سرحد پار اظہر صاحب کے آبائی علاقے میں اُس کا بچپن بہت اچھا گزرا۔ اُس زمانے میں سکھ، ہندو،اور مسلمان لڑکوں کی آپس میں کی زبردست دوستیاں تھیں۔ کوئی تعصب، اور خراب دلی نہیں تھی۔ اس نے جب مجھے اپنے اسکول کا نام بتایا تو میں حیران رہ گیا۔ تضادات کے اجتماع کا اظہار تھا یہ نام۔شاید یہ پورے ہندوستان میں اپنی طرز کا واحد نام تھا:”ہندو مسلم ہائی سکول، ہریانہ“۔اگلا کمال بھی دیکھیے کہ سکول کے لیے زمین رانا خاندان نے دی اور سکول کی عمارت لالہ ہرچرن داس جی نے اپنی پوری جائیداد بیچ کرکھڑی کردی۔
کمال خطہ ہے ہندوستان۔اتنے مختلف اور متضاد مذاہب کا خطہ۔ اور پھر اِن مذاہب میں ایسی لازوال ہم آہنگی کہ جس کی مثال نہیں ملتی تھی۔ اور پھر مذہب ہی کے نام پہ انسانوں نے ایک دوسرے کے گلے اس تعداد میں کاٹے کہ ہسٹری میں اس قتلِ عام کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بے مثال ہندوستان۔۔ بے مثال پنجاب۔ سوچتا ہوں تو دنگ رہ جاتا ہوں۔
اظہر صاحب کا لج کے زمانے میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی خوب حصہ لیتا تھا۔ وہ کتابیں پڑھتا تھا،ڈراموں میں اداکاری کرتا تھا۔اور موسیقی کا شوق بھی اُسے وہیں ہوا۔
اُس نے ابھی مڈل پاس ہی کیا تھا۔ اور نویں جماعت میں جانا تھا کہ پنجاب پہ 1947کا صورپھونکا گیا۔ یہ بچہ بھی وطن چھوڑنے پہ مجبور ہوا۔ وہ کبھی بھوکا کبھی پیاسا جلندھر تک پہنچ گیا۔ اور یہیں اس نے بے شمار لاشیں دیکھیں۔ آگے امرتسر پہنچے تو نسل کشیوں کی مزید آثار دیکھے۔۔تفصیل میں کیا جانا کہ ہندوستان کی تقسیم پرتواس قدر ضخیم لٹریچر موجود ہے کہ اونٹوں کی قطار بھی نہ اٹھا سکے۔میں نے تو کرشن چندر کا ناول”غدار“ پڑھ کر اس قتل و قتال اور نفرت کی تفصیلات پڑھی تھیں۔ اب تو شاید یہ کتاب دوبارہ پڑھنے تک کی بہادری نہیں رہی۔۔۔۔
بس یہ لڑکا لاہور پہنچ گیا۔ اور پھرمہاجر بن کر اوکاڑہ میں آباد ہوگیا۔
اسے نویں کلاس میں داخل کیا گیا۔ یہاں آکر اُس نے محسوس کیا کہ لوکل بچوں کی بولی اور اِن ہوشیار پور والوں کی پنجابی میں بڑا فرق تھا۔ اسے اُن کی بولی سمجھ ہی نہیں آتی تھی۔
رانا صاحب نے 1949میں اوکاڑہ سے میٹرک پاس کیا۔ او رپھر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں ایف ایس سی میں داخلہ لے لیا۔یہاں سے فارغ ہوا تو بی ایس سی کرنے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور چلا گیا۔ یہ 1952کی بات ہے۔ 1954میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی ایس سی باٹنی زوالوجی کرلی۔ یہاں اس کے دوستوں نے یہ مایوسی پھیلائی کہ ”باٹنی زوالوجی والوں کو نوکری نہیں ملتی،اور ابھی تک 4-3سالوں کے فارغ التحصیل بے روز گار پھرتے ہیں“ تب رانا صاحب نے 1955میں یونیورسٹی لاء کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ پنڈی سازش کیس والے میجر اسحاق گروپ نے بھی سزا کاٹنے کے بعد وہاں داخلہ لے لیا تھا۔یہ دونوں کلاس فیلو دوست بن گئے۔اظہر صاحب نے لاہور ہوٹل کے سامنے کمرہ کرایہ پر لے لیا۔
