سکول کا پرنسپل جلال آل احمد

اصلی نام سید جلال آل احمد تھا۔ جلال آل احمد کے نام سے شہرت دوام پائی۔ 24 نومبر 1923کو تہران میں پیدا ہوا۔ والد سید احمد طالقانی اور والدہ خانم دانائی تھیں۔ والد مجتہد تھا۔ جلال نجف کے دینی مدارس میں الہیات پڑھنے کے ساتھ ساتھ (جسے اس نے ادھورا چھوڑ دیا تھا) تہران یونیورسٹی سے فارسی زبان و ادب کے شعبے میں پی ایچ ڈی کے لیے بھی زیرِ تعلیم رہا۔ لیکن ڈگری نہیں لی۔ 1950 میں سیمین دانشور سے شادی کی جو خود بھی اعلی پائے کی مصنفہ تھی، تاہم آخر عمر تک اُن کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اس بات کو جلال نے خود اپنی ایک کتاب ”سنگی بر گوری“ (کسی قبر پر ایک کتبہ) میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
”ہمارے کوئی اولاد نہیں ہے۔ میرے اور سیمین کے۔ ٹھیک ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ لیکن کیا بات یہیں پر آکر ختم ہوجاتی ہے؟۔۔۔ کسی خوشگوار دن آپ اپنا کام کررہے ہوتے ہیں جب اچانک آپ کو گھر سونا سونا لگنے لگتا ہے اور پھر اس خاتون (میری والدہ کی خالہ کی بیٹی) کی بات یاد آتی ہے جو نہ جانے کتنے سال پہلے ہم سے ملنے آئی تھی اور یہ بات اس کی زبان سے نکلی تھی کہ: شہر میں گھر اتنے چھوٹے ہیں کہ بچے ہل بھی نہیں سکتے اور ایک آپ ہیں جو اتنا بڑا صحن خالی رکھے ہوئے ہیں۔“
جلال ایک روشن خیال، کہانی کار، نقاد، صحافی، سیاسی شخصیت، ڈاکومنٹری میکر، مترجم اور یونیورسٹی کا استاد کے تھا۔ انہیں”جلال آلِ قلم“ کا لقب بھی دیا گیا۔ جلال کی اہم ترین خصوصیت اس کے لکھتے رہنے کی عادت تھی۔ وہ ہر روز کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا تھا۔ لکھنے کے علاوہ اسے کوئی دوسرا کام آتا ہی نہیں تھا۔ سیمین دانشور کے بقول جلال کئی کئی گھنٹے اپنے کمرے سے باہر نہ نکلتا تاکہ کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔ ادھر ادھر کتابوں سے نوٹس بناتا۔ مختلف لوگوں کو خطوط لکھا کرتا تھا۔ شمس کے بقول جلال کے گھر کے آدھے سے زیادہ کچرے کے ڈبے اس کے لکھے ہوئے کاغذات سے بھرے رہتے تھے۔ لکھنے کے ساتھ ساتھ جلال ان کتابوں کی چھپائی کے لیے بھی اہتمام کرتا تھا۔ بہت کم کام ایسے تھے جنہیں چھاپنے میں وہ تذبذب کا شکار رہا ہو۔ اس کی تحریریں بہت صاف اور عوام پسند ہیں۔ اس کی اکثر تحریریں پڑھتے ہوئے ڈکشنری کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ جلال مختصر جملوں کا مصنف ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں اپنا مطلب بیان کرتا ہے۔ اس کے اکثر موضوعات معروضی نوعیت کے ہیں۔ ایران کے معروف نقاد رضا براہنی کا ماننا ہے کہ جلال کی اکثر تحریریں معروضی اور سماجی موضوعات کے بارے میں ہیں۔ وہ کہتاہے کہ کاش جلال اپنی نثر کو (جو صادق ہدایت کی نثر سے بھی بہتر ہے) کرداروں کی اندرونی کیفیت پرکھنے کے لیے استعمال کرتے۔ جلال کی تحریروں کی ایک اور خصوصیت اس کی حقیقت پسندی ہے۔ حسن میرعابدینی جلال کی اس حقیقت پسندی کو ”بغیر مداخلت حقائق کی تصویرکشی“ کہتا ہے۔ اس کے بعض مجموعے حسب ذیل ہیں:
ملاقات (فارسی: دید و بازدید) (بارہ افسانے) (1945)
فالتو عورت (فارسی: زن زیادی) (نو افسانے) (1952)
سہ تار (تیرہ افسانے) (1952)
اسکول کا پرنسپل (فارسی: مدیر مدرسہ) (ناول) (1958)
نون والقلم (ناول) (1961)
زمین کی بددعا (فارسی: نفرین زمین) (ناول) (1961)
پانچ افسانے (فارسی: پنج داستان) (1971 )
عزرائیل کے دیار کا سفر (فارسی: سفر بہ ولایت عزرائیل) (ڈاکومینٹری) (1984)
امریکہ کا سفر (فارسی: سفر آمریکا) (2006)
گنہگار ہاتھ (جان پال سارتر) (ترجمہ) (1952)
غلط فہمی (البرٹ کیموس) (ترجمہ) (1950 )
جواری (فیودر دستوفسکی) (ترجمہ) (1948)
جلال کی بعض کتابیں دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکی ہیں جیسے:
ولایت عزرائیل کا ترجمہ The Israeili Republic کے نام سے سیموئل ٹروپے نے کیا؛
مدیر مدرسہ (اسکول کا پرنسپل) کا ترجمہ The school principal کا ترجمہ جان کے، نورٹن نے کیا؛
سنگی بر گوری (کسی مزار پر ایک کتبہ) کا ترجمہ آذفر معین نے A Stone on a Grave کے نام سے کیا؛
نون والقلم کا ترجمہ By the Pen کے نام سے ہوچکا ہے، جو قانون پرور نے کیا ہے۔
ادبیات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا ماننا ہے کہ جلال معاصر ادب کا ایک نہایت مو ¿ثر مصنف تھا۔ جلال کی نثر اور نظر دونوں پر ہمیشہ سے روشن خیالوں اور مصنفین کے درمیان بحثیں چلی آرہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آل احمد کے نظریات کے حامی اور مخالف دونوں بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔ یہاں ہم چند اہم شخصیات کی آرا بیان کررہے ہیں:
محمد علی جمالزادہ:
جمالزادہ جلال کو”مردِ مردانہ“ کہتاہے، جس سے وہ صرف ایک بار مل پایا تھا۔ ہرچند ملاقات سے پیشتر ”سکول کا پرنسپل“ کتاب پر دونوں کے درمیان شدید تنقیدی خط و کتابت ہوئی تھی لیکن ان کی ملاقات عقیدت اور محبت سے لبریز تھی۔ ”غروب جلال“ کتاب پڑھتے ہوئے جمالزادہ نے لکھا کہ سیمین دانشور نے اس کتاب میں جلال کی منفرد اور فیاض شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ دکھایا ہے کہ وہ انتھک محنت، خدمت گزاری اور عوام دوستی کی عمدہ مثال تھا۔
سیمین دانشور:
سیمین دانشور نے اپنی کتاب ”غروبِ جلال“ میں جلال کے بارے میں اپنی آرا کی وضاحت کی تھی۔ دانشور کی یہ کتاب جلال کی تعریفوں سے بھری ہوئی ہے۔ سیمین دانشور جلال کی زندگی اور موت کو ”خوبصورت“ سمجھتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جلال کے ہاتھ آلودہ نہیں تھے اور وہ حکومت کا نوکر بننا گوارا نہیں کرتا تھا۔ دانشور لکھتی ہے: جلال دیکھتا خوب ہے اور دکھاتا بھی خوب ہے۔ اسے کسی کا خوف نہیں۔“ دانشور کا ماننا تھا ادب میں جلال کی کوششیں ”ایثار اور فداکاری“ کی صورت اختیار کرگئی تھیں۔ اس کا کہنا تھا کہ دنیا میں ایسی عورتیں بہت کم ہوں گی جو اس جتنی خوش قسمت ہوں جتنی وہ ہے اور جنہیں ایسا بہترین شریک حیات ملا ہو، جیسا اسے ملا ہے۔
محمود دولت آبادی:
دولت آبادی خود کو جلال کی کتابوں کا نقاد سمجھتا ہے اور ”زمین کی بددعا“ کو ایک ”سطحی“ کتاب سمجھتا ہے۔ اس کے خیال میں جلال کی کہانیاں ایسی نہیں کہ ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کراسکیں۔ اس کے باوجود وہ جلال کی ”عوام دوستی“ کو سراہتا ہے۔ دولت آبادی کے خیال میں جلال ایک ”باطنی اپنائیت“ کے ساتھ لکھتا تھا لیکن اس کا قلم ”تاریخ کے عمیق اور ہمہ گیر“ تجزیہ کرنے پر پوری طرح قادر نہیں تھا۔
احمد شاملو:
احمد شاملو نے 1969 کے اوائل میں جلال کی تعریف میں ایک نظم لکھی:
”پانی کے چکر والا شخص
ایک مختصر شخص
جو آپ اپنا خلاصہ تھا۔“
شاملو نے بعد میں جلال پر تنقید بھی کی اور اس کی کتاب ”غرب زدگی“ کو ایک ”بیہودہ“ کتاب اور خود جلال کو ”مولوی کا بچہ“ کہا اور آخر تک کہتا رہا۔ شاملو کی یہ تنقید بالکل ایک نئے زاویے کی تنقید تھی۔
ڈاکٹر علی شریعتی:
ڈاکٹر علی شریعتی کہتے تھے کہ تین سال گزر جانے کے بعد بھی اس کی روح جلال کے غم کی قید سے باہر نہیں نکل سکی ہے۔ وہ جلال کو ایک ایسا روشن خیال شخص سمجھتا تھا جو اپنی طرف واپس لوٹنے کی ریاضت کررہا تھا۔ ڈاکٹر علی شریعتی جلال کی جرائت اور شجاعت کی تعریف کرتا تھا۔ اس کی نظر میں جلال ایک ذمہ دار، بیدار اور آگاہ مصنف تھا۔ ڈاکٹر علی شریعتی نے ایک سے زیادہ مرتبہ جلال کی مدح میں لب کشائی کی۔
بزرگ علوی:
بزرگ علوی کا ماننا تھا کہ جلال کو وہی احترام ملنا چاہیے جو روشن خیال طبقے نے صادق ہدایت کو دیا ہے۔ اس کے باوجود علوی کے خیال میں یہ دونوں مصنفین (جلال اور ہدایت، جنہوں نے تقریبا ایک جتنی زندگی گزاری) اپنا ”شاہکار“ تخلیق کرنے میں ناکامیاب رہے ہیں۔
ہوشنگ گلشیری:
گلشیری کے مطابق اگر آپ جلال کی نثر ”ایک پیالی چائے“ کے ہمراہ پڑھنا چاہیں تو ”یا پیالی ٹوٹ جائے گی یا چائے گر جائے گی؛ لیکن اگر آپ کسی سانحے کی تصویرکشی کرنا چاہیں یا پھر ٹرین میں سفر کرتے ہوئے مسافر کے مناظر ثبت کرنا چاہیں تو جلال کی نثر بہترین نثر ثابت ہوگی۔ اس کی بہترین مثال ”زمین کی بددعا“ میں دیکھی جاسکتی ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نثر افسانوں میں زیادہ بہتر انداز میں ظاہر ہوتی ہے، خاص طور پر جب افسانہ پہلے شخص کی زبانی بیان ہورہا ہو۔“ جلال کے بارے میں گلشیری کی حتمی رائے یہ ہے کہ ”جلال اور اس کا کام میرے جملوں میں نہیں سمو سکتا۔“
