آل انڈیا بلوچ کانفرنس

چوتھا دن(33دسمبر)۔

یہ کانفرنس کے جلسے کا آخری دن تھا اس لیے منتخب نئی لیڈر شپ نے تقاریر کیں۔
اس کے علاوہ جو انعامات رکھے گئے تھے ان میں اسوہ نبی علیہ الصواۃ والسلام کے انعام کا اعلان ہوا۔ وہ انعام عبدالخالق بلوچ کراچوی کو عطا ہوا جو30روپے کاتھا(A)۔

آل انڈیا بلوچ کانفرنس (سیاسی پارٹی)۔

کانفرنس کے چوتھے اور آخری دن کی جو بات بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ کانفرنس نے اپنی ایک قرار داد کے ذریعے آل انڈیا بلوچ کانفرنس کو ایک مستقل پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ۔اس پارٹی نے سالانہ میٹنگیں کرتی رہنی ہیں۔
آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اُس زمانے میں سوزِ عشق میں غلطاں افراد تھے ہی کتنے ؟ ۔ مگر اس مردم تلاش انسان نے کہاں کہاں سے ہیرے جمع کیے تھے!!۔ہمیں اس پارٹی کی زیادہ تفصیل کانفرنس کی اُس قرار دار سے ملی جو(زمیندار 14جنوری1933میں شائع ہوئی تھی۔ نیز یوسف مگسی کے دستخطوں سے انگریز اے جی جی کو بھیجی گئی قرار دوں کی کاپی سے وہ قرارداد یہاں نقل کی جاتی ہے جو سول سیکریٹریٹ کوئٹہ میں بلوچستان آر کائیوز میں یوسف عزیز مگسی نام کے بڑے ڈبے میں موجود ہے )۔قرارداد کا نمبر 29ہے ۔ وہ یوں ہے:۔
یہ’’ اجلاس تجویز کرتا ہے کہ بلوچستان اینڈ دی آل انڈیا بلوچ کانفرنس کو ایک مستقل جماعت بنایا جائے جس کے جلسے ہر سال متفقہ مقامات پر منعقد کیے جائیں۔ یہ اجلاس مندرجہ ذیل انداز میں کانفرنس (پارٹی )کاایگزیکٹو بورڈ مقرر کرتا ہے:۔
’’کراچی(8) : میر محراب خان ، میر میاں خان ،مولوی محمد عثمان ،ماسٹر پیر بخش خان شہدادزئی، عبدالغفورخان اور عبدالرحیم خان گبول ۔( دو ممبر خالی)۔
’’جیکب آباد(8) :میر غلام قادرخان ، وکیل، خان بہادر شیر محمد ، میر تاج محمد خان ڈومبکی، میرمحمدامین کھوسہ ، میر قیصر خان ڈومبکی ۔(دوممبر خالی)۔
’’ڈیرہ غازیخان(8) : نواب جمال خان لیغاری، سرداربہادر خان دریشک ، سردار محمد خان قیصرانڑیں، سردارمرادبخش مزاری، سردار غلام رسول کورائی، محمد اعظم جان مزاری ۔(دوممبر خالی) ’’ڈیرہ اسماعیل خان : ایک خالی۔
’’سکھر(2): سردار قیصر خان بزدار (ایک جگہ خالی)۔
