعقدہ سوشلسٹ ورکرز کانفرنس کی قرار دادیں بھی شائع ہوئیں۔ اس میں قرار داد نمبر4بلوچستان کے بارے میں ہے۔ ڈیڑھ کالم کی اس طویل قرارداد میں سرداری سسٹم اور جرگہ قوانین کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ مزید تعلیمی ادارے اور ہسپتال قائم کرنے اور مویشی بانی کو سائنسی بنانے کی بات کی گئی۔ ایک اہم مطالبہ یہ بھی تھا کہ معدنیات کو قومی ملکیت میں لیا جائے۔ پبلک سیکٹر میں اون کی صنعتیں قائم کرنے،ماہی گیری کو جدید صنعت بنانے کا تصور بھی پیش کیا گیا اور مچھلیوں کو ڈبوں میں بند کرنے کے کارخانوں کے قیام پر زور دیا گیا۔ سوئی گیس سے بلوچستان کے عوام کے استفادے کے مطالبے کا اعادہ کیا گیا اور پورے صوبے میں بجلی گھر لگا نے کی بات کی گئی۔ بلوچستان کی نہری زمین سرداروں، فوجی افسروں اور دیگر بااثر افراد سے واپس لے کر مستحق بے زمین کسانوں کو دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

۔29اپریل 1972کے شمارے میں ظاہر ہے کہ اولین مضمون یوم ِ مئی پر ہے۔ جس میں یومِ مئی کی تاریخ اور مزدوروں کی قربانیوں کا بیان ہے۔ اور عالمی مزدور تحریک کے لیے اس دن کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔

”سیاست کا رُخ“ نامی اداریے میں سی آر اسلم نے بھٹو کی حکمرانی کے اولین چار ماہ کا تذکرہ کیا۔ بھٹو کے مارشل لا جاری رہنے کی اولین ریڈ یائی تقریر کی مذمت کی گئی۔ اس ایڈیٹوریل میں بھٹو کے زرعی اصلاحات کے اعلان پہ شدید مایوسی کا اظہار ہے۔

بلوچستان اور صوبہ سرحد (اب خیبر پشتونخواہ) میں نیپ جمعیت مخلوط حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ پڑوسی ممالک خصوصاً بھارت سے اچھے تعلقات قائم کرنے پہ زور دیا گیا۔ سیٹو سنٹو دفاعی معاہدوں سے نکل جانے کی عوامی خواہش کا اعادہ کیا گیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*