سن 1923 یعنی جلال کی پیدائش سے لے کر 1969 یعنی وفات تک جلال کی ساری زندگی عجلت اور ہیجان سے عبارت تھی اور اس ہیجانی زندگی کے آثار ہمیں اس کی تحریروں میں جابجا ملتے ہیں۔ مثلا سائیکل چلانے اور اپنا بچپن اس نے اپنے افسانے گلدستے اور آسمان میں بیان کیا ہے اور اپنے ٹیچر اور پرنسپل ہونے کو اپنی کہانیوں ”سکول کا پرنسپل“ اور ”زمین کی بددعا“ میں۔ جلال جیسا جیتا تھا، ویسے ہی لکھتا تھا۔ وہ نئی اور خیالی باتیں لکھنے کے حق میں نہیں تھے، اسی لیے اسے حقیقت پسند منصف کہا جاتا ہے۔ جلال کی ساری زندگی عجلت سے عبارت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو اس کی شادی کا یقین نہ آتا تھا، شادی کیا تھی، بجلی کی کوند اور لپک تھی۔ صرف چند دنوں کی دوستی، عشق اور شادی۔ سیمین دانشور (جسے جلال ”شیرازی لڑکی“ بھی کہہ کر بلاتا تھا) اس سے قبل کئی رشتے ٹھکرا چکی تھی لیکن جلال کی جاذبیت کے سامنے تاب نہ لاسکی۔
یہی عجلت جلال کی تحریروں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ بعض مصنفین کے برعکس، جلال کی اکثر و بیشتر تحریریں اس کی زندگی میں ہی چھپ کر منظر عام پر آچکی تھیں۔ اسے اپنا کوئی بھی کام چھپا کر رکھنے کی عادت نہیں تھی۔ لکھتا تھا، پروف ریڈنگ کرتا تھا، کانٹ چھانٹ کرتا تھا اور چھپوانے کے لیے بھیج دیتا تھا۔ جلال کے لیے ایک کتاب لکھنے اور اسے چھپوانے کا درمیانی فاصلہ زیادہ نہیں ہوتا تھا۔
جلال نے لکھنے کا آغاز کیا تو پہلے چند برسوں میں صرف افسانے لکھے لیکن اگلی دہائیوں میں اس عادت کو خیرباد کہا اور زندگی کے آخری چند برسوں میں صرف ناول لکھتا تھا۔
جلال کو سفر کا بڑا شوق تھا۔ جوان تھا تو زیادہ تر اندرونِ ملک علاقوں کے سفر پر رہتا تھا۔ زندگی کی آخری دہائی میں، بقول خود ان کے، انہیں دنیا کے چار قبلوں کی زیارت نصیب ہوئی، یعنی ماسکو، امریکہ، مکہ اور بیت المقدس۔ اسی دہائی میں یورپ کا سفر بھی کیا۔
جلال نے بڑھاپا نہیں دیکھا۔ زندگی کی پہلی شدید بیماری آخری ثابت ہوئی۔ لیلی گلستان نے اس کی وفات کی خبر سنی تو بے ہوش ہوگئی۔ سیمین کو بھی اس کی ناگہانی وفات کا یقین نہ آیا۔ جلال کی وفات بھی اس کی پیدائش کی طرح تھی: ناگہانی۔ جلال 9 ستمبر 1969 کو ہارٹ فیل ہونے کے باعث صوبہ گیلان کے شہر اسالم میں فوت ہوا اور شہرِ رے میں فیروزآبادی مسجد میں سپرد خاک ہوا۔ جلال کے بھانجے نے جلال کی ناگہانی وفات پر شک کرتے ہوئے اسے قتل سے تعبیر کیا۔ جلال نے اپنی زندگی میں صمد بہرنگی اور تختی پہلوان کی موت کو قتل قرار دیتے ہوئے اس کا الزام حکومت پر ڈالا تھا اور اب خود اس کی اپنی موت بھی پابلو نیرودا اور یاسر عرفات کی طرح مشکوک تھی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*