ڈی کلاس کلب کا ممبر’’ جانان‘‘

سائیں کمال خان شیرانی نے جب سیاست میں شخصیت پرستی اور زربردستی جیسی برائیوں کو بڑھتے دیکھاتو ڈی کلاس کلب کے نام سے کچھ نظریاتی لوگوں کی ایک غیر رسمی انجمن قائم کرلی۔اس انجمن کے افراد کے قومی افکار کی سچائی اور اخلاص سائیں مرحوم کے ذہنی کرب کو کچھ نہ کچھ اطمینان دلادیتااوروہ اپنے درمیان مختلف سیاسی مسائل کو سلجھانے کاراستہ تلاش کرتے۔
ڈی کلاس اصطلاح ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو اپنا بالائی معاشی سیاسی سماجی طبقہ چھوڑ کر نچلے طبقات میں شامل ہوجاتے ہیں۔ سائیں کمال خان شیرانی مرحوم کی اس طنزیہ ڈی کلاس کلب کے پیچھے اجتماعی زندگی کی وہ فکر کارفرمارہی تھی جس سے ایک سیاسی کارکن معاشرے کے نچلے طبقے کے عام سیدھے سادھے اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے والوں میں گھل مل جائے ۔سائیں کامقصد ایک ایسی انجمن کی تشکیل تھی جس میں مساوات کی بنیاد پر ایک معتدل زندگی گزارنے کی گنجائش ہو۔ڈی کلاس کلب کے انجمن میں لٹ خانہ کی طرح اپنے سیاسی رفقاء کے علاوہ علاقے کے عام لوگوں میں بھی قومی سیاسی شعور کو اجاگر کیااور اپنے خوش بیان لہجے ، سچ اور حقیقت پرمبنی عالمانہ افکار سے اپنا ہم فکر بنایا۔
ڈی کلاس کلب کے لوگوں کی نشست وبرخاست ، اوڑھنا بچھونا اور خوراک وپوشاک زیریں طبقے کے لوگوں سے مشابہ تھی ۔ مثال کے طورپرکھانے میں عام سادہ خوراک کا استعمال کرنا، بیٹھنے کیلئے برتر مقام کی بجائے عام لوگوں کے ساتھ بیٹھنا، شخصیت پرستی اور تکبر کو پاؤں تلے روندنا،وی آئی پیزکی طرح بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے کے بجائے عام سواری کاانتخاب کرنا،عام لوگوں کے ساتھ بیٹھنااور ایسے کاموں میں حصہ لینا جس میں غریب طبقے کے لوگوں کی زندگی منعکس ہو ۔گفتارکی بجائے ڈی کلاس کلب کے لوگوں کا مطمع نظر ہمیشہ کردار اورعمل ہوتاتھا۔گویا یہ کلاس ایک ایسی غیر مجسم فکری ترازو تھی جس کے ذریعے کردار کے لوگوں کا اچھے انداز میں تعین ہوسکتاتھا۔اس کلاس کے لوگوں کے افکار کا نتیجہ ایک مہذب ، شعوری ، مساوات پر مبنی اور اشتراکی انجمن قائم کرناتھی۔
ڈی کلاس کلب کے نام سے پہچان رکھنے والی اس انجمن میں’’ جانان ‘‘ نام کی ایک جانانہ شخصیت بھی شامل تھی جو نہ صرف نام کاجانان تھابلکہ عملی میدان میں بھی جانان ؔ ثابت ہوا۔
یہاں’’جانان کاکا ‘‘ کے ایک مختصرسے روایتی تعارف قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔جانان ژوب کے کاکڑ حرم زئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ حاجی چہارمحمدمرحوم کے ہاں 1951میں پیدا ہوا ۔ باقاعدہ رسمی تعلیم اس نے نہم جماعت تک حاصل کی لیکن اعلیٰ تعلیم کو خیرباد کہنے کے بارے میں وہ یوں بیان کرتے ہیں’’ایک وقت میں نے اسلامیات کا پرچہ کچھ اس انداز میں حل کیا کہ استاد کو یقین نہیں آرہاتھا کہ یہ کسی طالبعلم کاکارنامہ ہوسکتاہے۔ اسی وجہ سے استاد کی طرف سے اس پریہ الزام لگایا گیاکہ مذکورہ پرچہ اس نے حل نہیں کیاہے‘‘۔شاید یہی وجہ تھی کہ جانان کاکا اس تعلیمی نصاب اور تعلیم وتربیت سے دور ہوگیا ۔
