ٹارچ

"اس بات کے لیے میں ہمیشہ تمھاری ماں کا شکر گزار رہوں گا کہ اس نے تمھیں تیرنا سکھادیا۔”
"کیوں؟”، یہ انداز سوالیہ نہیں تھا بلکہ ایک ا حتجاجی کراہ کی صورت میں باہر نکلا۔لوئیسا نہیں چاہتی تھی کہ اس کا باپ اس کی ماں کے بارے میں گفتگو کرے۔وہ اپنی ماں سے تنگ آچکی تھی۔ اس کی ماں کچھ بھی تو ٹھیک سے نہیں کرسکتی تھی۔ لوئیسا کے خیال میں اب ان کی نئی زندگی کا یہی طریقہ تھا کہ لوئیسا اور اس کا باپ دو مچھلیوں کی مانند ہیں جو اسکی ساحل زدہ ماں کو پیچھے چھوڑ دیا کریں۔
وہ ساحل کے پتھریلے کنارے پر چل رہے تھے۔ ساحل سے ایک قدم دور، خارا سنگ بلاک کے ٹکڑوں پر ہر قدم بہت احتیاط سے رکھتے۔اس کی ماں تو ساحل کی ریت پر بیٹھ کرمسکرا بھی نہیں سکتی تھی۔ اس کی ماں تو پانی کے رخ پر بنے اس چھوٹے کرائے کے مکان میں یقیناً بستر میں لیٹی ہوگی۔تمام گرمیاں لوئیسا اکیلی ہی لہروں سے کھیلتی رہی تھی، کیوں کہ اس کی ماں بیمار تھی اور اس کا باپ ہمیشہ کوٹ پتلون میں ملبوس ہوتا۔چار ہفتوں میں، جب سے وہ یہاں آئے تھے، وہ روز ہی اپنے باپ سے کہتی کہ وہ ساحل پر چہل قدمی کریں، اور بالآخر آج وہ راضی ہوگیا تھا۔ان لہروں سے آتی بوچھارپتھروں کو گیلا کررہی تھی، تو اس نے اپنی پتلون کے پائنچے احتیاط سے الٹ لیے تھے، لیکن پھر بھی وہ اپنے محنت سے پالش کیے جوتے پہنے رہا تھا۔ایک ہاتھ میں اس نے ٹارچ پکڑی ہوئی تھی جو بالکل ضروری نہیں تھی، دوسرے ہاتھ میں اس نے لوئیسا کا ہاتھ تھام رکھا تھا، اس کی ضرورت بھی بالکل نہیں تھی۔ اس سے محبت کی وجہ سے لوئیسا نے یہ برداشت کرلیا تھا۔
"کیوں کہ یہ جاننا اہم ہوتا ہے کہ تیرتے کیسے ہیں”، اس نے سمجھایا۔”تمھاری اپنی حفاظت کے لیے۔لیکن جب وہ تمھیں سکھا رہی تھی تو میرا خیال تھا کہ یہ بہت خطرناک ہے۔ یہ میری بہت نا انصافی تھی۔”
"مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ مجھے نفرت ہے تیراکی سے۔”
وہ دونوں اس بات سے واقف تھے کہ سچ اس کے متضاد ہے۔شاید اس کا باپ جانتا ہے کہ اس تبصرے کی ایک وجہ تو ایک دس سال بچی کا اعلان خود مختاری ہے، جس کا اضطراری رد عمل بلا وجہ ہر بات میں جھگڑالو ہوتا ہے۔ پانی پر بہت دور، اس جگہ سے بہت دور جہاں پتھرریت کی ایک پتلی پٹی سے مل رہے تھے، سورج اپنی تمازت کھو چکا تھا، اور اب افق پر محض ایک زردی رہ گئی تھی۔ انہیں جلد ہی واپس لوٹنا ہوگا۔
"میں نے کبھی تیرنا نہیں سیکھا”، اس کے باپ نے انکشاف کیا۔
"کیوں؟” اس دفعہ اس کے لہجے میں حیرت تھی، اس کا سوال حقیقی تھا۔
"کیوں کہ میرے بچپن میں ہم بہت غریب تھے، میری دسترس میں کوئی وائی ایم سی اے (Y.M.C.A.) نہیں تھا۔”
"وائی ایم سی اے(Y.M.C.A.) تو بہت قابل نفرت ہے، مجھے تو وہاں جانے سے بہت چڑ ہوتی ہے۔”
"ایک دن تم اپنی ماں کی شکر گزار ہوگی۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ شکر گزاری تمھارے رویے میں ابھی سے نظر آئے۔”
یہ وہ آخری الفاظ تھے جو وہ اس سے کبھی کہہ سکے گا۔
(یا یہ وہ آخری الفاظ ہیں جنہیں وہ یاد کر پائی ہے؟ کیا اس نے کچھ اور بھی کہا تھا؟ کوئی ہے ہی نہیں کہ جس سے پوچھا جاسکے۔)
لوئیسا بیدار لیٹی چھت کو تک رہی تھی۔ جہاں دروازے کی چوکھٹ سے شروع ہوتی روشنی کی ایک پتلی پٹی نمایاں تھی، پہلے کسی بلیڈ کی مانند تیز ، پھر رفتہ رفتہ ماند پڑتی، درواز ے میں ہلکی سی درز وا تھی۔دروازہ اس لیے مکمل بند نہیں تھا کہ لوئیسا کو اندھیرے سے ڈر لگتا تھا۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ہر رات جب لوئیسا کو یقین ہوجاتا کہ اس کی ماں اب سن نہیں سکے گی تو وہ اٹھ کر دروازہ ذرا سا کھول دیتی۔۔ جب دیوانگی کی حد تک آہستہ رفتار سے اس کی ماں کمرے سے پسپائی اختیار کرتی، بے احتیاطی سے اپنی وہیل چئیردروازے کی چوکھٹ سے ٹکراتی، عین اس وقت جب لوئیسا اس پر چلانے کے لیے تیار ہوتی۔جب آخر کار اس کی ماں دروازے سے نکل جاتی ،دروازے کے ہینڈل پر ٹھٹکتی ، اس کا ہا تھ دروازے کے ہینڈل پر ہوتا، دروازے میں پتلی سی درز وا رہتی۔
"براہ کرم اسے مکمل بند کردیں”، لوئیسا تیکھے، بڑوں کے انداز میں کہتی۔
پہلی بار اس نے یہ اس وقت کہا تھا جب وہ مزید ایک لمحہ بھی اپنی ماں کی موجودگی وہاں برداشت نہیں کرسکتی تھی، دروازے کی درز سے جھانکتی۔اس کے بعد اس نے ہر رات یہ جملہ دہرایا۔ کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ بغیر اس بات کے غلط ہوئے بھی، یہ عمل اطمیان بخش حد تک اس کی ماں کو تکلیف پہنچاتا۔یہ ادا کرنے کے بعد ایک ذرا سا وقفہ آجاتا، جو لوئیسا کو ناگوار نہیں گزرتا، کیوں اس سے یہی ظاہر ہوتا کہ اس کی ماں کو اطمینان بخش حد تک دکھ پہنچا ہے۔اس کی ماں کو شاید اب بھی یہی تمنا تھی کہ لوئیسا اس سے بوسے کی یا کسی کہانی کی فرمائش کرے جیسے وہ اب بھی پانچ برس کی ہو۔اس کی ماں نے کبھی یہ خواہش ظاہر تو نہیں کی لیکن یہ بالکل واضح تھی۔ ضرورت بن جانے کی اتنی واضح ضرورت نے لوئیسا کی ماں کو عموماـسے زیادہ قابل نفرت بنا دیا تھا۔دروازہ ایک بھاری آوازسے اپنی چوکھٹ سے جڑ جاتا؛ یہ ایک ایسا ہی امریکی دروازہ تھا کہ جس سال وہ کہیں اور رہی تھی لوئیسا ان کی موجودگی بھول ہی گئی تھی۔ ایک ایسا دروازہ جسے بند ہی ہونا ہوتا ہے۔پھر لوئیسا تاریکی میں لیٹی رہتی، اس کا بے رحم دماغ اپنی ماں کی وہیل چئیرکا برآمدے میں تعاقب کرتا، ایسے چور دروازے تصور کرتا جو اس کرسی کے نیچے پوشیدہ تھے، جوکسی بھی وقت کھل جاتے۔ اسی دوران، اگر لوئیسا عین وقت پر چھلانگ لگا کر اتر نہ جاتی اور مہارت سے دروازہ دوبارہ ہلکا سا کھول نہ دیتی، تو تاریکی کسی سانپ کی مانند ، اس کے سینے پر سوار ہوجاتی، احتیاط سے ایسے بل کھاتی جس میں وہ کچل جاتی ، دفن ہوجاتی۔ دروازے کے ہینڈل کو گھمانے میں لوئیسا ماہر ہو گئی تھی۔ اپنی ماں کی طرح اناڑی پن سے اور نہ ہی اپنی ممانی کی طرح بے دماغی سے۔جب روشنی کمرے میں داخل ہوتی تو تاریکی مر جاتی لیکن کوئی آواز پیدا نہ ہوتی۔ وہ دوبارہ روشنی کی اس پٹی کو تکنے بستر میں گھس جاتی۔
