بجوکا

پریم چند کی کہانی کا’ہوری‘ اتنا بوڑھا ہو چکا تھا کہ اس کی پلکوں اور بھوؤں تک کے بال سفید ہو گئے تھے کمر میں خم پڑگیا تھا اور ہاتھوں کی نسیں سانولے کھُردرے گوشت سے اُبھر آئی تھیں۔
اس اثناء میں اس کے ہاں دو بیٹے ہوئے تھے‘ جو اب نہیں رہے۔ ایک گنگا میں نہا رہا تھا کہ ڈوب گیا اور دوسرا پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ پولیس کے ساتھ اس کا مقابلہ کیوں ہوا اس میں کچھ ایسی بتانے کی بات نہیں۔ جب بھی کوئی آدمی اپنے وجود سے واقف ہوتا ہے اور اپنے اِرد گرد پھیلی ہوئی بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے تو اس کا پولیس کے ساتھ مقابلہ ہو جانا قدرتی ہو جاتا۔ بس ایسا ہی کچھ اس کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ ۔ ۔ اور بُوڑھے ہوری کے ہاتھ ہل کے ہتھے کو تھامے ہوئے ایک بار ڈھیلے پڑے ذرا کانپے اور پھر ان کی گرفت اپنے آپ مضبوط ہو گئی۔ اس نے بیلوں کو ہانک لگائی اور ہل کا پھل زمین کا سینہ چیرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
ان دونوں بیٹوں کی بیویاں تھیں اور آگے ان کے پانچ بچے ۔تین گنگا میں ڈوبنے والے کے اور دو پولیس مقابلے میں مارے جانے والے کے۔اب سب کی پرورش کا بار ہوری پر آن پڑا تھا اور اس کے بوڑھا جسم میں بھی خون زور سے گردش کرنے لگا تھا۔
اس دن آسمان سورج نکلنے سے پہلے کچھ زیادہ ہی سرخ تھااور ہوری کے آنگن کے کنویں کے گرد پانچوں بچے ننگ دھڑنگ بیٹھے نہا رہے تھے۔ اس کی بڑی بہو کنویں سے پانی نکال نکال کر ان پر باری باری اُنڈیلتی جا رہی تھی اور وہ اُچھلتے ہوئے اپنا پنڈا ملتے پانی اُچھال رہے تھے۔ چھوٹی بہو بڑی بڑی روٹیاں بنا کر چنگیری میں ڈال رہی تھی اور ہوری اندر کپڑے بدل کر پگڑی باندھ رہا تھا۔ پگڑی باندھ کر اس نے طاقچے میں رکھے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا____سارے چہرے پر لکیریں پھیل گئی تھیں ۔ اس نے قریب ہی لٹکی ہوئی ہنومان جی کی چھوٹی سی تصویر کے سامنے آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھ جوڑ کے سر جھکایا اور پھر دروازے میں سے گزر کر باہر آنگن میں آ گیا۔
’’ سب تیار ہیں ؟‘‘اس نے قدرے اونچی آواز میں پُوچھا۔
’’ ہاں باپُو۔ ۔ ۔ ‘‘سب بچے ایک ساتھ بول اُٹھے۔ بہوؤں نے اپنے سروں پر پَلو درست کئے اور ان کے ہاتھ تیزی سے چلنے لگے۔ ہوری نے دیکھا کہ کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ سب جھوٹ بول رہے تھے۔ اس نے سوچا یہ جھوٹ ہماری زندگی کے لئے کتنا ضروری ہے۔ اگر بھگوان نے ہمیں جھوٹ جیسی نعمت نہ دی ہوتی تو لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگ جاتے۔ ان کے پاس جینے کا کوئی بہانہ نہ رہ جاتا۔ ہم پہلے جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اسے سچ ثابت کرنے کی کوشش میں دیر تک زندہ رہتے ہیں۔
ہوری کے پوتے پوتیاں اور بہوئیں۔ ۔ ۔ ابھی ابھی بولے ہوئے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں پوری تندہی سے جُت گئیں۔ جب تک ہوری نے ایک کونے میں پڑے کٹائی کے اوزار نکالے۔ ۔۔۔۔ ۔ اور اب وہ سچ مُچ تیار ہو چکے تھے۔
