فاضل راہو: جورُ کے تو کوہِ گراں تھے ہم ۔۔۔

فاضل راہو سے میری پہلی ملاقات سندھ ہائیکورٹ کے احاطے میں ہوئی۔ ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ کی پیشی کیلئے انہیں جیل سے ہائی کورٹ لایا گیا تھا۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے کسی عدالتی حکم کے بغیر قید کاٹ رہے تھے۔ یوں بھی زندگی کا ایک بڑا حصہ انہوں نے زندانوں، عقوبت خانوں، تفتیشی مراکز اور تھانوں میں گزارا تھا۔ انہوں نے اپنی مجموعی 57سالہ زندگی کا ایک بڑا حصہ ڈسٹرکٹ جیل بدین، ڈسٹرکٹ جیل خیرپور، سینٹرل جیل حیدرآباد، نارا جیل حیدرآباد، سینٹرل جیل سکھر، سینٹرجیل کراچی، ڈسٹرکٹ جیل لانڈھی، کوٹ لکھپت جیل لاہور، مچھ جیل بلوچستان اور دیگر جیلوں، تھانوں کے لاک اپس اور مختلف تفتیشی اداروں کے اذیت رساں اور ہولناک مراکز میں گزارا تھا۔ سندھ ہائیکورٹ کی مرکزی عمارت کے دروازے کی بائیں جانب گھاس پر بیٹھے ہوئے فاضل راہو اپنی سیاسی جماعت کے کارکنوں، ذاتی دوستوں اور مختلف تعلیمی اداروں کے طالب علموں میں گھرے ہوئے تھے۔ مجھے دورسے اپنی طرف آتا دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور بڑی محبت اور گرمجوشی سے ملے۔ میں ان دنوں جنگ لندن کیلئے کام کر رہا تھا اور جنگ کے مڈویک میگزین کے سیاسی صفحات کا انچارج تھا۔

یہ 1986کے اوائل کا زمانہ تھا۔ ان دنوں بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد یا انضمام کے سلسلے میں بات چیت جاری تھی۔ سردار شیر باز مزاری کی جماعت این ڈی پی۔ میرغوث بخش بزنجوکی تنظیم پاکستان نیشنل پارٹی۔ رسول بخش پلیجو کی پارٹی عوامی تحریک اور مزدور کسان پارٹی کے مابین مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا۔ اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ تھی کہ ان مذاکرات سے این ڈی پی کے سربراہ سردار شیر باز مزاری کو الگ تھلگ رکھا گیا۔ مزدور کسان پارٹی کے فتحیاب علی خان مذاکرات سے لاتعلق تھے۔ پاکستان نیشنل پارٹی کی طرف میر غوث بخش بزنجو کبھی کسی اجلاس میں شریک نہ ہوئے مگر ان کی نمائندگی کراچی کے کمیونسٹ لیڈر بی ایم کٹی اور پنجاب کے شمیم اشرف کرتے تھے۔ ان مذاکرات کے بارے میں جو اطلاعات موصول ہوتی تھیں، ان سے لگتا تھا کہ کمیونسٹوں کی داخلی جنگ زوروں پر جارہی ہے۔ بائیں بازو کی مختلف پارٹیوں کے دم چھلے پن کی سیاست کرنے والے کمیونسٹ سازشیں کرنے میں ماہر تھے۔ انہی دنوں پاکستان کمیونسٹ پارٹی روسی کمیونسٹوں کی نقالی کرتے ہوئے (ناموں کی حد تک نقالی) بالشویک اور مینشویک گروپوں میں تقسیم ہوچکی تھی۔ روس میں 1905کے انقلاب سے ذرا پہلے، انقلاب کے دوران اور 1905کے بعد روسی کمیونسٹ پارٹی اپنے پرانے نام سوشل ڈیموکریٹک پارٹی میں بالشویک اور منشویک نامی دو دھڑے وجود میں آچکے تھے۔ بالشویک (اکثریت) دھڑے کی قیادت لینن کر رہے تھے۔ جبکہ منشویک (اقلیتی) دھڑے کے سرخیل پلیخانوف بنے ہوئے تھے۔ بعینہ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے دھڑوں کو بالشویک اور مینشویک کا نام دیا گیا۔ پاکستان میں بالشویک دھڑے کی قیادت جام ساقی اور جمال نقوی کر رہے تھے جبکہ مینشویک دھڑے کی سربراہی میر تھیبو اور کامریڈ غلام رسول کے ہاتھوں میں تھی۔ ان پارٹیوں نے اپنے بعض لوگ عوامی سطح پر کھلی سیاست کرنے والی پارٹیوں پی این پی، این ڈی پی اور دیگر جماعتوں میں بھی چھوڑ رکھے تھے۔

ہمیں یہ اطلاعات مل رہی تھیں کہ شمیم اشرف کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا انضمام نہ ہونے پائے۔ اتحاد یا انضمام والی میٹنگوں میں شمیم اشرف نت نئے شو شے چھوڑتے رہتے تھے۔