لیکن آج آواز بھی در آئی تھی۔ وہ الفاظ سمجھ تو نہیں سکی تھی، لیکن اس کی ضرورت بھی نہیں تھی ، وہ جانتی تھی کہ وہ اس کے بارے میں بات کررہے ہیں۔اس صبح بجائے وقت پر اسکول پہنچنے کے، اس کی خالہ اسے وسط شہر بچوں کے ماہر نفسیات کے پاس ایک عمارت میں لے گئی تھیں۔کسی نے وہ اصطلاح استعمال نہیں کی تھی بچوں کا ماہر نفسیات۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ اسکی کلاس کے بارے میں گفتگو کے لیے ملاقات ہے۔ یا کم از کم وہ شروع میں یہی سمجھی تھی۔یہاں لاس اینجلز منتقلی پر اسے چوتھی جماعت میں داخل کیا گیا تھا جب کہ اسے پانچویں میں ہونا چاہیے تھا۔وہ چوتھی جماعت نصف مکمل کرچکی تھی جب وہ اور اس کے والدین امریکہ چھوڑ کر ایک سال کے لیے جاپان منتقل ہوگئے۔ اور وہیں اس نے اپنی چوتھی جماعت مکمل کرلی تھی۔وہ تمام کاپیاں، کتابیں ، پڑھائی اور امتحانات جو اس کے والدین اس دورے پر ساتھ لائے تھے، اور اس نے جاپانی چوتھی جماعت بھی مکمل کرلی تھی۔اس نے چوتھی جماعت دوبار مکمل کی تھی، دو ممالک میں، اور اب اس سے کہا جا رہا تھا پھر وہی کرے، اسے ایسے پیچھے روکا جارہا تھا جیسے وہ فیل ہوگئی ہو۔
یہ ملاقات ایک اینٹوں کی دفتری عمارت میں تھی، جس میں نصف سیڑھیاں چڑھ کر داخلہ تھا۔ جب وہ چڑھ رہے تھے تو اس کی ممانی نے کہا تھا: تمھاری ماں انہی سیڑھیوں کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں آسکی تھی۔ میں نے پہلے ہی فون کرکے معلوم کرلیا تھا کہ کیا سیڑھیاں ہوں گی، اور یقیناً انہوں نے بتایا تھا کہ سیڑھیاں تو ہیں۔ بیچاری تمھاری ماں۔
"وہ بیمار نہیں ہیں” لوئیسا بولی تھی۔
"کیا کہہ رہی ہو پیاری؟”
لوئیسا خاموش رہی تھی۔
"میں نے تمھاری بات نہیں سنی تھی پیاری۔”
اب لوئیسا ایسے بن سکتی تھی کہ جیسے اس نے نہیں سنا ہو۔یہ بہت موثر تھا۔ کوئی کبھی توجہ سے سنتا ہی نہیں تھا، وہ لوگ بھی جن کا دعوی تھا کہ وہ سن رہے تھے، لیکن وہ نہیں سن رہے تھے۔
تو ملاقات میں اس آدمی سے معاملہ یوں رہا: "میرا نام ڈاکٹر برکنر ہے "اس نے جھک کر لوئیسا سے ہاتھ ملانے کی اداکاری کی۔ وہ پہلے ہی لوئیسا کی ممانی کو انتظار گاہ میں چھوڑنے اور لوئیسا کو یہ یقین دلانے کا مظاہرہ کرچکا تھا کہ اس کی ممانی وہیں اس کا انتظار کررہی ہوگی، جیسے لوئیسا کو کوئی خوف رہا ہو کہ اس کی ممانی غائب ہوجائے گی۔لوئیسا کی ممانی ایک چمکدار روشنی کی مانند تھیں جسے لوئیسا بجھانے میں ناکام رہی تھی۔جن راتوں میں لوئیسا کی ماں اس قابل نہیں ہوتی، یہ اس کی ممانی تھی جو اسے بستر میں لٹاتی، اور پھر دروازے میں دیر تک ٹھہری رہتی۔ممانی اپنے محبت آمیز رویے کے اظہار کے لیے اپنا سر ہر وقت ایک جانب جھکائے رہتیں، آنکھیں مچکا لیتیں، یا اپنے ہونٹ ایسے بھینچ لیتیں جیسے اندر قید تمام خوش ذائقہ تاریکی سے لطف اندوز ہورہی ہوں۔ کبھی وہ لوئیسا کے سامنییہ چہرا بناتے ہوئے وہ اپنے جوان بیٹوں کا ذکر نکال لیتیں، اوراس گھر میں لوئیسا کی موجودگی سے ان کی یاد آجانا کتنا خوبصورت تھا۔ لوئیسا کو یقین نہیں تھا کہ اس کی ممانی ا یسا محسوس کرتی ہے۔ جب تک وہ اور اس کی ماں یہاں منتقل نہیں ہوئے تھے، لوئیسا نے کبھی اس ممانی اس ماموں کے بارے میں سنا بھی نہیں تھا، جن کے بارے میں اب لوئیسا کو یہ ظاہر کرنا پڑتا کہ وہ ساری زندگی ان سے واقف رہی ہے۔ اس کی زندگی کے تمام دس سال، جس میں اس نے ان کے نام بھی نہیں سنے تھے، نہ ان تصاویر دیکھی تھیں، نہ کبھی اپنی سال گرہ پر کوئی کارڈ یا تحفہ وصول کیا تھا، کبھی ایسے کسی فون کا جواب نہیں دیا تھا جس میں ان میں سے کوئی اس کی ماں یا باپ کے باپ کے بارے میں دریافت کررہا ہو۔ اب وہ ان کے مکان میں رہتی تھی، اور نارنگی کا عرق پیتے ہوئے انہیں گھورتی رہتی۔ وہ اس سے ایسا ہی رویہ رکھتے جیسے اس کے باپ کے انتقال کے بعد سے ہر بزرگ نے روا رکھا تھا: دل بھر کے توجہ اور ایک محتاط بے آرامی کی آمیزش سے۔
ــ”برک نر، بالکل جیسے یہ برک کی بد نما عمارت جس میں ہم ہیں”، اس آدمی نے خوش دلی سے کہا۔” اس طرح تمھیں یاد رہے گا! لیکن میرا پہلا نام جیری ہے اور میں چاہوں گا تم مجھے اسی نام سے پکارو۔ کیا میں تمھیں لوئیسا کہہ سکتا ہوں؟”
"تو مجھے یاد رکھنے کی ضرورت نہیں”، وہ بولی۔
"کیا تھا؟ "ہنسی کا رخ لوئیسا کی جانب تھا۔” کیا کہا تھا تم نے؟”
"میں کہہ رہی تھی کہ مجھے برکنر اس بدنما عمارت کے حوالے سے یاد رکھنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ تم کہہ رہے تھے میں تمھیں جیری کہہ کر بلا سکتی ہوں۔”
