چارلس ڈکنز

چارلس ڈکنز کا نام دنیائے ادب میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ چارلس وکٹورین ایرا کے لکھاری تھے جن کا بچپن سخت حالات میں گزرا اور اس کی جھلک ان کی تصانیف کے کئی کرداروں میں ملتی ہے۔ وہ معاشرے میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف اپنے ناولوں میں لکھتے رہے اور یہ ہمیں دیگر کئی ناولوں کی طرح "اولیور ٹوئسٹ” میں بھی دکھائی دیتا ہے اور ایسا لگتا ہے چارلس نے اپنے حالات کو من و عن بیان کیا ہے۔ یوں تو یہ ناول بچوں کے لئے لکھا گیا ہے مگر کسی بھی عمر کا قاری اس سے یقننا لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجھے اس کا ایک پرانا ایڈیشن اولڈ بک سینٹر سے ملا تھا جو وقتا فوقتا زیر مطالعہ رہا۔
چارلس نے جس زمانے میں معاشرے کے اثرات سے متاثر ہوتے ہوئے لکھنا شروع کیا، اس دور میں عورتوں کا کردار گھر تک محدود ہوتا تھا اور اس کا باہر نکلنا یا معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینا عملا بہت مشکل تھا۔ اس عہد کے لوگ اور مصنفین ایسی عورتوں کو قابل تعریف سمجھتے تھے جو عفت و پاکیزگی کی دیویاں ہوں، جسمانی طور پر پاکیزہ ہوں اور ان میں "قربانی” دینے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہو۔ اس عہد میں غریب ہونا کوئی آسان بات نہیں تھی اور خصوصا ان عورتوں کے لئے یہ بہت مشکل تھا جو قبحہ گری اور جسم فروشی سے اپنا پیٹ پالنے پر مجبور تھیں ۔
ڈکنز بہت اچھی طرح واقف تھا کہ یہ عورتیں سماج ، مردوں اور غربت کی ستائی ہوئی تھیں اور اس نے وکٹورین ایرا کے انسانوں کے اس ظلم اور غیر انسانی اقدار کو اپنی تصانیف میں کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اولیور ٹوئسٹ بھی ایسی ہی تنقید کی ایک مثال ہے۔
اس ناول میں مختلف سماجی مقامات کی حامل تین عورتیں اگنس، روزی اور نینسی ہیں جو ڈکنز کے خیالات، تنقید اور احتجاج کی مختلف اشکال ہیں۔
وکٹورین عہد وہ تھا جب انگلینڈ ایک تبدیلی سے گزر رہا تھا اور قوم زراعت سے صعنت کی طرف جا رہی تھی۔ ایسے میں متوسط طبقے نے غریبوں اور غربت کے لئے جو اصول وضع کئے ان میں دولت، خاندان، جاہ و حشم وغیرہ کو غیر معمولی حیثیت حاصل تھی اور طوائفوں کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جسم فروشی ایک مکروہ پیشہ تصور ہوتا تھا اور امیر طبقہ انہیں انسان سمجھ کر سہارا دینے اور معاش میں کارآمد بنانے کے بجائے انہیں ایک مسلہ اور ناسور سمجھتا تھا۔ اس دور میں ایک مرتبہ ٹھوکر کھا کر گرنے والی عورت کے لئے سنبھلنے کا کوئی موقع دستیاب نہ تھا۔
ادھر متوسط طبقے کی اپنی ذہنیت تھی جو کسی بھی پیشے کو کسی انسان کی اچھائی یا برائی کا پیمانہ سمجھتا تھا اور یہ لوگ انگلش اشرافیہ میں جگہ بنانے کے بھی خواہاں تھے۔ (مڈل کلاس ہمیشہ سے مسائل اور ظلم کو بڑھانے میں پیش پیش رہی ہے)۔ اس عہد میں غریب ہونے کا مطلب کم زور ہونا تھا۔ یعنی جس کے پاس دولت نہیں وہ معاشرے کے طاقت وروں کےلئے ایک آسان ہدف ہے۔ نہ اس کی کوئی عزت ہے اور نہ ہی حقوق!
اجرت پر کام کرنے والوں کو بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور بہت سے لوگ ان خوفناک حالات میں کام کر کے معاوضے کو خیرات کی طرح احسان جتا کر دینے والے رویے کے سبب سڑکوں پر کسمپرسی کی حالت میں مر جانے کو ترجیح دیا کرتے تھے اور عورتوں کے لئے یہ حالات مردوں سے زیادہ مشکل تھے۔
اولیور ٹوئسٹ کی زندگی کے ابتدائی دس سال ایسے ہی اجرت گھر میں یتیمی، بدسلوکی، بدترین ذہنی اور جسمانی تشدد اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے کی ہر سزا بھگتتے ہوئے گزرتے ہیں ۔
اس ناول کے کئی تھیم ہیں جن میں سے ایک قبحہ گری اور چوری چکاری بھی ہے۔ ڈکنز کے اس ناول میں موجود عورتوں کے کردار ، سوچ اور عمل انگیزی کو اگلی پوسٹ میں بیان کیا جائے گا۔

Marium Majeed Dar

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*