’’ملتان ڈویژن : عبدالحمید خان دشتی ایل ایل بی مظفر گڑھ ، غلام سرور خان مخدوم پورملتان، مشتاق احمد خان مظفر گڑھ، غلام علی خان مگسی مظفر گڑھ ، حاجی محمد حیات خان چانڈیہ آف شیر گڑھ ملتان، سعداللہ خان ،(سمندری )لائلپور۔۔
’’پنجاب(6) :قلندر علی خان ایڈووکیٹ لاہور، غلام حسین مگسی میانوالی ، سردار عبدالرحمن ساہیوال،سردار فتح خان ساہیوال۔ فتح شیر خان آف لاہور۔(ایک جگہ خالی) ۔
’’ریاست بہاولپور(1):سردار نور احمد خان (ایک جگہ خالی)۔
’’لاڑکانہ : میر غلام سرور خان ، میر لطف علی خان مگسی ، نواب محمد یوسف علی خان مگسی۔۔
’’دادو : شمس الدین خان مگسی ، مولوی عبدالرحیم خان مگسی ۔۔
’’حیدر آباد : میر حسین بخش خان، رئیس قبول محمد خان، خان محمد زمان،۔
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ۔
’’نواب شاہ : محمد ہاشم خان ۔
’’میر پور خاص : خان بہادر میر آفتاب داد خان ، رسول بخش خان ایڈیٹر ’’ راہنما‘‘ عبدالغفار خان وکیل
’’چاغی(2) : میر مراد بخش خان مینگل(ایک جگہ خالی)۔
’’ژوب (4): نواب محمد خان جوگیزئی (تیں جگہیں خالی)۔
’’بولان (1): ماسٹر محمد حسین خان عنقا ۔۔
’’لورالائی(4) : میر سحراب خان کھیترانڑ۔ (تین جگہیں خالی)۔
’’سبی(6) :نواب خان محراب خان بگٹی ، حبیب خان مسوری ، میر مٹھا خان مری ،میر دودا خان مری ، عطا محمد خان مرغزانی ، ماسٹر پیر بخش خان تلوی۔۔
’’خاران(2) : نواب حبیب اللہ خان ، میر محمد شہباز خان نوشیروانی۔
’’بیلہ :میر عبدالکریم خان ۔
’’کوئٹہ (12): عبدالصمد خان اچکزئی ، جام نور اللہ خان، ماسٹر محمد ہاشم خان غلزئی، سیدرفیق شاہ، ڈاکٹر محمد رمضان خان، اخوند زادہ محمدعبدالعلی ، اخوند زادہ عبدالرحیم خان، ارباب محمد عمر، ملک جان محمد خان، سردار ۔غلام محمد خان ترین، علامہ بلدیو صحرائی ۔(ایک جگہ خالی)۔
’’قلات(13) :نواب اسد اللہ خان رئیسانڑیں، سردار بہرام خان لہڑی ، سردار رسول بخش خان مینگل ، سردار رستم خان محمد حسنی، میر عبدالعزیز خان کرد ، میر کریم علی خان زرکزئی ، میر کریم بخش خان رئیسانڑیں ، نواب محراب خان گچکی ، میر کرم خان ، ارباب عبدالخالق ، میر حسین بخش خان مگسی ، ماسٹر محمد اعظم ، ملک ریاض محمد خان ۔
’’یوپی اینڈ ایف پی : سردار حسین علی خان آنریری میجسٹریٹ آف میرٹ ، حاجی امیر احمد خان آف منظفر نگر، (ایک جگہ خالی)۔
’’دہلی: (ایک جگہ خالی)‘‘۔