جانان کاکا ایک قومی سیاسی فکر کا حامل انسان تھا۔ سرکاری ملازمت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ پھر اس کو یہ فکر بھی دامن گیررہتی تھی کہ کہیں اس کی تعلیم کاغرض وغایہ فقط ایک سرکاری ملازمت پرمنتج نہ ہوجائے ۔یوں عوامل بھی ان کی تعلیمی سرگرمیوں کو خیر باد کہنے کا موجب بنے۔
جانان کاکا ایک محکوم سوسائٹی کے ایک غریب گھرانے کا عام فرد ہے جس نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے طفیل اپنے آپ کو اس مقام سے نوازاہے جو اس کی ہمہ جہت ذہانت ، علم اور سیاسی شعور اور اس کے مطالعے کی وسعت کابین ثبوت ہی توہے۔
جانان کاکا نے اپنے وسیع تر مطالعے اور گہرے فکر وصلاحیت کی بناپر قوم کی محکومیت ، پسماندگی اور محرومی کے اسباب سے خوب جانکاری حاصل کی جس نے اس کے دل میں نجات کا راستہ ڈھونڈنے کے جذبات کو متحرک رکھا۔اس نے سیاسی میدان میں عملی اور رسمی طریقے سے اہداف کو حاصل کرنے کی خاطر پشتونخواملی عوامی پارٹی کا انتخاب کیا۔اس پارٹی کے پلیٹ فارم سے جانان کاکا ایک سچے کارکن کی حیثیت سے ہرطرح کی قربانیوں کیلئے ہمیشہ چاق وچوبندرہا اور تادم تحریر اپنے اسی بے لاگ موقف اور نظریے پراستقامت کے ساتھ قائم ہے ۔جانان کاکا پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا رکن بھی رہا ۔
ڈی کلاس کلب کا ایک کٹر رکن ہونے کے ناطے جانان کاکا نے کبھی بھی سکرین والی تشہیری سیاست نہیں کی۔ لیکن اپنی مخلصانہ کاوشوں اور راست گو ئی کے طفیل انہیں پارٹی میں ہمیشہ قدر اور عزت کامقام حاصل رہا۔
سماجی انصاف زندگی کا وہ اہم پہلو ہے جو علمی دنیا میں سوشلزم کے نام سے جاناجاتاہے اور ایک مہذب، پرامن ، آسودہ حال اور ترقی یافتہ اجتماعیت کی تشکیل کے بارے میں یہ باقاعدہ طورپراپنا علم ، فلسفہ اور اصول رکھتاہے۔جانان کاکا کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ سیاسی نظام میں نہ صرف اجتماعیت کا قائل ہے بلکہ اس کی شخصی زندگی بھی ایک سماجی اور عملی زندگی کا نمونہ تھی جو خاموشی کے ساتھ سوسائٹی کو سکھانے کا درس دیتاہے۔یوں تو ہماری سوسائٹی میں گفتار کے غازیوں کی کمی نہیں ہے لیکن جانان کاکا معاشرے میں ایک عام انسان کے طور پررہنے کا سختی سے قائل ہے۔اس کی یہ سادگی اور غیرمعمولی سنجیدگی نے معاشرے کے لوگوں پر بڑے مثبت اثرات مرتب کیے اور اس کے افکار بڑی حد تک لوگوں کی عملی زندگی میں شعوری اور لاشعوری طریقوں سے جگہ پانے لگے۔
جانان کاکا ،نے اقتصاد کے بارے میں بھی خاطر خواہ مطالعہ کیاہواہے۔اقتصادی جانکاری کی جھلکیاں ہم نے ان کی عملی زندگی میں بھی دیکھی ہیں ۔ اخراجات کے بارے میں اس کا یہ عقیدہ تھا کہ حسب توفیق خرچ کرناچاہیے اور ایسا خرچ کیا جائے جس میں فضول خرچی کی ذرہ بھر گنجائش نہ ہو۔اسی طرح وہ بچت کا بھی اس حدتک قائل ہے کہ اس کی برکت سے انسانی ضرورتیں ہر وقت پوری ہوں۔مثلاً قدرت کے سبھی انعامات میں اناج (غلہ ) اس کے ہاں زیادہ اہمیت رکھتاتھا کیونکہ یہ انسانی زندگی کی بقاکیلئے ازحدناگزیر ہے، جبکہ دوسرے قدرتی انعامات کو وہ ثانوی درجہ دیتا ہے۔اسی طرح جڑی بوٹیوں اور درختوں کو سوختنی لکڑی کے طورپر استعمال کرنے کا بھی وہ بہت مخالف ہے اور کہا کرتا ہے کہ درختوں کو کاٹ کر جلانے کی بجائے کمبل اوڑھنے سے سردی سے حفاظت کرنا چاہیے۔