ان کا کھیت لہلہا اُٹھا تھا۔ فصل پک گئی تھی اور آج کٹائی کا دن تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی تہوار ہو۔ سب بڑے چاؤ سے جلد از جلد کھیت پر پہنچنے کی کوشش میں تھے کہ انہوں نے دیکھا سورج کی سنہری کرنوں نے سارے گھر کو اپنے جادو میں جکڑ لیا ہے۔
ہوری نے انگوچھا کندھے پر رکھتے ہوئے سوچا۔ کتنا اچھا سمے آ پہنچا ہے نہ اہلمد کی دھونس نہ بنئے کا کھٹکا نہ انگریز کی زور زبردستی اور نہ زمیندار کا حصہ۔ ۔ ۔ اس کی نظروں کے سامنے ہرے ہرے خوشے جھوم اٹھے۔
’’چلو بابو‘‘۔ اس کے بڑے پوتے نے اس کی انگلی پکڑ لی‘ باقی بچے اس کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گئے۔ بڑی بہو نے کوٹھری کا دروازہ بند کیا اور چھوٹی بہو نے روٹیوں کی پوٹلی سر پر رکھی۔
بیر بجرنگی کا نام لے کر سب باہر کی چاردیواری والے دروازے میں سے نکل کر گلی میں آ گئے اور پھر دائیں طرف مُڑ کر اپنے کھیت کی طرف بڑھنے لگے۔
گاؤں کی گلیوں ‘ گلیاروں میں چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ لوگ کھیتوں کو آ جا رہے تھے۔ سب کے دلوں میں مُسرّت کے انار چھوٹتے محسوس ہو رہے تھے۔ سب کی آنکھیں پکی فصلیں دیکھ کر چمک رہی تھیں۔ ہوری کو لگا کہ جیسے زندگی کل سے آج ذرا مختلف ہے۔ اس نے پلٹ کر اپنے پیچھے آتے ہوئے بچوں کی طرف دیکھا۔ وہ بالکل ویسے ہی لگ رہے تھے جیسے کسان کے بچے ہوتے ہیں۔ سانولے مریل سے۔ ۔ ۔ جو جیپ گاڑی کے پہیوں کی آواز اور موسم کی آہٹ سے ڈر جاتے ہیں۔ بہوئیں ویسی ہی تھیں جیسے غریب کسان کی بیوہ عورتیں ہوتی ہیں۔ چہرے گھونگھٹوں میں چھُپے ہوئے اور لباس کی ایک ایک سلوٹ میں غریبی جوؤں کی طرح چھُپی بیٹھی۔
وہ سر جھکا کر آگے بڑھنے لگا۔ گاؤں کے آخری مکان سے گزر کر آگے کھلے کھیت تھے۔ قریب ہی رہٹ خاموش کھڑا تھا۔ نیم کے درخت کے نیچے ایک کتا بے فکری سے سویا ہوا تھا۔ دُور طویلے میں کچھ گائیں ‘ بھینسیں اور بیل چارہ کھا کر پھنکار رہے تھے۔ سامنے دُور دُور تک لہلہاتے ہوئے سنہری کھیت تھے۔ ۔ ۔ ان سب کھیتوں کے بعد ذرا دُور جب یہ سب کھیت ختم ہو جائیں گے اور پھر چھوٹا سا نالہ پار کر کے الگ تھلگ ہوری کا کھیت تھا جس میں جھونا پک کر انگڑائیاں لے رہا تھا۔
وہ سب پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے دُور سے ایسے لگ رہے تھے جیسے رنگ برنگے کپڑے سوکھی گھاس پر رینگ رہے ہوں۔ ۔ ۔ وہ سب اپنے کھیت کی طرف جا رہے تھے۔ جس کے آگے تھل تھا۔ دُور دُور تک پھیلا ہوا ۔جس میں کہیں ہریالی نظر نہ آتی تھی بس تھوڑی بے جان مٹی تھی۔ جس میں پاؤں رکھتے ہی دھنس جاتا تھا۔ اور مٹی یُوں بھُربھری ہو گئی تھی جیسے اس کے دونوں بیٹوں کی ہڈیاں چتا میں جل کر پھول بن گئی تھیں اور پھر ہاتھ لگاتے ہی ریت کی طرح بکھر جاتی تھیں۔ وہ تھل دھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا۔ ہوری کو یاد آیا پچھلے پچاس برسوں میں وہ دو ہاتھ آگے بڑھ آیا تھا۔ ہوری چاہتا تھا کہ جب تک بچے جوان ہوں وہ تھل اس کے کھیت تک نہ پہنچے۔ اور تب تک وہ خود کسی تھل کا حصہ بن چکا ہو گا۔
پگڈنڈیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور اس پر ہوری اور اس کے خاندان کے لوگوں کے حرکت کرتے ہوئے ننگے پاؤں۔ ۔ ۔
سورج آسمان کی مشرقی کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھ رہا تھا۔
چلتے چلتے ان کے پاؤں مٹی سے اٹ گئے تھے۔ کئی اِرد گرد کے کھیتوں میں لوگ کٹائی کرنے میں مصروف تھے وہ آتے جاتے کو رام رام کہتے اور پھر کسی انجانے جوش اور ولولے کے ساتھ ٹہنیوں کو درانتی سے کاٹ کر ایک طرف رکھ دیتے۔
انہوں نے باری باری نالہ پار کیا۔ نالے میں پانی نام کو بھی نہ تھا۔ ۔ ۔ اندر کی ریت ملی مٹی بالکل خشک ہو چکی تھی اور اس پر عجیب و غریب نقش و نگار بنے تھے۔ وہ پانی کے پاؤں کے نشان تھے۔ ۔ ۔ اور سامنے لہلہاتا ہوا کھیت نظر آ رہا تھا۔ سب کا دل بلیوں اُچھلنے لگا۔ ۔ ۔ فصل کٹے گی تو ان کا آنگن پھُوس سے بھر جائے گا اور کوٹھری اناج سے۔ پھر کھٹیا پر بیٹھ کر بھات کھانے کا مزہ آئے گا۔ کیا ڈکاریں آئیں گی پیٹ بھر جانے کے بعد ان سب نے ایک ہی بار سوچا۔
اچانک ہوری کے قدم رُک گئے۔ وہ سب بھی رُک گئے۔ ہوری کھیت کی طرف حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔ وہ سب کبھی ہوری کو اور کبھی کھیت کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک ہوری کے جسم میں جیسے بجلی کی سی پھُرتی پیدا ہو ئی۔ اس نے چند قدم آگے بڑھ کر بڑے جوش سے آواز لگائی۔
’’ ابے کون ہے۔ ۔ ۔ ے۔ ۔ ۔ ے۔ ۔ ۔ ؟‘‘
اور پھر سب نے دیکھا ان کے کھیت میں پکی ہوئی فصل میں کچھ بے چینی کے آثار تھے ۔اب وہ سب ہوری کے پیچھے تیز تیز قدم بڑھانے لگے۔ہوری پھر چلایا۔
ابے کون ہے رے۔۔۔۔۔ بولتا کیوں نہیں ۔۔۔۔۔۔ کون فصل کاٹ رہا ہے میری؟ ”
مگر کھیت میں سے کوئی جواب نہ ملا۔ اب وہ قریب آ چکے تھے اور کھیت کے دوسرے کونے پر درانتی چلنے کی سراپ سراپ چلنے کی آواز بالکل صاف سنائی دے رہی تھی۔ سب قدرے سہم گئے۔ پھر ہوری نے ہمت سے للکارا۔
’’کون ہے حرام کا جنا۔ ۔ ۔ بولتا کیوں نہیں ؟‘‘اور اپنے ہاتھ میں پکڑی درانتی سونت لی۔
اچانک کھیت کے پرلے حصے میں سے ایک ڈھانچہ سا اُبھرا اور جیسے مسکرا کر انہیں دیکھنے لگا ہو۔ ۔ ۔ پھر اس کی آواز سنائی دی۔
’’میں ہوں ہوری کاکا۔ ۔ ۔ بجوکا!‘‘اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑی درانتی فضا میں ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
سب کی مارے خوف کے گھُٹی گھُٹی سی چیخ نکل گئی۔ ان کے رنگ زرد پڑ گئے اور ہوری کے ہونٹوں پر گویا سفید پپڑی سی جم گئی۔ ۔ ۔ کچھ دیر کے لئے سب سکتے میں آ گئے اور بالکل خاموش کھڑے رہے۔ ۔ ۔ وہ کچھ دیر کتنی تھی؟ایک پل ایک صدی یا پھر ایک یُگ۔ ۔ ۔ اس کا ان میں سے کسی کو اندازہ نہ ہوا۔ جب تک انہوں نے ہوری کی غصہ سے کانپتی ہوئی آواز نہ سنی انہیں اپنی زندگی کا احساس نہ ہوا۔
’’ تم۔ ۔ ۔ بجوکا۔ ۔ ۔ تم۔ ارے تم کو تو میں نے کھیت کی نگرانی کے لئے بنایا تھا۔ ۔ ۔ بانس کی پھانکوں سے اور تم کو اس انگریز شکاری کے کپڑے پہنائے تھے جس کے شکار میں میرا باپ ہانکا لگاتا تھا اور وہ جاتے ہوئے خوش ہو کر اپنے پھٹے ہوئے خاکی کپڑے میرے باپ کو دے گیا تھا۔ تیرا چہرہ میرے گھر کی بے کار ہانڈی سے بنا تھا اور اس پر اسی انگریز شکاری کا ٹوپا رکھ دیا تھا ارے تو بے جان پتلا میری فصل کاٹ رہا ہے؟‘‘
