خواب کی شیلف پر دھری نظم

گر سمندر مجھے راستہ دیتا

تو سفر کرتی اس قندیل کے ساتھ

جو شام کا ملگجا پھیلتے ہی

ساحل پر روشن ہو جاتی ہے

اڑتی ققنس کے ہمرکاب

افق کی مسافتوں میں

تیرتی مچھلیوں کے سنگ

کھوجتی ریگ زاروں میں

نیلگوں پانیوں کو

سرمئی پہاڑوں میں

جادوئی سرنگوں کو

لیکن میرے سرہانے

آدھے پونے خواب پڑے ہیں

اور میری شیلف پر دھرے ہیں

کانچ کے نازک برتن

سبزی کے چھلکے

گھر کی دیواروں پر

میرے بیٹے کی کھنچی لکیروں میں

ان سنی کہانیاں ہیں

جو مسکراتی کھلکھلاتی ہیں

اور باتیں کرتی ہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں

وہ کہانیاں سنتی میں دفعتاً چونک جاتی ہوں

ادھورے خواب بھی میرے

کتنے شرمندہ تعبیر ہوئے

مگر پھر بھی ڈرتی ہوں

کہ میری بیٹی

آدھے خواب دیکھ کر

انہیں ادھورا چھوڑ نہ دے

بوند بوند دعا اترتی ہے

دل کی زمیں پہ

پہلی بارش کی مانند

اور سیلی مٹی سے شاخ در شاخ

تمنائیں پھوٹ پڑتی ہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*