اب اس آدمی نے قہقہہ لگایا اور بھنویں اچکا کر بولا "میرا کیال ہے کہ تم ذہین لڑکی ہو۔”
"اتنی ذہین تو ہوں کہ پانچویں جماعت میں ہو سکوں۔”
"اوہ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں، مجھے یقین ہے اس میں کوئی شبہ ہوہی نہیں سکتا”، جیری فضول بولتا رہا، اس کی سنے بغیر، اس سے وہ جان گئی کہ یہ ملاقات اس کے گریڈ کے بارے میں نہیں ہے۔
یہ کمرہ یقیناً دلچسپ چیزوں سے پر تھا: آرٹ کا سامان، وہ بے چہرا چوبی اجسام جو مختلف زاویے بنانے کے کام آتے، اور ساتھ ہی مختلف اقسام کی حقیقی گڑیاں بھی، خستہ حال، کپڑے کی بھدی گڑیوں سے ، بالکل اصلی لگتی نوزائیدہ گڑیاں، جس میں سخت پلاسٹک کے سر، ہاتھ اور پائوں اور ساتھ ہی بیوقوفی کی حد تک نرم پیٹ، بازو اور ٹانگیں، بکھرے بالوں والی باربی ، اور لڑکوں کے لیے وہ سپاہی باربی، جی آئی جونز۔ایک دلچسپ اور غیر معمولی گڑیا گھر، اس قسم کا جس کی صرف تعریف ہی نہیں کی جاتی بلکہ اس سے واقعی کھیلا جاسکتا ہے، مختلف ناپ کے بکھرے فرنیچر، جیسے اس بات پر اتفاق نہ ہوسکا ہو نہ کون سا ناپ استعمال کیا جائے۔لوئیسا ناپ کی کلیدکے بارے میں جانتی تھی، ایک فٹ کے لیے ایک انچ والا ناپ۔ جس سال وہ چھ برس کی ہوئی تھی اس کے باپ نے اس کے لیے ایک گڑیا گھر بنایا تھا۔پہلی جماعت میں اس کی توجہ کا مرکز مال میں ایک دکان بنی رہی جس کا نام تھا یہ ایک چھوٹی دنیا ہے، جہاں ننھے گھر فروخت ہوتے تھے جنہیں وہ گھورتی رہتی، مسحور، اس عجیب سے احساس میں گھری کہ وہ اپنے جسم سے بلند ہوکران حیرت انگیز چیزوں کے درمیان داخل ہورہی ہے، وہ چیزیں جن کے نام سے وہ ناواقف تھی، لہذا ایک ایک کرکے سیکھ رہی تھی۔ ۔ آتش دان کی کریدنی، بڑا گھریلو گھڑیال، ٹوپیاں ٹانگنے کا اسٹینڈ اور پنجوں والی الماریاں۔ اس کی پسندیدہ کتابوں کی نوجوان ہیروئینیں ایسے ہی گھروں میں رہتی تھیں، دروازوں کے چھوٹے چوبی لٹو، گرد پوش اور ایمبرائیڈری ، ہر ٹانکا اتنا چھوٹا جیسے ککروندوں کے گالوں میں الجھے چھوٹے سیاہ بیج۔ ہر دفعہ مال جانے پر، اس کی ماں کی پالیسی تھی کہ اسے بیس منٹ دیتی تھی کہ وہ اس دکان کی تلاشی لے ۔ اس کی التجائوں کو مکمل نظر انداز کرتی کہ وہ واقعتاـکچھ خرید بھی لیں۔ جب کہ اپنے باپ سے اسے صرف ایک ہی بار کہنا پڑ ا تھا۔ وہ فوراـمال گئے تھے، سارے راستے اس کا باپ اس کی ماں کی کنجوسی کو کوستا رہا۔ دکان میں گھستے ہی اس نے پہلے گڑیا گھر کی قیمت دیکھی تو وہ اسی رفتار سے دکان سے نکل آئے تھے۔
"یہ تو میں بنا سکتا ہوں”، اس نے اعلان کیا تھا۔
شغل کے لیے بنی پلائی وڈ کی پتلی دیواروں کو چھوٹی کیلوں سے جوڑا گیا تھا، لیکن پھر کیلیں ان دیواروںکو پھاڑ کر باہر نکل گئی تھیں، ان کے کناروں کوکندنہیں کیا گیا تھا۔ چھت پر ایک کھر درے ربر کے ٹکڑوں کی کھپریل ڈالی گئی تھی جو اس کے باپ نے تہہ خانے سے ڈھونڈ نکالا تھا۔ہارڈویر کی دکان سے خریدے گئے وا ل پیپر کو دیواروں اور فرش کے ناپ کا کاٹا گیا تھا۔ بیشتر فرنیچر بھی اس کے باپ نے خود ہی بنایا تھا، اپنی بنیان میں باورچی خانے کی میز پر رات رات بھر بیٹھا، بئیر کا گلاس قریب رہتا، دانتوں میں پائپ دبا ئے وہ ایک ہلکی لکڑی کے ٹکڑے کاٹ کر انہیں جوڑتا تاکہ ایک چھتر والے بستر کا نمونہ سا بن جائے۔
ابتدا میں تو لوئیسا اس بے ڈھنگے، بے سلیقہ گڑیا گھر سے بہت پریشان ہوگئی تھی،گو اس نے اس کا اظہار نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے باپ کی محنت سے متاثر اور دکھی تھی۔ وہ اتنی مشقت سے ایک اتنی بد صورت چیز بنا رہا تھا جس کی اسے کوئی خواہش نہیں تھی۔لیکن پھر بھی ، کسی طرح وقت کے ساتھ اسے احساس ہوگیا کہ اس اختصار میں بھی حسن تو موجود ہے۔شاید اس کی ماں نے بھی ننھے تکیے ، چادریں اور چھتر سی کر اسے اجاگر کیا تھا، لوئیسا کو یہ بتا کر کہ بھورے ڈاک کے ٹکٹ دیواروں پر تصویری آرٹ کی جگہ پیوست کیے جاسکتے ہیں، ایمبر ائیڈری کے ذرا سے اون کامٹر کی جسامت کا گولہ بنا کر، اس میں دو پنیں ایسے آی پروئی جاسکتی ہیں جیسے کسی کا بنائی کا ننھا سامان ہو۔
پھر لوئیسا گھنٹوں فرش پر بیٹھ کر اس عجیب سے دستی گڑیا گھر کو دیکھتی رہی تھی۔ اب یہ اس کے گھر سے اتنا ملتا ہوا محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ چند اشیا جو اس کے والدین نے” یہ چھوٹی دنیا” نامی دکان سے اس کے آنسو پونچھنے کے لیے خریدی تھیں، وہ پیانواپنی نیلی مخمل کی بنچ سمیت، چار کمزور کرسیاں، وہ اجنبی لگ رہی تھیں، نقلی۔ کتنی غلط۔
"لوئیسا؟”
وہ چونک گئی۔ڈاکٹر برکنراس کے شانے پر سے جھانک رہا تھا۔ وہ گڑیا گھر سے دور ہٹ گئی، برکنر کے پاس سے گزری اور ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ چند لمحے پہلے، تعارف کے دوران ، یہ ضروری تھا کہ وہ اس کی آنکھوں سے رابطہ نہ کرے، کمرے میں ایسی چیزوں پر نظر جمائے جو برکنر نہیں تھیں۔ اب وہ اسے کسی چیز میں دلچسپی لیتے دیکھ لے گا، تو اب چاہیے تھا کہ وہ اس چیز پر سے نظر ہٹالے، اور ایسی بن جائے جیسے اسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ دونوں کمرے میں تنہا تھے اور کسی نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ ملاقات کتنی طویل ہوگی۔ لیکن چاہے یہ ہمیشہ بھی جاری رہے وہ اسے کچھ معلوم نہیں ہونے دے گی۔
