سوویت فلم

Battleship Potemkin

بالشویک انقلاب (1917ء) سے قبل ہمیں روسی سینما کا سراغ نہیں ملتا۔ انقلاب سے پہلے سینما کے نام پر ہلکے پھلکے میوزیکل ڈرامے اور سطحی کہانیوں پر مشتمل فلمیں بنائی جاتی تھیں۔ انقلاب کے بعد کمیونسٹ قیادت بالخصوص ولادیمیر لینن نے سرمایہ دارانہ پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے سینما کی اہمیت کو شدت سے محسوس کیا۔ لینن کی ہدایت اور ذاتی دلچسپی کی وجہ سے کمیونسٹ حکومت نے سینما کی تعمیر و ترقی پر بھرپور توجہ دی۔ چند ہی سال بعد سوویت سینما دنیا کے بہترین سینماؤں میں سے ایک بن کر ابھرا۔

سوویت دور کے نامور فن کاروں میں سے اہم ترین سرگئی آئزن سٹائن ہیں، جنھیں فنِ سینما پر نظریہ ساز بھی مانا جاتا ہے۔ آئزن سٹائن نے”مونتاج“تکنیک کی تھیوری پیش کی۔مونتاج تھیوری بعد ازاں ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ مونتاج تکنیک، اس کے پسِ منظر و پیش منظر پر بحث کرنا فی الوقت ممکن نہیں ہے۔

مختصراً اس تکنیک میں موسیقی کے ذریعے بدلتے زمان و مکان کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ کردار سے زیادہ واقعات اور ان سے بنتے بگڑتے حالات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ کردار حالات کی مناسبت سے ردعمل دکھاتے ہیں جس کی وجہ سے حالات بدل جاتے ہیں اور بدلتے حالات کردار کے عمل اور ردعمل میں مزید تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں۔ یہ تمام عمل ایڈیٹنگ کے ذریعے سر انجام دیا جاتا ہے۔ سوویت سینما کے نظریہ سازوں نے مونتاج پر خاصی بحث کی ہے اور اسے مختلف طریقوں سے اپنی فلموں میں برتا ہے۔

جیسے کہ کہا گیا مونتاج تکنیک کے اہم ترین استاد سرگئی آئزن سٹائن ہیں اور اس تکنیک پر بننے والی ان کی سب سے بہترین تخلیق 1925 ء کی خاموش فلم”بیٹل شپ پوتمکین”ہے۔ یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو کہ یہ فلم دنیا بھر کی دس عظیم ترین فلموں میں سے ایک ہے۔

فلم 1905ء کے روسی جہازیوں کی بغاوت کے پس منظر میں بنائی گئی ہے۔یہ اخذ کرنا گم راہ کن ہوگا کہ یہ سو فیصد حقیقی واقعہ پر مبنی ہے بلکہ ایک حقیقی واقعہ کو بنیاد بنا کر جبر و استحصال کے خلاف عوامی مزاحمت اور انقلاب کو دکھایا گیا ہے۔

آغاز میں جہاز کے مزدوروں کو مضرِ صحت گوشت کی فراہمی پر احتجاج کرتے دکھایا گیا ہے۔ مزدوروں اور افسروں کے درمیان کشمکش‘خونی تصادم پر منتج ہوتی ہے جس میں ایک مزدور کی جان چلی جاتی ہے۔ واقعہ کی اطلاع ساحلی شہر اوڈیسا پہنچتی ہے۔ زار شاہی کے جبر و استبداد کے شکار شہری اس واقعہ کے خلاف مشتعل ہو کر سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ زار کے سپاہی عوام کو منتشر کرنے کے لیے بندوق کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔عوام اور حکومت کے درمیان مخاصمانہ تضاد بالآخر پرولتاری انقلاب میں بدل جاتا ہے۔

فلم مختلف حصوں میں تقسیم ہے۔ جسے مونتاج تکنیک کے ذریعے ایک وحدت میں پرویا گیا ہے۔ مونتاج تکنیک کا سحر انگیز منظر اوڈیسا میں فورسز کا عوام پر گولی چلانا اور مرد و زن کا شیر خوار بچوں سمیت جان بچانے کے لیے سیڑھیوں پر گرتے پڑتے سرپٹ دوڑنا ہے َ اس سیکوئنس کو کمال مہارت سے اس طرح ایڈٹ کر کے پیش کیا گیا ہے کہ ناظر خود کو بھول کر اس منظر کے درد و کرب میں ڈوب جاتا ہے۔ 1925ء کی ایک خاموش فلم میں اس قسم کے حیرت انگیز سیکوئنس کو صفائی کے ساتھ پیش کرنا، بلاشبہ ہدایت کار کی عظمت ثابت کرتا ہے۔

فلم کا زیادہ تر حصہ کلوز اپ اور لانگ شاٹس پر مشتمل ہے۔ یہ شاٹس الگ الگ لیے گئے ہیں، پھر ان کو مونتاج تکنیک کے ذریعے اس طرح ایڈٹ کیا گیا ہے کہ وحدتِ تاثر بن جاتا ہے۔

فلم بین کو بتانے نہیں بلکہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ آپ ہیں جو دنیا بدل سکتے ہیں۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*