یہاں وہ خوب سیاست کرنے لگا۔ اس کی دوستی بہت سے سیاسی نوجوانوں سے ہوئی۔ وہ بتاتا ہے کہ کیپٹن ظفر اللہ پوشنی بہت اچھا ڈبیٹ کرتا تھا۔ ساتھ ہی اس کی شخصیت بہت پرکشش تھی۔ اس لیے رانا اسے پوشنی کے بجائے ”چاشنی“کہتا تھا۔ میجر اسحاق، سیف خالد، رانا سخاوت، ندرت الطاف اور دوسرے دوستوں نے پوشنی صاحب کو یونین کی صدارت کا الیکشن لڑوایا۔ مگر رائیٹسٹوں کے پروپیگنڈے اور پیسے کی وجہ سے ہار گیا۔
ایل ایل بی پاس کرنے کے بعد اس نے کچھ عرصہ انار کلی میں ایک دوکان کے اوپر چو بارہ لے کر اُس میں لیگل پریکٹس کا کام کیا۔ مگر اسے اوکاڑہ جانا پڑا اور یوں وہ اوکاڑہ تحصیل میں 1961میں بطور وکیل بھرتی ہوگیا۔
اس زمانے میں اُس کے جاننے والوں میں سے ہر کوئی ماؤزے تنگ کے بلے لگائے پھرتا تھا۔ پھر جب 1967میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تویہ شریف آدمی تحصیل اوکاڑہ کا کنوینر بھی تھا اورجنرل سیکریٹری بھی۔
مگر اُس کے کچھ سنجیدہ دوستوں نے اسے یہ بھی بتایا کہ امریکہ پاکستان کو چائنہ کے دھڑے سے واپس نکال کر دوبارہ امریکی دھڑے میں لانے کے لیے بھٹو کو استعمال کر رہا ہے۔یہ بھی کہ بھٹو کافیوڈل بیک گراؤنڈ ہے۔ وہ امریکہ بھی کی طرف ہی جائے گا۔ لیاقت علی وغیرہ کی طرح۔ سوشلزم کی باتیں تو محض دانشورانہ گپ شپ ہے۔
مگر رانا کہتا ہے کہ ”ہم لوگ جذبے سے بھرے تھے۔ کام کرتے رہے۔“۔
اس خطے کی گذشتہ پچاس سالہ ہسٹری میں بھاشانی اور سی آر اسلم کی ٹوبہ ٹیک سنگھ کسان کا نفرنس کی بہت اہمیت ہے ایک پوری نسل اس کسان کانفرنس سے انسپائر ہوئی۔ رانا مظہر بھی اس سے بہت متاثر ہوا۔ بالخصوص جب ہرگاؤں سے ایک ایک کر کے وفد آتے رہتے۔ سرخ جھنڈے لہراتے ہوئے، ڈھول بجاتے ہوئے اور گاؤں کے نام کا بورڈ اٹھائے ہوئے۔ دیہی کلچر کا احیا ہو چلا تھا۔ حدِ نگاہ تک ننگے پیر کسان، مست ور قصاں کسان۔
ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کے اِس سرگرم کارکن ولیڈر اظہر صاحب کو 2سال قید بامشقت اور 30کوڑوں کی سزا دی۔ مگر بہت بوڑھا ہونے کے سبب وہ کوڑے کھانے سے بچ گیا۔
تقریباً5ماہ وہ سی کلاس میں رہا۔ پھر اس کی بدلی جہلم جیل سے ساہیوال جیل ہوگئی۔ قیدیوں والی لاری میں جہلم سے ساہیوال پہنچا۔
اسے ممبر مجلس شوریٰ بننے کے لیے کہا گیا تھا۔ مگر وہ اپنے نظریات کے سبب اس میں تو شامل نہیں ہوسکتا تھا۔
وہ کہتا ہے کہ بھٹو نے پاپولسٹ سٹائل اپنایا۔ اس نے پیپلز پارٹی کو منشور، تنظیم اور تنقید والی پارٹی نہ بننے دیا جو مارشل لا کا مقابلہ کر کے جمہوریت کی کشتی کو ڈوبنے سے بچاسکتی۔ چنانچہ بھٹو کے ساتھ جو ہوا وہ تاریخ ہے۔
بے نظیر بھی باپ کی راہ پہ چلی۔ وہ امریکہ گئی تاکہ دنیا کے واحد سپر پاور کو یقین دہانی کرواسکے کہ وہ اِس سپر پاور کے مفادات کو سمجھتی ہے۔ اس کے والد کے زمانے کی غلط فہمیاں ختم ہونی چاہییں۔ جس دن بے نظیر امریکہ گئی رانانے اور چند دوستوں نے پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ استعفیٰ ان لوگوں نے اس سوچ اور احساس کی بنا پر دیاکہ بے نظیرتو وزیراعظم کی کرسی پر آنے والی ہے اور اب باپ کے قاتلوں کے ساتھ اشتراک ِ اقتدار کریں گی۔(ہاہا۔ باپ کے قاتل!۔ قبائلی بدلہ،انتقام!!)