پارٹی کی آئین کمیٹی
اسی طرح ’’کانفرنس ‘‘نے اپناآئین اور منشور بنانے کے لیے ایک سب کمیٹی مقرر کی :۔
عبدالصمد خان اچکزئی صدر
اعظم جان مزاری سیکرٹری ،اور
ممبرز : یوسف علی خان،جام نور اللہ خان ، عبدالعزیز کرد ، غلام رسول خان کورائی ، غلام قادر خان وکیل ،ہیں۔

پارٹی کے عہدیدار
آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے لیے مندرجہ ذیل عہدیداروں کا ایک سال کے لیے ( تا دسمبر 1933)اعلان کیا گیا:
صدر: ہرنائی نس میر علی نواز خان ، والی ریاست خیرپور۔
نائب صدور: ۔
۔1۔عبدالصمد ،گلستان۔
۔.2غلام قادر وکیل جیکب آباد ۔
۔3۔ محمد یوسف علی خان مگسی۔
جنرل سیکریٹری: محمد اعظم مزاری ، ڈیرہ غازی خان۔
پروپیگنڈہ سیکرٹری :سردار پیر بخش خان شہدادزئی، سبی ۔
خزانچی: جام نور اللہ خان۔

پارٹی کی ورکنگ کمیٹی(مرکزی کمیٹی)۔

(مرکزی کمیٹی نے جیکب آباد کانفرنس کے فیصلوں کے مطابق پارٹی کوچلانا تھا۔ نیچے یونٹ تک تنظیم بنانی اور چلانی تھی)
تیرہ رکنی ورکنگ (مرکزی)کمیٹی میں مندرجہ ذیل لوگ ممبر ہوں گے:
میر غلام سرور خان مغل، مسٹر محمد امین خان کھوسہ، نواب محمد جمال خان لغاری بلوچ، اخواندزاہ محمد عبدالعلی ، عبدالعزیز خان کرد، میڑ مٹھا خان مری، محمد ہاشم خان غلزئی ، غلام محمد خان ترین ، میر حسین بخش مگسی ،سردار غلام رسول خان کورائی ، مولانا حاجی محمد عثمان بلوچ، سیٹھ محراب خان۔میر تاج محمد خان‘‘۔
***

۔(بقول انعام الحق کوثر )’’اس کانفرنس کے آخری اجلاس میں یوسف عزیز مگسی کی یہ نظم پڑھی گئی:(اوربقول انعام الحق کوثر ،بلبلانِ خلافت نے یہ قومی ترانہ پڑھا تھا)۔B

میں اگر چاہوں تو ذرے کو بیاباں کر دوں
قطرہِ آب میں پیدا سرِ طوفاں کر دوں
یہ ارادہ ہے کہ اسلام کا خادم بن کر
ساری دنیا کو نئے سرے سے مسلماں کر دوں
پھر وہی بھولا سبق یاد دلاؤں سب کو
ہر بلوچی کو غرض عاملِ قرآں کر دوں
جی میں آتا ہے کہ پھر طور کو آباد کر دوں
آتشِ دل سے پہاڑوں میں چراغاں کر دوں
گاندھی و مالوی کے وعظ دھرے رہ جائیں
میں اگر قولِ محمدؐ کو نمایاں کر دوں
جوش میں آکے اگر نعرہِ اللہ ماروں
حق و باطل کے تفاوت کو نمایاں کر دوں
میں وہ مجنوں ہوں اگر چاہوں جہاں کو یکسر
طرہِ یار کی مانند پریشاں کردوں
اس قدر شعلہ فشاں بزمِ جہاں میں ہو جاؤں
ذرے ذرے میں بپا حشر کا ساماں کر دوں
میں وہ مالی ہوں، اگر کھول دوں دل کی سوتیں
خشک صحراؤں میں پیدا گل و ریحاں کر دوں
اسی ایقانِ براہیم کا وارث ہوں عزیزؔ
اب بھی آتش کو اگر چاہوں گلستاں کر دوں