"تم اس گڑیا گھر سے کھیل سکتی ہو "وہ بولا۔لوئیسا کو اس کے التجائیہ لہجے میں لطف محسوس ہوا۔”یہ اسی لیے توہے۔”
"نہیں، ٹھیک ہے۔”
"کیا تم کچھ تصویریں بنانا پسند کرو گی، میرے پاس ڈرائنگ کا بہترین سامان ہے۔”
"نہیں ٹھیک ہے۔ مجھے ڈرائنگ میں زیادہ لطف نہیں آتا۔”اسے فوراـہی وہ پیشکش ناپسند ہوئی۔ یقیناً وہ بہت آہستگی سے پیش قدمی کررہا تھا۔ وہ شاید واقعی توجہ سے سن رہا تھا۔
"تمھیں کس قسم کی چیزوں میں لطف آتا ہے؟”
کچھ بڑے یہ کرنے پر قادر ہوتے ہیں، لوئیسا نے محسوس کیا تھا۔بجائے اس کے کہ وہکہیں اوہ، یا یہ کہیں کہ تم بات کرتے ہوئے اتنی بڑی معلوم ہوتی ہو، یہ بڑے بہت خوبی سے فضا سے آپ ہی کے الفاظ چن کر انہیں واپس آپ کی طرف بھیج دیتے، ایک سپاٹ چہرے کے ساتھ، جیسے وہ سمجھ رہے ہوں کہ شاید آپ کسی طرح ہپناٹائز ہو جائیں گے۔ یہ ایک کھیل تھا۔ کوئی پر لطف کھیل نہیں، بلکہ مقابلہ بازی، اسکور رکھنے والا کھیل، عقل مند بڑا ایک کے بعد ایک آپ کے پرت اتارتا ہے۔۔
"یہ ٹارچ کس لیے ہے؟ "لوئیسا نے اس سے پوچھا تھا، تو برکنر کے دماغ کو فورـاـوہاں پہنچنا تھا اور یہ ظاہر کرنا تھاجیسے یہی سوال متوقع تھا۔۔
وہ ٹارچ کھڑکی کی منڈیر پر رکھی تھی، اس کا بلب والا سرا نیچے کی سمت اوندھا تھا۔کمرے میں کھڑکیا ں بہت بڑی ، اونچی اور گہری منڈیروں والی تھیں۔ یہ منڈیریں بے ترتیبی سے چیزوں سے پرُ تھیں، جیسے کمرے کی دیگر تمام سطحیں بے ترتیبی سے پر تھیں۔پودے لگے گملے قریب قریب رکھے تھے۔ ان کی درمیانی جگہ میں مٹی کی گیندوں اور نلکیوں سے جڑے،آرٹ کے بدنما نمو نے بھدے پن سے رکھے ہوئے تھے۔ اور دوسرا بے ڈھنگا آرٹ اور کرافٹ کا کباڑ جو لوئیسا کا خیال تھا کہ دوسرے بچوں نے اپنی ملاقاتوں کے دوران بنائے ہوں گے۔ان سب کے درمیان وہ ٹارچ بہت غیر نمایاں تھی، اور ڈاکٹر برکنر کو بد سلیقگی سے گردن گھما کر ، تقریباـپریشانی میں اسے ڈھونڈنا پڑا کہ دیکھ سکے وہ کس چیز کے بارے میں بات کررہی ہے۔
"یہ اندھیرے میں دیکھنے کے لیے ہے”، وہ مزاحیہ انداز میں بولا۔
"لیکن یہاں تو روشنی ہے”
اس نے اپنا مزاح ترک کردیا۔ "یہ اس لیے ہے کہ اگر بجلی چلی جائے۔ ایسا عموماـہوتا تو نہیں ،لیکن ہو بھی سکتا ہے، بالخصوص کسی زلزلے کے نتیجے میں۔”
"یہاں آنے سے پہلے میں جہاں رہتی تھی وہاں تو ہر وقت زلزلے آتے رہتے تھے۔”
"جاپان میں”
اسے ایک طرح سے مایوسی ہوئی کہ وہ پہلے ہی اس بات سے واقف تھا۔ لیکن وہ تو ہر بات سے واقف تھا۔ "کیا ہم بتی بجھا سکتے ہیں؟”
"لیکن اس سے تاریکی تو نہیں ہوگی۔”
"آپ پردے نیچے گرا سکتے ہیں۔”
ـ”تاریکی پھر بھی نہیں ہوگی۔ نیم تاریکی ہو جائے گی”ـ، ڈاکٹر برکنر نے پیشن گوئی کی، لیکن وہ یہی کرنے میں مصروف ہوگیاتھا۔وہ چق (بلائنڈز) بہت پرانی ، ناقابل اعتبار مسئلہ تھی اور صاف ظاہر تھا کہ پہلے کبھی نہیں گرائی گئی تھی۔ جب برکنر ان سے الجھ رہا تھا تو وہ چق اس سے الجھ رہی تھی، اس کی لمبی دھاتی پٹیاں الجھ رہی تھیں، اور نیم بند جھول رہی تھیں، ہر بار شکست کھانے سے پہلے ان سے دھول کا ایک غبار سا اٹھتا، پھر اس نے ہتھیار ڈال دیے اور چق کی ساری پٹیاں ایک ساتھ بند ہوگئیں۔جمنے سے پہلے وہ دھول ، چق اور کھڑکی کے درمیان درز سے جھانکتی روشنی کی اس پتلی دھار میں ایسے چمک رہی تھی جیسے کوئی پیغام دے رہی ہو۔جب اس کی آنکھیں عادی ہوگئیں تو لوئیسا کو سب نظر آنے لگا، لیکن اگر وہ سورج سے نکلتی سوئیوں کی جانب براہ راست نہ دیکھتی تو یہ ایک خوشگوار دھندلکا تھا۔ ڈاکٹر برکنر اپنی ڈیسک سے اس کی کرسی کی جانب جھکا اور ٹارچ اس کی جانب بڑھادی۔وہ حیرت انگیز طور پر اطمینان بخش حد تک بھاری تھی۔لوئیسا نے انگوٹھے سے پلاسٹک کا سوچ دبایا، چھت پر زرد روشنی کا ایک بادل نمودار ہوگیا۔
"یہ اچھا ہوا”، وہ بولا۔” میرا خیال تھا کہ اس کی بیٹری ختم نہ ہوگئی ہو۔”
"اگر وہ ختم ہوگئئی ہوتی، اور کوئی زلزلہ آجاتا تو آپ دشواری میں مبتلا ہوجاتے۔”
"بالکل درست ۔”
وہ چھت پر روشنی کے ہالے سے ایسے کھیلنے لگی جیسے اس کی موجودگی بالکل فراموش کرچکی ہو۔ چھت اس سے بہت اوپر تھی، اوپر بجھی ہوئی بتی سے دو گنا زیادہ بلند، جو تاروں سے لٹکی ،بدنما، ایک مہیب برف کی کشتی کی مانند تھی۔ اس بڑی برف کی کشتی سے اوپر روشنی کا مدھم ہالہ چھت پر ٹہلتا دیوار سے نیچے اتر رہا تھا۔ لگتا تھا جیسے اس میں جان پڑ گئی ہو، اس کے حکم کے تابع لیکن ساتھ ہی اس کے لیے اسرار سے پرُ۔ ڈوو، ڈوو، ڈوو، ڈوووو، وہ بیوقوفی سے گنگنانے لگی۔ وہ پانچ معروف سرُ دہرا رہی تھی جو ان دنوں نئی فلم Close Encounters of the third kind میں اڑن طشتری سے آتے پیغام کے طور پر سب ہی پہچانتے تھے۔
ڈاکٹر برکنر نے قہقہہ لگایا۔ وہ دونوں اوپر چھت کی جانب ایسے دیکھنے لگے جیسے وہاں واقعی کچھ موجود ہو۔ ـ”کیا وہ فلم تمھیں پسند آئی تھی؟” اس کی آواز نے پوچھا، جو اب زیادہ قابل برداشت تھی کیوں کہ اسے برکنر کا چہرا نہیں دیکھنا پڑ رہا تھا۔
"مجھے ڈرائونی لگی تھی”، اپنی سچائی سے وہ خود ہی حیران اور ناراض سی ہوگئی۔
"کیوں؟”
اس نے شانے اچکا دیے اور ٹارچ کی شعاع چھت پر ایسے لہرا نے لگی جیسے کچھ مٹا رہی ہو۔ایک پر لطف طریقے سے، جیسے ہیلووین (Haloween) کی چیزیں۔
"تو جب تم نے کہا تھا کہ تمھیں ڈرائونی لگی تھی تو اس سے تمھارا یہ مطلب تھا؟”
