آگ

تم نے ہی ہم کو جانا ہے
تم ہی ہمیں پہچا نے ہو
ہم خوب ملے تھے روز اول
ہم اس دن سے ہیں سرگرداں
پیہم …….
تم نے ہی اس خالی گاگر میں

کچھ عشق کے ست رنگ آب بھرے
وہ اک صدائے منصوری..
اور اک شرار تبریزی ..
وہ اک بوئے قلندری
اور اک صفت بصری
.اور اس جام کا بھر کے پیمانہ
مجھ تشنہ لب کے ہاتھ دیا
اب اس اگنی کو
اس شکتی کو
اک مدرا جل کی مستی کو
اک آگ بھری چنگاری سے
اک آنچ سلگتی
اپنے پر جلتی ہستی سے.
کیوں اپنا من سلگاتے ہو
کیوں دل کو آنچ لگاتے ہو
کیوں جام سے جام ٹکراتے ہو
اور میخانے ہوش گنواتے ہو
تم ساگر ہو
ہم دریا ہیں
تم مدرا ہو
ہم پیمانہ
دیکھو !
دیکھ کے آگے بڑھنا
ہم دونوں ہی اول دن تھے
ہم دونوں ہی آ ج بھی ہیں
ہم دو نوں کی آگ سے ڈرنا
ہم دونوں کے میل سے ڈرنا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*