غزل

سراپا خواب ہوں اور جاگتا ہوں
یہ کس تعبیر میں الجھا ہوا ہوں

نہیں پہچان یوں آسان میری
شعاعِ مُرتعش کا آئینہ ہوں

خموشی کو مری آسان مت لے
کہ میں جب بولتا ہوں۔ بولتا ہوں

ہوئے متروک سب الفاظ جن کے
انہی بھاشاؤں میں لکھا گیا ہوں

اذل سے ہے ابد ، بس ایک لمحہ
فریبِ وقت کو جب جانچتاہوں

کبھی بکھروں گا تو تجھ کو ملوں گا
کئی برسوں سے خود میں لاپتہ ہوں

محبت، دوستی، خوش رنگ لمحے
سرابوں کو بہت پہچانتا ہوں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*