اس نے دروازہ ذرا سا کھول دیا تھا، لیکن وہ اتنا جسیم تھا کہ اسے داخل ہونے میں دیر لگی اور وہ دروازہ بند کر چکی تھی۔ اسے برکنر پر رحم آنے لگا۔ بڑوں کے لیے اس کی حقارت یہی رحم دلی تو تھی، ان کا خیال تھا کہ وہ اسے سمجھ گئے ہیں، اور پھر وہ ایسی فاش غلطی کر بیٹھتے جب کہ اسے ایسے ظاہر کرنا پڑتا جیسے وہ پکڑی گئی ہو۔ وہ اڑن طشتری سے آنے والا گیت پھر دہرانے لگی، ٹارچ سے چھت پر پانچ کونوں والا ستارہ بنانے لگی۔
"کیا تمھیں اسٹار وارز پسند آئی تھی؟ "ڈاکٹر برکنر نے سوال کیا، جیسے وہ یہاں فلموں میں اس کے مذاق پر گفتگو کے لیے ہی اکٹھے ہوئے ہوں۔
"بالکل”
"تو تمھیں سائنسی فلمیں پسند ہیں؟”
اس کی تو وہ اجازت نہیں دے سکتی تھی۔Close Enxounters” سائنسی فلم تو نہیں۔ اس فلم میں تو ہر چیز نارمل ہے۔ اسی وجہ سے تو وہ دوسری دنیا سے آنے والے اتنے اصلی لگتے ہیں۔”
"اور یہ بہت ڈرائونی بات ہے۔”
"نہیں دوسری دنیا کے وہ باشندے بالکل ڈرائونے نہیں، وہ بہت اچھے لگ رہے تھے۔”
"تو پھر ان کا اصلی لگنا تمھیں خوفزدہ کیوں کر رہا تھا؟”
"نہیں، خوف زدہ نہیںکیا تھا۔ اور پھر جب وہ اترے تھے تو وہ نقلی لگ رہے تھے۔”
"لیکن ابھی تو تم نے کہا تھا کہ وہ بالکل اصلی لگ رہے تھے۔ "اس کے لہجے کی فتح مندی نے لوئیسا کو بتا دیا کہ برکنر کے خیال میں اس نے الجھن کا کوئی سرا تلاش کرلیا ہے۔ جیسا جہاں بھی لوئیسا کے الفاظ ٹھیک نہیں بیٹھ رہے ہوں، ایسے ہر مقام پر وہ ایک پوائنٹ جیتے گا۔ اس نے روشنی کا رخ اس کے چہرے کی جانب موڑ دیا، اس نے آنکھیں میچ لیں، لیکن اسے ڈانٹا نہیں، اس نے گویا انعام میں ٹارچ کا رخ بدل دیا۔
"میں نہیں ڈری، انہوں نے ڈرایا نہیں تھا۔”
"لیکن ان کی آمد کے اشارے، ریڈیو کی عجیب آوازیں، آسمان پر روشنی، وہ باپ جو مٹی کا ٹاور بناتا ہے اور اس کا خاندان سمجھتا ہے کہ وہ شاید پاگل ہوگیا ہے ، ممکن ہے کہ وہ اصل محسوس ہوا ہو۔”
وہ کچھ نہ بولی۔
"ایک عام زندگی اجنبی بن جائے۔۔کیا وہ واقعی اصلی محسوس ہوا تھا؟کیا تمھاری اپنی زندگی میں ایسی چیزیں ہیں جو اس طرح سے محسوس ہوں؟”
ٹارچ اس کے ہاتھ سے گر پڑی، اس کا پچھلا حصہ ٹائل کے سرد فرش سے ٹکرایا توایسے آواز پیدا ہوئی جیسے کوئی گولی چل گئی ہو۔یہ ایک طرف گر کر چند انچ لڑھکی پھر رک گئی۔ لوئیسا نے اپنی ہتھیلیاں جینز پر رگڑ کر صاف کیں۔ جب وہ اور اس کی ماں لاس اینجلس آئے تھے، اس کی ممانی اسے جینز خریدوانے لے گئی تھی۔ اپنی ساری زندگی اس نے اسکرٹ، گھاگھرا، سوئٹر ، بغیر آستینوں کے بٹن والے لباس ، سینڈل اور آکسفورڈ پہنے تھے اور اب وہ نیلی جینز اور سرخ اسنیکر پہنے تھی۔ اس کا جسم اب اس کا جسم نہیں لگتا تھا، وہ تو پہلے ہی اسے اپنا عکس سمجھتی نہ ایسا محسوس کرتی تھی۔پہلے کبھی اس نے اس بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔اس نے ہلے بغیر ٹارچ کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اس کی روشنی ایسے ہی قید ہوگئی تھی، جیسے چق میں دھوپ ۔ وہ فرش پر ایک تکونی شعاع کی مانند ٹھہر گئی تھی۔
"جب میں تم سے ملنے کی تیاری کررہا تھا تو میں نے فون پر تمھاری ماں سے بات کی تھی”، ڈاکٹر بکنر پھر سے گویا ہوا۔ "میں تمھاری ماں سے بہت زیادہ واقف نہیں۔میں نہیں چاہتا تھا وہ یہاں میرے دفتر آئیں، لہذا ہم نے بہت دیر تک گفتگو کی۔ میں تمھارے بارے میں بہت سے سوالات پوچھنا چاہتا تھا۔وہ جتنا ممکن ہو میری مدد کرنا چاہتی تھیں”لوئیسا کا بازو کرسی کی لکڑی کے سخت ہتھے پر جھول رہا تھا، اس کی انگلیاں ڈھیلی تھیں، وہ اب ٹارچ گرفت کرنے کی کوشش نہیں کررہی تھیں۔ اس کے سرخ دہانے سے روشنی کی شعاع نکل رہی تھی۔” انہوں نے مجھے بتایا کہ جب تم جاپان میں اس ساحل پر ملی تھیں، اپنے باپ کے ڈوبنے کے بعد، تم نے لوگوں کو بتایا تھا کہ تمھارے باپ کو اغوا کرلیا گیا ہے۔”
"نہیں، میں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا”، لوئیسا اوپر دیکھے بغیرجلدی سے بولی۔اس نے روشنی کو فرش منور کرتے دیکھا۔جب کبھی دوسرا زلزلہ آئے گا تو یقیناً اس ٹارچ کی بیٹری ختم ہوچکی ہوگی۔ اور شاید کیوں کہ اس کے پاس ایک کارگر ٹارچ نہیں ہوگی تو ڈاکٹر برکنر بھی مر جائے۔ اس کا الزام شاید لوئیسا پر آئے کہ اس نے اس وقت ٹارچ کی بیٹری ضائع کی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ بکنر کی موت میں اس کی کتنی ذمہ داری ہوگی۔
"جب انہوں نے تمھیں تلاش کیا تھا تو تمھاری ماں وہاں نہیں تھی، لیکن جس شخص نے تمھیں ڈھونڈا تھا وہ کہہ رہا تھا کہ تم نے یہی کہا تھا۔”
"میں نے کبھی ایسا نہیں کیا”، لوئیسا بولی۔ "مجھے نہیں پتہ وہ کیا بات کررہی ہیں۔”
"لوئیسا”، ڈاکٹر برکنر اپنی ڈیسک سے گھوم کر اس کی جانب آئے اور اپنی پشت میز کے کونے سے ٹکا دی، اس کا کوٹ جو پہلے ہی شکنوں سے پر تھااب شانوں پر ڈھیلا ہو کر مزید بے ڈھنگا ہوگیا۔”کیا تم جانتی ہو کہ شاک کیا ہو تا ہے؟”
"اگر آپ کوئی غبارہ دیوار پر رگڑیں اور پھرکسی اور شخص سے وہ غبارہ مس کردیں تو اسے شاک لگے گا”، اس نے بتایا۔ شاید اس نے یہ رسالے 3-2-1 contact یا کرکٹ میں پڑھا ہو، اسے یاد نہیں آیا۔
"یقیناً وہ بجلی کا شاک ہوگا، لیکن میں اس شاک کی بات نہیں کررہا، حالانکہ دونوں سے ایک ہی طرح کا احساس ممکن ہے۔ ایک اچانک، چبھنے والا، ڈرانے والا احساس۔ کیا تم سمجھ رہی ہو یہ بات؟ـ”
