کواڑ بند ہیں!

سب دریچوں میں گرد ٹھہری ہے مدتوں سے ۔۔
سبز شاخوں کی سب رگوں میں اکیلے پن کا زہر بسا ہے۔۔۔۔
چراغ اوندھے ہیں ، آبخوروں میں آب اترے زمانہ گزرا۔۔
تم آج آئے ہو! جبکہ میرے بالوں میں مکڑیوں نے ٹھکانہ کر کے۔۔
میری پلکوں پہ جال بن کے ۔۔
میری آنکھوں کو کھا لیا ہے۔۔۔
تمہیں تمنا ہے میرے ہونٹوں سے پھول برسیں، بہار آئے
میری نظم کے گداز لفظوں کی نرم خوئی
تمہارے کانوں میں گنگنائے، قرار آئے۔۔
مگر اے خوش رو! اے خوش سخن!!
میرے ہونٹوں پہ جمنے والی یہ زرد کائی۔۔
فراق رنگوں کی بدنمائی ۔۔
میرے لفظوں کو کھا گئی ہے۔۔
وہ دل کہ جس میں گلدموں کے چہچہوں نے تھا گھر بنایا۔۔۔
اب وہاں پر چمگادڑوں کی مہیب چیخیں ہی گونجتی ہیں۔۔
اجل کے پر پھڑپھڑا رہے ہیں۔۔۔
تم اپنی دستک سمیٹ لو اور۔۔۔۔
لوٹ جاو!!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*