ہوری کہتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور بجوکا بدستور ان کی طرف دیکھتا ہوا مسکراتا رہا تھا۔ جیسے اس پر ہوری کی کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا ہو۔ جیسے ہی وہ قریب پہنچے انہوں نے دیکھا۔ ۔ ۔ فصل ایک چوتھائی کے قریب کٹ چکی ہے اور بجوکا اس کے قریب درانتی ہاتھ میں لئے کھڑا مسکرارہا ہے۔ وہ سب حیران ہوئے کہ اس کے پاس درانتی کہاں سے آ گئی۔ ۔ ۔ وہ کئی مہینوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ بے جان بجو کا دونوں ہاتھوں سے خالی کھڑا رہتا تھا۔ ۔ ۔ مگر آج۔ ۔ ۔ وہ آدمی لگ رہا تھا۔ گوشت پوست کا ان جیسا آدمی۔ ۔ ۔ یہ منظر دیکھ کر ہوری تو جیسے پاگل ہو اُٹھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اسے ایک زوردار دھکا دیا۔ ۔ ۔ مگر بجوکا تو اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا۔ البتہ ہوری اپنے ہی زور کی مار کھا کر دور جا گرا۔ ۔ ۔ سب لوگ چیختے ہوئے ہوری کی طرف بڑھے۔ وہ اپنی کمر پر ہاتھ رکھے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ۔ ۔ سب نے اسے سہارا دیا اور اس نے خوف زدہ ہو کر بجوکا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ تَو۔ ۔ ۔ تُو مجھ سے بھی طاقتور ہو چکا ہے بجوکا! مجھ سے۔ ۔ ۔ ؟جس نے تمہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ اپنی فصل کی حفاظت کے واسطے‘‘۔
بجوکا حسبِ معمول مسکرارہا تھا‘ پھر بولا۔ ’’ تم خواہ مخواہ خفا ہو رہے ہو ہوری کاکا میں نے تو صرف اپنے حصے کی فصل کاٹی ہے۔ ایک چوتھائی۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ لیکن تم کو کیا حق ہے میرے بچوں کا حصہ لینے کا۔ تم کون ہوتے ہو؟‘‘
’’ میرا حق ہے ہوری کاکا۔ ۔ ۔ کیوں کہ میں ہوں۔ ۔ ۔ اور میں نے اس کھیت کی حفاظت کی ہے‘‘۔
’’ لیکن میں نے تو تمہیں بے جان سمجھ کر یہاں کھڑا کیا تھا اور بے جان چیز کا کوئی حق نہیں۔ یہ تمہارے ہاتھ میں درانتی کہاں سے آ گئی؟‘‘
بجوکا نے ایک زور دار قہقہہ لگایا’’ تم بڑے بھولے ہو ہوری کاکا!۔ خود ہی مجھ سے باتیں کر رہے ہو!۔ ۔ ۔ اور پھر مجھ کو بے جان سمجھتے ہو۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’ لیکن تم کو یہ درانتی اور زندگی کس نے دی۔ ۔ ۔ ؟ میں نے تو نہیں دی تھی!‘‘
’’ یہ مجھے آپ سے آپ مل گئی۔ ۔ ۔ جس دن تم نے مجھے بنانے کے لئے بانس کی پھانکیں چیری تھیں۔ انگریز شکاری کے پھٹے پرانے کپڑے لائے تھے‘ گھر کی بے کار ہانڈی پر میری آنکھیں ‘ ناک اور کان بنایا تھا۔۔۔۔۔ اسی دن ان سب چیزوں میں زندگی کلبلا رہی تھی اور یہ سب مل کر میں بنا اور میں فصل پکنے تک یہاں کھڑا رہا اور ایک درانتی میرے سارے وجود میں سے آہستہ آہستہ نکلتی رہی۔ ۔ ۔ اور جب فصل پک گئی وہ درانتی میرے ہاتھ میں تھی۔ لیکن میں نے تمہاری امانت میں خیانت نہیں کی۔ ۔ ۔ میں آج کے دن کا انتظار کرتا رہا اور آج تم اپنی فصل کاٹنے آئے ہو۔ ۔ ۔ میں نے اپنا حصہ کاٹ لیا‘اس میں بگڑنے کی کیا بات ‘‘۔ ۔ ۔ بجوکا نے آہستہ آہستہ سب کہا۔ ۔ ۔ تاکہ ان سب کو اس کی بات اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔
’’نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ سب سازش ہے۔ میں تمہیں زندہ نہیں مانتا۔ یہ سب چھلاوہ ہے۔ میں پنچایت سے اس کا فیصلہ کراؤں گا۔ تم درانتی پھینک دو۔ میں تمہیں ایک تنکا بھی لے جانے نہیں دوں گا۔ ۔ ۔ ‘‘ ہوری چیخا اور بجوکا نے مسکراتے ہوئے درانتی پھینک دی۔
گاؤں کی چوپال پر پنچایت لگی۔ ۔ ۔ پنچ اور سر پنچ سب موجود تھے۔ ہوری۔ ۔ ۔ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ پنچ میں بیٹھا تھا۔ اس کا چہرہ مارے غم کے مُرجھایا ہوا تھا۔ اس کی دونوں بہوئیں دوسری عورتوں کے ساتھ کھڑی تھیں اور بجوکا کا انتظار تھا۔ آج پنچایت نے اپنا فیصلہ سنانا تھا۔ مقدمہ کے دونوں فریق اپنا اپنا بیان دے چکے تھے۔
آخر دُور سے بجوکا خراماں خراماں آتا دکھائی دیا۔ ۔ ۔ سب کی نظریں اس طرف اُٹھ گئیں۔ وہ ویسے ہی مسکراتا ہوا آرہا تھا۔ جیسے ہی وہ چوپال میں داخل ہوا۔ سب غیر ارادی طور پر اُٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے سر تعظیماً جھک گئے۔ ہوری یہ تماشا دیکھ کر تڑپ اُٹھا اسے لگا جیسے بجوکا نے سارے گاؤں کے لوگوں کا ضمیر خرید لیا ہے۔ پنچایت کا انصاف خرید لیا ہے۔ وہ تیز پانی میں بے بس آدمی کی طرح ہاتھ پاؤں مارتا ہوا محسوس کرنے لگا۔
آخر سرپنچ نے اپنا فیصلہ سنایا ۔ہوری کا سارا وجود کانپنے لگا ۔اس نے پنچایت کے فیصلہ کو اب کرتے ہوئے فصل کا چوتھائی حصہ بجوکا کو دینا منظور کر لیا۔اور پھر کھڑا ہو کر اپنے پوتوں سے کہنے لگا۔

’’ سنو۔ ۔ ۔ یہ شاید ہماری زندگی کی آخری فصل ہے۔ ابھی تھل کھیت سے کچھ دُوری پر ہے۔ مَیں تمہیں نصیحت کرتا ہوں ‘ اپنی فصل کی حفاظت کے لئے پھر کبھی بجوکا نہ بنانا۔ اگلے برس جب ہل چلیں گے۔ ۔ ۔ بیج بویا جائے گا اور بارش کا امرت کھیت میں سے کونپلوں کو جنم دے گا۔ تو مجھے ایک بانس پر باندھ کر ایک کھیت میں کھڑا کر دینا۔ ۔ ۔ بجوکا کی جگہ پر۔ میں تب تک تمہاری فصلوں کی حفاظت کروں گا‘ جب تک تھل آگے بڑھ کر کھیت کی مٹی کو نگل نہیں لے گا اور تمہارے کھیتوں کی مٹی بھُربھری نہیں ہو جائے گی۔ مجھے وہاں سے ہٹانا نہیں۔ ۔ ۔ وہیں رہنے دینا ۔تاکہ جب لوگ دیکھیں تو انھیں یاد آئے کہ بجوکا بے جان نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ آپ سے آپ اسے زندگی مل جاتی ہے اور اس کا وجود اسے درانتی تھما دیتا ہے اور اس کا فصل کی ایک چوتھائی پر حق ہو جاتا ہے‘‘۔ ہوری نے کہا اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کھیت کی طرف بڑھا۔ اس کے پوتے اور پوتیاں اس کے پیچھے تھے اور پھر اس کی بہوئیں اور ان کے پیچھے گاؤں کے دوسرے لوگ سر جھکائے ہوئے چل رہے تھے۔
کھیت کے قریب پہنچ کر ہوری گرا اور ختم ہو گیا‘ اس کے پوتے پوتیوں نے اسے ایک بانس سے باندھنا شروع کیا اور باقی کے سب لوگ یہ تماشا دیکھتے رہے۔ بجوکا نے اپنے سر پر رکھا شکاری ٹوپا اُتار کر سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنا سر جھکا دیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*