ـ”بجلی کا شاک ڈرائونا نہیں ہوتاــ”، اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا، اس کی آنکھیں بکنر کی ٹائی پن پر جمی تھیں۔ وہ کسی پیپر کلپ کی مانند لگ رہی تھی جو اس کی ٹائی کو قمیض سے پیوست رکھے ہو۔
"میں شاید ٹھیک سے سمجھا نہیں پا رہا۔ کبھی میرے لیے کہنے کے مقابلے میں سننا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔بہتر ہوگا کہ تم مزید کچھ باتیں کرو اور میں سنتا رہوں۔”
"جب سے میں یہاں آئی ہوں تم یہی کرنے کی تو کوشش کررہے ہو۔”
"یہ کمرہ ایسی ترکیبوں سے بھرا ہوا ہے جس سے بچے بات کرنے لگتے ہیں، لیکن تم اس کے لیے بہت ذہین ہو۔”
"میں تعریف سننے کے معاملے میں بھی بہت ذہین ہوں۔ وہ مجھے پسند نہیں آتی۔”
"میں نے یہی دیکھا ہے کہ جو بچے تعریف کے قابل ہوتے ہیں ان ہی کو وہ پسند نہیں آتی۔”
"میں تعریف کے قابل نہیں۔”
"تم نہیں ہو؟ میں نے کہا تھا کہ تم ذہین ہو اور تم اس سے متفق تھیں۔ تم نے کہا تھا کہ تم توصیف کے پھندے میں آنے سے زیادہ ذہین ہو۔”
"ذہین ہونے پر تعریف نہیں ہونی چاہیے۔میں اپنی مرضی سے ذہین نہیں ہوئی ۔ بس ذہانت مجھ میں بس گئی۔ اور یہ مجھے پسند بھی نہیں”، وہ کچھ توقف کے بعد بولی۔
"کیوں نہیں؟”
"دوسرے بچے مجھے پسند نہیں کرتے۔ میرا کوئی دوست نہیں ۔”
"تمھاری ماں مجھ سے کہہ رہی تھی کہ تمھیں کبھی دوستوں کی کمی نہیں رہی۔ بوسٹن میں تمھارے دوست تھے۔ جاپان میں تمھارے دوست تھے۔ صرف یہاں آنے کے بعد سے تمھارا کوئی دوست نہیں ہے۔”
"مجھے دوست کی ضرورت نہیں”
"کیوں نہیں؟”
"مجھے نہیں پسند کہ لوگ مجھ سے سوال پوچھیں۔”
"جیسے میں؟”
"برا مت ماننا” ، اس نے شانے اچکا دیے۔
"میرا کام ہی یہ ہے کہ میں تم سے سوال پوچھوں”، وہ میز کے کنارے سے ہٹ کر دوبارہ میز کے پیچھے اپنی سمت چلا گیا۔”براہ کرم ،میری ٹارچ مجھے واپس کردو۔”
اس سے پہلے کہ وہ سوچ سکتی کہ انکار کردے، اس نے ٹارچ واپس کردی۔ دیر ہوگئی، اگر چہ لگتا نہیں تھا کہ بکنرنے اسے اپنی فتوحات میں درج کیا تھا۔ وہ محض اپنی میز پر ٹارچ سے روشنی ڈال رہا تھا جہاں سفید، پیلے اور گلابی کاغذ نظر آرہے تھے۔”دیکھو میرے آجروں میں سے ایک کا نام ہے لاس اینجلز متحدہ اسکول ضلع، اور جب وہ مجھے ایک گلابی کاغذ بھیجتے ہیں جس پر کسی بچے کا نام لکھا ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ مجھے اس بچے سے سوالات پوچھنے ہیں ورنہ وہ مجھے تنخواہ نہیں دیں گے۔تم شاید سمجھ رہی ہوکہ ہماری اس ملاقات کا سبب تم ہو، لیکن اس کا اصل سبب بیگم بکنر، میری بیوی ہے، اور کیلی بکنر میرا بیٹا جو جامعہ جنوبی کیلی فورنیا میں سال اول کا طالب علم ہے، اور میری بیٹی شیرل بکنر جو ویسٹنگ ہائوس ہائی اسکول میں سال دوئم کی طالبہ ہے۔یہ واقعی ان کی وجہ سے ہے کہ میں تم سے یہ سوالات پوچھ رہا ہوں، اور لاس اینجلس کے متحدہ اسکول ضلع کی وجہ سے۔اور وہ کیوں چاہتے ہیں کہ میں تم سے سوالات کروں، چلو دیکھتے ہیں اس گلابی کاغذ پر کیا لکھا ہے، بات نہ ماننا، خلل ڈالنا، جھوٹ، دوسرے بچوں سے لڑنا، کاہلی، جماعت سے غائب رہنا ، سرقہ۔۔۔”
"وہ کیا ہے؟”
"کون سا؟”
"وہی آخری لفظ، سرقہ تھا شاید”
"یہ چوری کے لیے ایک دلچسپ اصطلاح ہے”
"میں نے کبھی نہیں سنا”
"کیا تم یہ کہہ رہی ہو کہ تمھیں نہیں پتہ تم پر چوری کا الزام لگتا رہا ہے؟”
"نہیں، میںنے کبھی وہ لفظ نہیں سنا، سرقہ”
"سرقہ، چلو ہم نے معلوم کرلیا کہ تمھاری دس سالہ عمر کے ذخیرہ الفاظ کی حد کیا ہے۔ کیا تم سرقہ کے متعلق بات کرنا پسند کرو گی۔ تم اس پر زیادہ افسردہ نظر نہیں آرہیں؟”
"میں نہیں ہوں”
"مجھے یقین ہے تمھارے والدین نے بتایا ہوگا کہ چوری نہیں کرنی چاہیے۔”
لیکن یہی تو نکتہ تھا۔ تمھیں بتایا گیا تھا کہ چوری مت کرنا، تمھیں بتایا تھا کہ یہ بری بات ہے، لیکن کیوں بری ہے؟ صرف اسے برا کہنے سے یہ برا کیوں ہو گیا؟ جب آپ چوری کریں تو اس میں کیا برائی ہے، سوائے اس کہ لوگ اس کا بتنگڑ بنائیں۔ جب اس کی ماں ہسپتال میں مزید ٹیسٹ کرا رہی تھی تو اس کے ماموں اور ممانی اسے ایک مہنگے ریسٹورانٹ میں لے گئے تھے جہاں سے اٹھتے ہوئے وہ نمکدان گھر اٹھا لائی تھی۔ اس سے کیا قیامت آگئی تھی؟ صرف اتنا ہوا تھا کہ اس مہنگے ریسٹورانٹ کے میلے میز پوش سے ہٹ کر وہ نمک دان اس کی الماری کے ایک ڈبے میں منتقل ہوگیا تھا۔اسکول کے پرنسپل وامسلے صاحب کے آفس میں بیٹھے ہوئے اس نے ان کی میز سے ایک نقلی لکڑی کا قلم اٹھا لیا تھا۔یہ ایک قلم تھا جو کسی شاخ کی مانند لگتا تھا، لکڑی کے ایک کھوکھلے تابوت میں قلم رکھنے کی جگہ، پیپر کلپ یا چھوٹی پن رکھنے کے لیے ایک چھوٹا کپ، یہ سب لکڑی کے ایک چھوٹے سے ٹنڈ میں چھپا ہو ا رکھا تھا۔یہ ایک ایسی چیز تھی جو شاید اس وقت سات یا آٹھ سال کی عمر میں لوئیسا اپنی ماں سے گڑگڑاتی کہ فادرز ڈے پر باپ کو تحفہ دینے کے لیے اسے خرید دے۔ اس سے پہلے کہ اسے احساس ہوتا، جیسا کہ اسے اب کئی چیزوں کے بارے میں احساس ہوتا تھا کہ وہ خوش نما نہیںبدصورت اور سستی تھیں۔جب وامسلے صاحب دروازے کے باہر اس کے استاد سے مشورہ کررہے تھے، لوئیسا نے اپنا سردی کا کوٹ اتار کر میز کی تینوں چیزیں اس میں لپیٹ لی تھیں، جب تک وامسلے صاحب اسے ڈانٹتے رہے وہ تمام وقت اسے گود میں رکھے بیٹھی رہی، اور پھر وہ بنڈل ہاتھ میں لیے ان کے دفتر سے نکل آئی۔ اب وہ چیزیں اپنی میز پر نہ ہونے سے وامسلے صاحب کو کیا نقصان ہوگیا تھا؟ ڈان ڈیوالان نامی ایک احمق لڑکی روز چھوٹے چھوٹے نیلے بارہ سنگھے کے نئے مجسمے اسکول لائی تھی، جن میں سے ہر ایک کی ایک الگ خاصیت تھی، کوئی جادوگر جیسی ٹوپی اوڑھے تھا، کوئی پینٹ برش تو کوئی بربط اٹھائے تھا۔اگرچہ یہ ایک ایک کرکے غائب ہوئے تھے، پھر بھی ڈان ڈیوالان کو کبھی یہ عقل نہ ائی کہ انہیں اسکول نہ لائے، اس نے تو بس اپنی استانی محترمہ پرنس سے رو رو کر ہنگامہ اٹھادیا تھا۔ محترمہ پرنس نے اپنی سرد آنکھیں لوئیسا پر جما دی تھیں۔
