.

سائیں!تو اپنی چلم سے

تھوڑی سی آگ دے دے

میں تیری اگر بتی ہوں

اور تیری درگاہ پر مجھے

ایک گھڑی جلنا ہے۔۔۔

یہ تیری محبت تھی

جو اس پیکر میں ڈھلی

ا ب پیکرسلگے گا

تو ایک دھواں سا اٹھے گا

دھوئیں کا لرزاں بدن

آہستہ سے کہے گا

جو بھی ہوا بہتی ہے

درگاہ سے گذرتی ہے

تیری سانسوں کو چھوتی ہے

سائیں!آج مجھے

اس ہوا میں ملنا ہے

سائیں!تو اپنی چلم سے

تھوڑی سی آگ دے دے

میں تیری اگر بتی ہوں

اور تیری درگاہ پر مجھے

ایک گھڑی جلنا ہے۔۔۔

جب بتی سلگ جا ئے گی

ہلکی سی مہک آئے گی

اور پھر میری ہستی

راکھ ہو کر

تیرے قدم چھوئے گی

اسے تیری درگاہ کی

مٹی میں ملنا ہے۔۔۔

سائیں!تو اپنی چلم سے

تھوڑی سی آگ دے دے

میں تیری اگر بتی ہوں

اور تیری درگاہ پر مجھے

ایک گھڑی جلنا ہے۔۔۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*