فاضل راہو سیاسی سرگرمیوں کے سلسلے میں جب بدین سے کراچی آئے تو فیڈرل بی ایریا میں عائشہ منزل کے قریب ایک فلیٹ میں قیام کرتے، ان دنوں انہوں نے یہ فلیٹ کرائے پر لے رکھا تھا۔ میں ایک روز اپنے بزرگ دوست چاچا نذیر پتافی کے ہمراہ فاضل راہو سے ملنے اُن کے فلیٹ پر گیا۔ ان دنوں گفتگو کا محبوب ترین موضوع سیاست ہوا کرتی تھی۔بعد ازاں ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت سیاست اور سیاسی عمل کو گالی بنادیا گیا۔ ہماری گفتگو طویل ہوگئی اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ ساتھ ہی بھوک کا احساس بھی فزوں تر ہوتا گیا۔ فاضل راہو نے گفتگو کے درمیان مختصر وقفے کا فیصلہ کیا اور اُٹھ کر باورچی خانے میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ آلو کا سالن اور روٹیاں لے کر آگئے۔ ”جیل نے ہمارا کچھ بگاڑا ہویا، نہ بگاڑا ہوہمیں باورچی ضرور بنادیا“۔فاضل راہو نے واقعی لذیز کھانا تیار کیا تھا۔چاچا نذیر پتافی نے بھی کھل کر کھانے کی تعریف کی۔

اس ملاقات کے کچھ عرصہ بعد کراچی کینٹ کے علاقے میں مہران ہوٹل کے بالمقابل واقع زرداری ہاؤس میں چار جماعتوں کے اتحاد سے عوامی نیشنل پارٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اتحاد میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان نیشنل پارٹی، عوامی تحریک اور مزدور کسان پارٹی کے انضمام سے عوامی نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ مگر این ڈی پی کے مرکزی صدر شیر باز مزاری اور صوبہ سندھ کے صدر یوسف جاکھرانی کراچی کے اہم عہدیدار حسن فیروز اور دیگر بہت سے ایم افراد اے این پی میں شامل نہیں ہوتے۔

پاکستان نیشنل پارٹی سے کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے چند افراد شریک ہوئے۔ ان میں سے بھی بی ایم کٹی، یوسف مستی جان، شمیم اشرف ملک اور دیگر کامریڈز بزنجو صاحب کے ساتھ ہی رہ گئے۔ پی این پی سے ٹوٹ کر اے این پی میں جانے والوں کے بارے میں میر غوث بخش بزنجو نے مجھ سے کہا کہ اگر خان عبدالولی خان سے کبھی ملاقات ہو تو انہیں بتانا کہ جو کامریڈ آپ کے ساتھ شامل ہوئے ہیں وہ آبگینے ہیں جو جلد ٹوٹ جاتے ہیں۔ مزدور کسان پارٹی سے خیبر پختونخوا اور سندھ سے تعلق رکھنے والے چند افراد شامل نہیں ہوئے۔ فتحیاب علی خان نے مزدور کسان پارٹی کے صدر کے طور پر اپنا الگ تشخص برقرار رکھا تاہم لاہور سے سردار شوکت علی اے این پی میں شامل ہوگئے۔ عوامی تحریک پوری کی پوری اے این پی میں شامل ہوئی۔ خان عبدالولی خان کو عوامی نیشنل پارٹی کامرکزی صدر منتخب کیا گیا، فاضل راہو پارٹی کے پہلے سینئر نائب صدر مقرر ہوئے۔ سردار شوکت علی کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیااور حاکم علی زرداری اے این پی سندھ کے صدر منتخب ہوئے۔ہمارے دوست کامریڈز بیر رحمن بھی اے این پی کراچی کے جوائنٹ سیکرٹری بنے تھے جبکہ امین خٹک کو کراچی کا صدر منتخب کیا گیا تھا۔

فاضل راہو اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر بننے کے بعد ملکی سطح کی سیاست پر بڑی اہمیت اختیار کر گئے تاہم وہ زندگی بھر رسول بخش پلیجو کے وفادار ساتھی رہے۔ 1987کے آغاز میں 17 جنوری کو ”سن“میں جی ایم سید کی 83ویں سالگرہ منائی جارہی تھیں۔ وہاں سے ہمیں سالگرہ کی تقریبات کی رپورٹیں ٹیلیفون پر موصول ہورہی تھیں۔ اچانک ظفر رضوی صاحب میرے دفتر میں تشریف لائے اور نہایت افسوسناک اور ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا کہ فاضل راہو کو قتل کردیا گیا ہے۔ ان کی دھیمی آواز میری سماعت پر پہاڑ بن کر گری۔ ہم ایک بہترین دوست اور سندھ کے لوگ اپنے باہمت، بہادر، جری اور دلیر ساتھی اور سیاستدان سے محروم ہوگئے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*