"تمھارے خیال میں چوری کرنا برا نہیں؟” اب ڈاکٹر بکنر کہہ رہا تھا۔
"مجھے معلوم ہے یہ غلط ہے، بس یہ نہیں معلوم کیوں؟ میری سمجھ میں نہیں آتا اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟”
"اغوا بھی تو چوری ہے، ہے ناں؟”
اس نے ٹارچ کو اپنی میز پر اوندھا دیا، یوں اس کی روشنی اس کے اندر ہی سمٹ کر غائب ہوگئی، ساتھ ہی وہ تمام سفید، پیلے اور گلابی کاغذ کے ٹکڑے بھی جس پرلوئیسا کے مسائل اور اس کے جرائم درج تھے۔پھر ایک کلک کے ساتھ اس نے ٹارچ بجھا دی۔ان کے اطراف جھٹپٹا سا چھا گیا، جس نے کمرے کی نیم تاریک ہئیت اختیار کرلی۔ڈاکٹر بکنر اس چق کو اٹھانے میں مصروف ہوگئے ، اس میں اسے گرانے سے بھی زیادہ دقت ہو رہی تھی۔انہیں اس کی لٹکتی ڈوری کو ایک ہاتھ سے دوسرے پر لپیٹنا پڑ رہا تھا، جیسے وہ کسی بہت سنجیدہ شے کا حصہ ہوں، جیسے کوئی کشتی یا جھنڈا لہرانے کا کھمبا۔چق بلند ہوتے ہوئے احتجاج کررہی تھی، پھر بالآخر کمرے میں سورج کی روشنی بکھر گئی۔یہ آگ سے اٹھتی روشنی کی مانند زردی مائل تھی ۔جب سے وہ کیلی فورنیا منتقل ہوئی تھی ، لوئیسا نے مسلسل روشنی دیکھی تھی۔یہاں تک کہ ڈاکٹر بکنر بھی جو غالباـیہاں نئے نہیں تھے وہ بھی اس سے ششدر نظر آئے، انہوں نے واپس میز کے پیچھے اس کے رخ پر رکھی اپنی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے، کچھ دیر کھڑکی سے باہر دیکھا۔
"جب تم نے لوگوں کو بتایا تھا کہ تمھارے باپ کو اغوا کرلیا گیا ہے تو میرے خیال میں تم یہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ انہیں تم سے جدا کردیا گیا ہے۔ چرا لیا گیاہے۔ موت ان افراد کو چرا لیتی ہے جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔”
"لیکن میں نے تو یہ کبھی نہیں کہا کہ انہیں اغوا کرلیا گیا ہے”، لوئیسا اپنی بات پر قائم رہی۔ "یہ میری ماں کی اختراع ہے، وہ ایسے ہی ہر چیز گھڑ لیتی ہے۔”
ڈاکٹر بکنرکا جواب ان کے چہرے پر ایک پر تفکر تاثر تھا۔ وہ اپنے تاثر سے یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ مجھے تمھاری بات کا یقین ہے۔لوئیسا نے پلکیں جھپکائے بغیر اس کی نظروں کا جواب دیا، پہلے اسے رحم کے لبادے میں لپیٹ دیا، پھر حقارت کے حصار میں رکھا، پھر دوبارہ رحم دلی سے اسے دیکھنے لگی، جیسے یہ طے نہ کر پارہی ہو اس کاغذ کی گڑیا کے لیے اس کا کون سا جذبہ بہترین ہے۔اب اس کی میز پر ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو ان کی نگاہوں کے تصادم میں حائل ہوتی۔ لوئیسا سوچ رہی تھی کہ کیا وہ اس کے تاثر کو پڑھ سکتا ہے، اور اگر اس نے سمجھ لیا تو لوئیسا نے سوچا کہ اسے ایک نئے تاثر کا لبادہ اوڑھا دے گی۔اسے یقین نہیں تھا کہ وہ ایسا کرنا چاہتی تھی۔اسے نہیں معلوم تھا کہ اس تذبذب میں مبتلا انتظار کے دوران وہ بے چین تھی یا خوف زدہ۔یہ دونوں جذبے بالکل متضاد لگتے تھے، لیکن وہ ایک ہی جیسے محسوس ہوتے تھے۔اب ڈاکٹر بکنر نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک قلم نکالا، لوئیسا کے چہرے سے نظریں ہٹا کر اس نے نوٹ پیڈ پر کچھ لکھنا شروع کردیا۔ وہ ایک پرسکون چہرا لیے پیڈ پر ناقابل فہم لکھائی بکھیر رہا تھا ۔لگتا تھا کہ اسے جس چیز کی تلاش تھی، وہ اس نے ڈھونڈ لیا تھا۔” میں جب تک اپنا نوٹ مکمل کروں، تم کھلونوں سے کیوں نہیں دل بہلاتیں”، اس نے لکھنے کے دوران تجویز کیا، لیکن ظاہر ہے کہ وہ ہلنے سے قاصر تھی اور اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔اس نے بھی اپنی تجویز نہیں دہرائی۔
جب اس نے اپنی تحریر مکمل کر لی تو اٹھ کر میز کی اس جانب آیا اور کچھ اس قسم کا فقرہ کہا جیسے تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا اورلوئیسا نے اٹھے بغیر اس سے ہاتھ ملالیا۔اگر اس نے اس بد تمیزی کا برا منایا تب بھی ظاہر تو نہیں کیا۔پھر وہ اس کے پیچھے ، ہاتھ اپنی پشت پر باندھے ، دفتر کے دروازے کی جانب گئی، پھر اس کی ممانی سے کچھ خوشگوار جملوں کے تبادلے کے بعد وہ دوبارہ اپنے دفتر میں چلا گیا۔ لوئیسا اپنی ممانی کے ساتھ کار میں بیٹھ گئی، ٹارچ کا سخت دھاتی سرا اس کی کمر میں گڑتا رہا جہاں اس نے اسے اپنے نیفے میں چھپایا تھا۔
