شاہ عنایت ۔۔۔شاہ محمدمری

شاہ محمد مری بلوچستان کی چٹانوں جیسا ہے .جن پر صدیوں کی داستانیں تجریدی آرٹ کی صورت ثبت ہیں _
دانیال طریر نامی شاعر نے اسے کیا خوب بلوچستان کا "شاہ بلوط” کہا ہے.
ان چٹانوں پہ پگلی پھرتی اور کبھی شانت ہولے ہولے بہتی ہوا میں آوازوں کی بازگشت بھی مقید ہے.ان ترانوں کی جو گائے گئے,وہ ساز جو توڑ دیے گئے
, وہ جو پابجولاں چلے
,وہ جبر جو مسلط ہوئے
,وہ آوازیں جو بلند ہوکر ہمیشہ کے لیے حیی قیوم ہوگئیں-
یہ آوازیں لفظوں میں ڈھل کر شاہ محمدمری کی کتابوں میں اترتی ہیں._
_
قتل گاہوں سےچن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عُشاق کے قافلے

اپنے سلسلہ کتب "عشاق کے قافلے” کی دوسری کتاب شاہ عنایت شہید میں شاہ محمد مری رقمطراز ہیں :’ہمیں ہماری تاریخ سے اکھاڑ پھنکا گیا.ہم جو ایک درخشاں تاریخ کے مالک ہیں”_.
شاہ عنایت شہید کوئی بے عمل اور تارک الدنیا شخص نہ تھا.وہ تو ایک یوٹوپیائی کمیونسٹ تھا. جس نے باقاعدہ ایک کمیون قائم کیا تھا اور مساوات پہ مبنی اس کمیون کی حفاظت کرتے ہوئے جان دی تھی.
شاہ محمد مری "جھوک جنگ "اور شاہ عنایت کے نام پر ماتھے پر بےخبری کی شکنیں نمودار ہونے والے قارئین کو باخبر کرنا چاہتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے اواخر میں سندھ کے جھوک نامی علاقے میں ایک بہت بڑا انقلابی نمودار ہوا.شاہ عنایت اس کا نام تھا.اس نے ایک کمیون یا مشترکہ کھیتی باڑی کانظام قائم کیا .یہ کمیون دو بڑے نعروں پہ مشتمل تھا. الارض اللہ(زمین اللہ کی ہے) اور "جیکو کھیڑے سو کھائے” جو کاشت کرے وہ کھائے.

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*