کانفرنس کا حاصل

یہ کانفرنس ہر لحاظ سے ایک کامیاب کانفرنس تھی ۔ یہ تاریخ میں بلوچستانیوں کی اولین کانفرنس تھی ۔ اگر چہ اس کانفرنس کے انجمن چند تعلیم یافتہ نوجوان، اور نسبتاً نو عمر لوگ تھے مگر چند باتوں میں یہ کانفرنس ہندوستان کی بعض بہت اچھی کانفرنسوں پر فوقیت حاصل کرچکی تھی۔ اس کانفرنس کی کامیابی کا سہرا بقول’’البلوچ‘‘ (8جنوری1933) ’’جناب فخرِ بلوچان نواب زادہ میر محمدیوسف علی خان عزیز مگسی بلوچ اور اُن صادق رفیقوں کے سروں پر ہے ۔ اگر چہ بعض بلوچ سردار وتمن داروں نے کسی وجہ سے سوشل کانفرنس میں شریک نہ ہو کر اپنی کمزور دلی کا ثبوت دیا ہے ۔ تاہم سندھ وبلوچستان اورپنجاب سے کافی سربرآور دہ اصحاب بصورت ڈیلیگیٹ آن کرشامل ہوئے‘‘۔
کمال مسرت اور اطمینان کی بات ہے کہ بلوچ کانفرنس کا یہ چہارروزہ اجتماع تاریخی رہا ۔ بعد میں اُس کا تنظیمی تسلسل جاری رہایا نہیں ،یہ بلوچ کی قسمت (معروض ) ہے ۔مگر یہ کانفرنس بلوچ قوم کی آنے والی نسلوں کو قرار دادوں کی شکل میں بہترین تاریخی فیصلے دے گی ۔ ایسی قرار داد یں جو ہمیں باشرف قوموں کی صف میں کھڑا کرنے کی راہیں عطا کرتی ہیں۔ بلوچ بڑے وقار کے ساتھ اُن روشن فکر اور ترقی پسند فیصلوں مطالبوں کا تذکرہ کر سکتا ہے جو ایک صدی گزرنے کے بعد بھی خوف سے دوہرائے نہیں جاسکتے۔
ہمیں اس بات کا ارمان ہے کہ 15جنوری 1933کے ’’البلوچ‘‘ میں جو مضمون چھپا ہے وہ اس قدر مدھم ہے کہ ہم اُسے پڑھ نہیں پارہے ۔ بس عنوان دیکھ کر اندازہ لگا ئیے کہ وہ مضمون کس قدر تاریخی اہمیت کا تھا:
’’جیکب آباد چل کر میں نے کیا معلوم کیا، بلوچوں میں طبقہِ نسواں‘‘

تاریخ کا تماشا دیکھیں کہ ایک صدی گزر جانے کے بعدبلوچستان کے ہر جلسے ،مجمعے اور اکٹھ میں حرف بہ حرف یہی قراردادیں منظور ہوتی ہیں۔اور سیاسی سفر کی سست روی اور سست رفتاری دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہی قراردادیں بہت عرصے تک ہر شریف اورباوقار سیاسی پارٹی اور گروہ کے منشور کا لازمی حصہ رہیں گے۔ آہ،ہم آج بھی اُسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں یوسف عزیز مگسی ہمیں چھوڑ گیا تھا۔
آج کی نوجوان نسل کے لیے سبق آموز دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کانفرنس کو رمضان کے مہینے میں رکھا گیا، اس کی تیاری کے لیے میٹنگوں کی جگہ مسجد ہوا کرتی تھی اور حتی کہ یہ کانفرنس منعقد ہی عیدگاہ میدان میں ہوئی تھی۔

بلوچ کانفرنس پارٹی کے آفیشل ترجمان ’’ البلوچ ‘‘ کے علاوہ کہتے ہیں کہ اس کی ایک روئیداد جناب مرید حسین مگسی نے بھی لکھی تھی جو 164صفحات پر مبنی ہے ۔
مرید حسین خانیوال کا مگسی تھا جسے یوسف عزیز جھل لایا تھا ، اور ناظمِ تعلیمات مقرر کیا تھا۔ ’’ تاریخ جھل مگسی ‘‘ نام کی چھوٹی کتاب بھی اُسی نے لکھی تھی۔
اس کا پیش لفظ جناب یوسف عزیز خان مگسی نے لکھاتھا۔ یہ بہت پرمغز اور جامع تحریر تھی۔اُس نے اپنے مخالفین کو لکھا کہ ’’ ۔۔۔ اگر میں سورج کی روشنی آنکھوں میں لے سکتا ہوں تو اس میں میرا کیا قصور؟۔ اور آپ اگر صرف تاریکی میں ہی آنکھیں کھولنے کے عادی ہوگئے تو میرا کیا جرم؟ ۔ تاریکی تو ہماری جہل و فساد کی پیدا وار ہے۔۔۔ اللہ جل شانہٰ ہم سب کو روشنی دیکھنے والی آنکھ اور روشنی جذب کرنے والا دل عطا کرے‘‘۔(C)

حوالہ جات:۔

A۔ (البلوچ 08جنوری 1933)۔
B۔ کوثر، انعام الحق ۔ نقوشِ بلوچستان صفحہ 139۔
C۔ روزنامہ زمیندار،لاہور18ستمبر1932۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*