اب اس نے ٹارچ اپنے گدے اور بستر کے سرہانے کی درمیانی جگہ سے نکالی جہاں اس نے وہ چھپائی تھی۔وہ چھت پرکمزور روشنی کی ایک جیلی فش بنا رہی تھی، جسے دروازے سے اندر آتی روشنی کی شعاع چھید رہی تھی۔سورج ڈوبتے وقت اپنے باپ کے ساتھ ساحل پر چہل قدمی کرتے ہوئے اس کا باپ ہمیشہ اپنے ساتھ ٹارچ رکھتا، اس کا وزن اور ہئیت اس کے پتلون کی جیب میںبد نما ابھار لگتی۔اگر وہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر لوٹنے سے پہلے ،ذرا دور اس سے آگے بھاگتی، وہ اس کی جانب بڑھتے تو اسے وہ ٹارچ ان کی پتلون کی بیلٹ کو ایک جانب نیچے جھکاتی نظر آتی۔اس کا باپ ایک بہت محتاط آدمی تھا۔اسے عجیب خوف لاحق رہتے۔اسے اس بات کا اتنا خوف رہتا کہ وہ کوئی نوکیلی چیز نگل لے گی، کانچ کا ٹکڑا یا کھانے کے ساتھ اتفاقاـکوئی دھاتی ٹکڑا، وہ ریسٹورانٹ میں پہلے اس کے کھانے کو ایک کانٹے سے کریدتے پھر اسے کھانے دیتے۔سڑک عبور کرنے کی مقررہ جگہوں پر اور فٹ پاتھ پر بھی وہ اتنا خوف زدہ رہتے کہ وہ کسی کار سے ٹکرا جائے گی، تو دس برس کی عمر ہوجانے کے باوجود وہ جب بھی باہر نکلتے وہ اس کا ہاتھ سختی سے تھامے رہتے۔وہ پالتو جانوروں کی حیوانی خصلت سے اتنا خوف زدہ رہتے کہ لوئیسا کو کبھی کوئی جانور نہیں پالنے دیا۔وہ یقیناً تاریکی سے بھی خوف زدہ رہے ہوں گے اسی لیے شاید جب بھی وہ باہر جاتے تو وہ اپنی ٹارچ ضرور ساتھ لیتے، حالانکہ سورج کی باقیات کتنی دیر تک آسمان پر باقی رہتیں، حالانکہ وہ لوئیسا کو کبھی دیر تک باہر نہ رہنے دیتے کہ وہ اولین نمودار ہونے والے ستارے دیکھ سکتی۔سوائے اس آخری رات کے جب وہ ساحل کے ساتھ پتھریلی دیوار پر اتنی دور نکل گئے تھے کہ واپسی کے وقت تک اندھیرا ہوگیا تھا۔پھسلن پتھروں پر اپنے قدم جمانے کے لیے انہیں ٹارچ کی ضرورت پڑی تھی، اس کے والد کی گرفت سے اس کی انگلیاں تقریباــکچلی جارہی تھیں۔ریت پر وہ ٹارچ بے آواز گری تھی۔
یہ حقیقت کہ وہ ٹارچ ریت پر بے آواز گری تھی اس کی ذات میں ایسے بھنور ڈال رہی تھی جیسے اس وقت یہ ٹارچ۔جیسا کہ لوئیسا یاد کو سمجھتی تھی، یہ کوئی یاد نہیں تھی: تصویر اور آواز کی فلم کے شور مچاتے ٹکڑے تھے۔یہ کچھ تھا تو نہیں، لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ کچھ نہ ہو، ایک کمی جہاں موجودگی کی امید تھی۔پتھروں پر کوئی آواز پیدا نہیں ہوئی تھی۔پانی میں کوئی چھپاکا نہیں ہوا تھا۔ وہ ٹارچ تقریباـ بے آواز ریت پر گری تھی۔
یہی سمجھا گیا تھا کہ اس کا باپ پتھریلی دیوار سے پھسل کر گرا اور ڈوب گیا تھا۔ لوئیسا ساحل پر بیہوش ملی تھی۔اس کا باپ، اس کی لاش کبھی نہیں مل سکی تھی۔ پانی کے بہائو کو لاش کی عدم دستیابی کی وجہ سمجھا گیاتھا۔لوئیسا شاید شاک کے عالم میں ریت تک پہنچ گئی تھی۔یہ سب کتنا افسردہ تھا۔ اس میں کچھ بھی حیرت انگیز نہیں تھا۔وہ ٹارچ تقریباـبے آواز ریت پر گری تھی، لیکن یہ بھی ممکن تھا کہ خود لوئیسا نے اسے وہاں گرایا ہو۔ شاید اس نے اپنے پھسلتے، گرتے، ڈوبتے باپ کے ہاتھ سے ٹارچ لی ہو، اس پھسلن پتھریلی دیوار کا باقی حصہ چل کر طے کیا ہو اور پھر ٹارچ بے آواز خود اس کے ہاتھ سے گری ہو۔
اس ٹارچ کا کیا ہوا تھا۔ ظاہر ہے وہ کھو چکی تھی۔ وہ اسے اب یاد آئی تھی، جب وہ یہ ٹارچ پکڑے تھی۔ اس کا گرم دھاتی خول پکڑے، اس کی بھٹکتی شعاع کو راستہ دکھاتے۔ اسے یہ ٹارچ بہت پسند تھی، صرف اسی لیے نہیں کہ اس نے یہ ڈاکٹر بکنر سے چرائی تھی۔ یہ ایک قابل بھروسہ وجود تھا۔ یہ بلا وجہ بھلائی جا چکی تھی، یہاں تک کہ اس نے اسے چھین لیا تھا۔ اسے اب اس کے لیے تازہ بیٹری کی ضرورت پڑے گی، لیکن یہ تو آسان ہوگا، اگلی بار جب وہ اپنی ممانی کے ساتھ اسٹور جائے گی تو وہاں باہر نکلتے ہوئے شیلف سے اسے چرا لے گی۔
اس کا دروازہ کھل گیا اور باہر برآمدے سے روشنی چھت پر بکھر گئی اور اس کی جیلی فش اس میں ڈوب گئی۔” لوئیسا ؟” اس کی ماں کی پھٹی ہوئی آواز آئی۔وہیل چئیرعجلت میں دروازے کی چوکھٹ سے الجھتی، ٹکراتی، کھرونچے ڈالتی داخل ہوئی، اور پھر اس کی ماں کسی طرح وہیل چئیر اور بستر کی درمیانی خلا پھلانگ کر اس سے چمٹ گئی، گویا اس بات کی تصدیق جو لوئیسا ہمیشہ کہتی تھی : اس کی ماں بن رہی ہے، اسے وہیل چئیر کی ضرورت نہیں۔
"اوہ لوئیسا، لوئیسا، اوہ پیاری”، اس کی ماں گریہ کرتی، اسے اپنے لمس میں غرق کرتی رہی، جب کہ لوئیسا اسے دھکیل کر خود سے دور کرتی رہی۔اب اس دھینگا مشتی میں اس کی ممانی بھی شامل ہوگئی تھی۔
"یہ کیسی کراہ ہے! لگتا ہے جیسے یہ قتل ہورہی ہے!” اس کی ممانی رونے لگی۔” میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے! یہ دودھ لے لو، اس سے یقیناً اسے سکون آجائے گا۔”
لیکن اسے دودھ کی یا اپنے جسم پر اپنی ماں کے لمس کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ وہ اسے تنہا کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟ وہ پورا زور لگا کر دھکیلتی رہی، اور ٹارچ رضائی سے نکل کر فرش پر گر پڑی۔اس سے اتنی زور کی آواز پیدا ہوئی کہ اس کی ماں اور اس کی ممانی دونوں سہم کر ٹھٹک گئے۔پھر اس کی ممانی نے دیکھا کہ کس چیز سے آواز پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے اسے فرش سے اٹھا لیا۔
"مجھے یقین نہیں آرہا”، اس کی ممانی نے کہا۔”جب آج صبح ڈاکٹر نے فون کرکے کہا تھا کہ تم نے اس کی ٹارچ لے لی ہے، تو میں اس پر خوب چلائی تھی۔ تم نے تو مجھے بھی جھوٹا بنا دیا”. پھر انہوں نے اسے تنہا چھوڑ دیا۔ لیکن وہ یہ نہ دیکھ سکی کہ ان میں سے کس نے دروازہ زور سے بند کیا تھا، اور اسے تاریکی میں چھوڑ دیا تھا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*