اب کی بار رانا اظہر کا یہ فیصلہ درست تھا۔بھٹو کو لینن سمجھ کر اِن لوگوں نے جو فاش غلطی کی تھی وہ بے نظیر کے بارے میں دھرائی نہ گئی۔ اور عقل کے جوناخن بچ گئے تھے وہ اس نے لے لیے۔۔ وہ خود کہتا ہے کہ ”’میں نے سیاست میں کوئی پھل نہیں کھایا، بس تجربہ سیکھا ہے“۔
محترمہ کو جو سٹائل اور طرز سیاسی ورثہ میں ملی آخر وہی دوہرائی گئی ۔ اس کی پارٹی میں کوئی ادارہ سازی نہ ہوئی۔اُس نے پیسے لے کر ایم این اے، ایم پی اے کے ٹکٹ تقسیم کیے۔ اقتدار اور اسمبلی ممبری کی دلہن انجانے لوگ لے گئے۔ پارٹی مرکزی کمیٹی سمجھو چیف سیکریٹری آفس منتقل ہوگئی۔
پنجاب کا المیہ ہے کہ وہاں پراگریسو اور جمہوری سیاست کے مراکز بن ہی نہ سکے۔ اسی لیے اچھے اچھے سیاسی ورکر پنجاب سے باہر بورژوا لیڈروں کو انقلابی قرار دے کر اُن کا دامن تھامتے رہے ہیں۔ رانا اظہر بھی اُن میں سے تھا۔وہ بھی اور سیاسی ورکروں کی طرح 1985میں آسمان سے گرا اور کجھور میں اٹک گیا۔ پیپلز پارٹی چھوڑ کے عوامی نیشنل پارٹیANP میں شامل ہوگیا۔ مگر پنجاب میں اس پارٹی کے کارکنوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔اسے پنجاب کا صدر بننے کا کہا گیا مگر اس نے انکار کردیا۔ ”میں پہلے ہی اکنامکلی برباد ہوگیا ہوں۔ کہاں بیگ اٹھا کر پورے پنجاب کے دورے کر سکتا ہوں“۔ اسے شدید احساس ہوگیا تھا کہ لوگ مفاد کے ساتھ جڑگئے ہیں۔ حاکم کے ساتھ رہنا سیکھ گئے ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ وہ 35برس سیاسی کام کر چکا تھا۔ مگر جب ورکرز تلاش کیے تو پورے اوکاڑے میں دس آدمی بھی نہ ملے۔
رانا صاحب نے ایک ساکت دیہی معاشرے میں ہلچل کا زمانہ جھیلا۔ بے پناہ غلطیاں اور مہم پسندیاں کیں۔ اب اس بزرگ سنی میں دیگر اسباق سیکھنے کے علاوہ ایک اہم سبق یہ سیکھی کہ فوج کو اقتدار کے کسی بھی حصے اور شعبے میں گھسنے نہ دیا جائے۔
رانا والوں نے اوکاڑہ ملٹری فارم کو کسانوں سے چھیننے کی زبردست مخالفت کی اور ایک خوبصورت تحریک چلائی۔ بہت سارا لالچ اکھاڑ پھینکا، بہت ساری پیشکشیں ٹھوکر پر رکھیں۔ خوف کو تو قریب آنے ہی نہ دیا۔ایک میچور کسان تحریک منظم کی۔ جلسہ جلوس، دھرنے،ریلیاں، تقریریں، پمفلٹس۔ان لوگوں نے چاروں پانچوں گاؤوں کو جمع کیا۔ رانا نے زبردست تقریریں کیں (اس نے تقریر ہمیشہ پنجابی میں کی)۔
اسی طرح اوکاڑہ کاٹن مل میں دس پندرہ ہزار مزدور کام کرتا تھا۔ کامریڈ عبدالسلام کی سربراہی میں اِن لوگوں نے بہت سیاسی کام کیا وہاں۔ مختصر یہ کہ اس کا کہنا ہے کہ اوکاڑہ آکر ہی وہ اصل میں سیاست کی طرف مبذول ہوا۔ کامریڈ عبدالسلام سے متاثر ہو کر۔