مختلف انواع واقسام کے پودوں کے بیج دور دور سے لا لاکر اپنے علاقے میں اگانا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔کاکا ڈیرہ اسماعیل خان سے ببول کے درخت کے بیج اکثر اپنے ساتھ لاتا اوراسے روزانہ کی بنیادپرراستوں، ندی نالوں اور سڑک کے کنارے پھینکتا جو بعد میں کیکر کے تناور درخت بن جاتے تھے ۔فضول خرچی ، سہولت پسندی اور اپر کلاس والوں کی طرح زندگی گزارنے سے جانان کاکانے اپنی زندگی کے مہ وسال میں مکمل اجتناب کیا۔ یہی وجہ تھی کہ سواری کیلئے بھی ایک ایسی پرانی موٹر سائیکل اس کے زیراستعمال تھی کہ بمشکل ڈبل سواری کا متحمل ہوسکتی تھی۔جانان کاکا کی اس پرانی موٹر سائیکل سے متعلق مجھے بچپن کے وقت کاایک واقعہ یاد آیا۔سکول کے زمانے میں ہم روز اپنے گاؤں ’’ملور ‘‘ سے سڑک تک پیدل سفر کرتے تھے ۔ سڑک پہنچنے پروہاں کسی گاڑی کا لفٹ لے کر سکول تک پہنچ جاتے ۔ صبح کے وقت میں جب بھی گاؤں سے پیدل نکلتا تو بسا اوقات پیچھے بہت دور سے جانان کاکا کی پرانی موٹر سائیکل کی آوازمیرے کانوں میں گونجتی ۔یہ تومجھے یقین تھا کہ وہ ضرور مجھے اپنے ساتھ بٹھائے گا لیکن پھربھی ایک عجیب قسم کی مشکل سے اپنے آپ کو دوچار محسوس کرتا ۔مشکل یہ تھی کہ ایک طرف اس کی موٹرسائیکل بڑی مشکل سے دوسری سواری اٹھانے کے قابل تھی ، دوسرا یہ کہ میرے علاوہ جانان کاکا تیسری سواری کو بھی اس بے چاری پر بٹھانے میں سخی ہے،یوں اس خوف کی وجہ سے جب بھی ان کی موٹرسائیکل کی آواز میری کانوں میں پڑتی تو میں چپکے سے راستہ تبدیل کرلیتا۔
جانان کاکا اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ ہمیشہ دوسری زبانوں کو سیکھنے کی جستجو میں ہوتا تھا۔اس سلسلے میں وہ انگریزی، فارسی ،سندھی ، سرائیکی اور اردو زبان بھی بڑی روانی کے ساتھ بول اور لکھ سکتے تھے۔
لسانی اصولوں کی رو سے جانان کاکا بھی ہر زبان کو اپنی بنیادی فطری لہجے میں بولنے کا قائل تھا ۔ اپنی مادری زبان پشتوکے لغات اور اس کی دیگر باریکیوں پر وہ خوب دسترس رکھتے تھے ۔اگر کسی پشتو بولنے والے کو گلابی پشتو بولتے دیکھتا تو بہت برا مناتا ۔
دنیا کے دیگر ملکوں کی سیاحت اگر ایک طرف انسانی دماغ کو فرحت بخشنے کا بہترین ذریعہ ہے تو دوسری طرف سیاحت کے دوران دوسری اقوام کی تہذیبی، علمی ، ثقافتی دساتیرکے حوالے سے انسانی فکر کی وسعت کا سبب بنتاہے۔سیاحت کے دوران ایک سیاح دوسری قوموں کی اجتماعی زندگی کے روزمرہ معاملات ، رسوم ، عادات، علمی سیاسی فکری اور شعوری سطح کا بہتر طریقے میں ادراک کرسکتاہے۔
ایک سیاحتی ، معلوماتی اور حساس ذہنیت کے مالک ہونے کی بنیاد پر جانان کاکا نے چین ، ایران ، کشمیر اور افغانستان کے سفرکیے ۔ہندوستان کاسفر اگرچہ اس کی ایک دیرینہ خواہش رہی لیکن بدقسمتی سے یہ پوری نہ ہوسکی۔
محض گفتار کا غازی بننے کی بجائے جانان کاکا ہمیشہ کردار کا غازی رہا ۔اس نے شخصیت پرستی ، انانیت ، اقتدار پرستی اور آسائش پرستی کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا جو یقیناً اس سماج میں ایک نفسیاتی جہاد سے کم نہیں ۔
