مینٹل اسائلم میں

"تم ہنستی ہو
مجھے اکیلا دیکھ کے میرے رستے میں
بیگانہ موسم ، گھائل دن ، نوکیلے کانٹے
چُن دیتی ہو ۔۔۔
اور پھر پیڑ کے پیچھے
چُھپ کر دیکھتی ہو۔۔۔
میری عمر کا سُوت، آنکھ کے موتی، میرے من کا سونا
اِدھر اُدھر بکھرا دیتی ہو۔۔۔۔
تم ہنستی ہو۔۔۔
مجھے اکیلا دیکھ کے
ہنستی رہتی ہو”

بولتے بولتے وہ ننھے بچے کے جیسے
پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا
گھٹی گھٹی چیخوں میں مانو
دنیا بھر کا کرب چھپا تھا ۔۔
اور پھر میرے دیکھتے دیکھتے
اگلے پَل میں
گہرے، کالے بادل چیر کے سورج نکلا ۔۔۔۔
کھوئی کھوئی آنکھوں سے اک سایہ گزرا
اور وہ بولا

"تم کتنی اچھی ہو
مجھ سے روز ہی ملنے آ جاتی ہو
تم آتی ہو۔۔۔ نرم ملائم کرنیں
کمرے کے کونوں کو بھر دیتی ہیں ۔۔۔
اور مسکان کا جادو ڈھیروں پھول کھلانے لگتا ہے۔۔۔
میرے زخمی ہاتھوں، روکھے بالوں کو سہلاتی ہو
کرچی کرچی فرش پہ بکھرے
دل کو جوڑ کے دھڑکن جاری کر دیتی ہو۔۔۔۔۔تم اچھی ہو۔۔۔۔”

ٹھیک سے اب تو یاد نہیں ہے
جانے کتنے برسوں سے وہ
دھوپ چھاؤں کے اس جھولے میں جھول رہا ہے
کیا جانیں جلتے شعلوں کے اندر کیسے
ٹھنڈی ، میٹھی خوشبو والے
جھلمل موسم گھُلے ہوئے ہیں
میں اکثر ان بھید بھری آنکھوں کو
دیکھ کے سوچتی ہوں
ان غُرفوں میں جانے کس ترتیب سے تارے، جگنو، نشتر،
آگ، سمندر، ۔۔۔۔
ایک ہی ڈور سے
بندھے ہوئے ہیں۔۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*