رانا اظہر عوام کو باشعور بنانے کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ وہ کلاس شعور کو سیاست کا اے بی سی گردانتا ہے۔ اس کے خیال میں لوئر کلاس کو اپنی طاقت سے آشنا کرانا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں وہ دانشوروں کے رول کو بہت اہم گردانتا ہے۔
البتہ وہ محدودیات سے بھی خوب آگاہ ہے۔ پاکستان ایک فیوڈل ملک ہے۔اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کوبنایا ہی اسی واسطے گیا تھاکہ ایک فیوڈل رکاوٹ کھڑی کی جائے سوشلزم کو روکنے کے لیے۔ خود بھٹو نے یہی کیا۔ روٹی کپڑا بولتے بولتے، کنفیوژن پھیلاتے پھیلاتے، اور بہت نیک لوگوں کو سوشلزم سوشلزم جپواتے جپواتے گمراہ کیا۔ اور نتیجہ یہ کہ اس نے مضبوط مرکز بنالیا،اور سوشلزم کو روک دیا۔رانا اظہر اب بھی سمجھتا ہے کہ مارکسزم ٹھیک نظریہ ہے۔جب تک کلاسز موجود رہیں گے مارکسزم کا جواز رہے گا۔ وہ اس بات کو مانتا ہی نہیں کہ مارکسزم فیل ہوگیا۔
رانا صاحب نے میرے لیے باقاعدہ ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ لوگوں کو بلایا جس میں زیادہ تر ٹریڈ یونین اور سیاسی ورکر تھے۔ایسے سامعین جن سے بغیر لگی لپٹی کے، دل کی باتیں کہیں سنیں۔کوئی تکلف نہیں کوئی بناوٹ تصنع نہیں۔اس طویل نشست میں سوال جواب ہوئے۔
جیسے کہ پہلے ذکر ہوا راناصاحب ایک آرٹسٹ ہے۔ سکلپ چر اور پینٹنگز بناتا ہے۔ اس کا ایک کمال خیال یہ ہے کہ آرٹ اور سیاست باہم زبردست ساتھی ہیں۔وہ سیاست کوایک آرٹ قرار دیتا ہے۔ اس لیے اس کی رائے ہے کہ سیاست دان کو آرٹ سے خوب شناسائی رکھنی چاہیے۔ آرٹ اسے اقتدار کی لغزش گاہ میں بہکنے سے بچائے گا۔
اس کی پنیٹگز ساٹھ کی دہائی کی ہیں۔ اس نے کرائسٹ کو پینٹ کیا۔ اسی طرح اداس پس منظر میں بادلوں بھرے آسمان کی ملہار پینٹ کی۔
اسے موسیقی کی خوب شناخت ہے۔اسے راگوں کی خوب پہچان ہے۔راگ ملہار اُسے بہت پسند ہے۔
وہ کلچر کو انقلاب سے الگ کرنے کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ وہ ڈھول اور رقص کو انقلاب کا لازمی حصہ تصور کرتا ہے۔ کلچر استحصالی نظام کا تختہ کرنے کا بہت ہی موثر ہتھیار ہے۔ کلچر شیطانیت کی موت ہے۔
***
حنا جمشید، اس کے وکیل خاوند خرم علی اور ذکریا خان نے ڈائیوو کے اڈے پر دو گھنٹے میرے ساتھ گزارے اور مجھے لاہور روانہ کردیا۔
لاہور، جہاں وفا کا حکم تھا کہ اپنی عزیز دوست فہمیدہ ریاض کی قبر کی پائنتی کھڑے ہوکر اُس کی تخلیقیت اور کمٹ منٹ کے آگے سر جھکا لوں۔۔۔ دو منٹ خاموشی کی نماز۔