جانان کاکا نے ہمیشہ پرائے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھا اور دوسروں کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھ کراس میں حصہ لیا۔قرب وجوار میں جسے بے روزگار اور لایعنی کاموں میں مصروف دیکھتا تو پہلے اُسے کام کی ترغیب دینے کی بھرپور کوشش کرتا ۔دوسری طرف ہر وہ آدمی اس کی آنکھ کا تارہ ہوتاتھا جو کسی نہ کسی کام اور روزگارسے منسلک رہتاتھا۔ جانان کاکا اپنے اور پرائے کو کام کی ترغیب اس حدتک دیتا تھا کہ لوگ اس کو گھرانے کا فرد سمجھنے لگتے۔گاؤں میں کسی ہمسائے کے کھیت میں ناکارہ جڑی بوٹیوں کو کاٹ کر زمین کو کاشت کیلئے صاف کرتاتھا۔ جب بھی خو دغرض ذہنیت کے مالک آدمی جانان کاکاکو دوسروں کی خدمت میں کام کرتے دیکھتا تو حیرانی سے پوچھتا کہ آپ عجیب پاگل انسان ہو، آجکل کے دور میں بھی دوسروں کا غم اپنے سر پہ اٹھا رکھا ہے اور اپنا توانائی دوسروں کی زمینوں پرضائع کررہے ہو۔ اس پر جانان کاکا اسے فقط چند الفاظ میں سمجھادیتاکہ اس کھیت کا مالک بے چارہ تو اپنے گھر کا کفیل شخص ہے ، صبح سویرے کوئی کام کاج اور بچوں کو سکول لے جانے کیلئے نکلتاہے پھر شام کو واپس گھر لوٹتاہے ، سو اس کے پاس اپنا کھیت سنبھالنے کیلئے وقت نہیں بچتا، تو اگر میں اس کے کھیت میں کام کروں تو مجھے کیا نقصان ہوگا؟۔
بچپن میں میرے والد صاحب ایک دفعہ ٹی بی کے مریض ہوگئے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جانان کاکا بازار جانے سے پہلے ہر صبح میرے والد کیلئے انڈے اور دوائیاں اپنے ساتھ لاتا ۔ اس کوکام کاج سے یہاں تک منع کرتاکہ وضو بنانے کیلئے پانی سے بھرا چھوٹا لوٹا بھی نہ اٹھانے دیتا۔ہرکسی کے راستے میں پھول بچھانا جانان کا کا کاشیوہ تھا لیکن جب بعض لوگ ان کے راستے میں کانٹے ڈالنے کا اہتمام کرتے تو بھی ان ناشکروں کو احسان فراموشی کا طعنہ تک دینے سے احتراز کرتا۔انسانیت سے پیار ہونے کی بناء پر اس گلے سڑے سماج میں جانان کاکا کو کفر کے فتووں سے بھی نوازاجاتارہا یہاں تک کہ ان کے چھوٹے بھی ان کے عقیدے پر بدگمان ہونے لگے۔ ایک دفعہ اس کی چھوٹی بچی نے انہیں ’’مردار منہ ‘‘جیسے قبیح الفاظ کا طعنہ دے دیا ۔
ہم اسی زمانے میں بچے تھے جب جانان کاکا صحت مند اور تواناتھا۔ بدقسمتی سے ہمیں اس زمانے میں اس کے افکار اور اس کے قومی خدمات کے جذبات کا اندازہ نہیں تھا۔ بعد میں جب ہم ادب پڑھنے کے قابل ہوگئے تو اس وقت جانان کاکا کو ایک بدقسمت حادثے سے پالا پڑاتھا۔ سانپ نے کاٹ کر زہر اس کے جسم میں اس طرح گھول دیاکہ اس کی بینائی ، گویائی، اور بدن کے دوسرے تمام اعضاء ناکارہ ہوچکے تھے۔ اس وقت زندوں اور زندگی کے کاندھوں پر بوجھ یہ نیم مردہ لاش بے وفا وقت اور لوگوں کی طرف حیرت سے دیکھتا ہے۔ اسے اس وقت مایوسیوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، گویا کہ اس وقت اس کی آنکھوں میں بسی ہوئی اس کی بے غرض ماضی کی یادیں گویا یہ کہہ رہی ہیں کہ
ترجمہ : بادِ زمان ! میری زیست کی راکھ شدہ مینارپر آہستہ گزرتا کہ برباد نہ ہوجائے ،کیونکہ میں بھی کسی زمانے میں کسی کے عشق کی یادگار رہاہوں۔

ماہنامہ سنگت

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*