نصرت فتح علی خان

13 اکتوبر 1948
16 –اگست 1997

استادوں کے استاد نصرت فتح علی خاں کو ہم سے بچھڑَے 23 سال ہوگئے-
آن کی کچھ یادیں اور باتیں پیش خدمت ہیں-

آرٹسٹ جنگ پسند نہیں کرتے-جنگ ملک کے لئے اچھی نہیں ہے-ہمیں انڈیا کے ساتھ علم میں مقابکہ کرنا چاہئے
7 سال کی عمر سے میرے والد نے میری تربیت شروع کر دی تھی اور 13 سال میں میں نے باقاعدہ گانا شروع کر دیا تھا-
نصرت فتح علی خان پاکستان کا پہلا گائیک تھا جس نے عالمی شہرت حاصل کی-
استاد اتنا آہستہ بولتا تھا کہ ان کو سننے کے لئے ان کے منہ کے نزدیک کان لیجانا پڑتا تھا-
13 سال کی چھوٹی سی عمر میں نصرت نے 1964 میں اپنے والد فتح علی خان کی وفات کے بعد قوالی کی دنیا میں قدم رکھا اور پھر مڑ کر نہیں دیکھا اور ساری دنیا میں اپنی آواز کا جادو جگایا-

ان کے فن سے متاثر ہو کر مغربی موسیقاروں نے ان کے ساتھ گایا –
نصرت نے گانا اپنے چچا مبارک علی خان اور سامت علی خان سے سیکھا-نصرت کی آواز میں ایک ایسا جادو تھا جو کسی اور میں نہیں تھا-گو نصرت نے قوالی سے اپنی ابتدا کی مگر اس نے غزل میں بھی اپنا نام پیدا کیا-ان کی قوالی اور غزل میں بر صغیر کی کلاسیکل ،موسیقی کا زبردست امتزاج پایا جاتا ہے – وہ برصغیر کے بہت بڑے کلاسیکل گھرانے سے تعلق رکھتے تھے-
خاندانی پس منظر:
‘میرے آباو اجداد غزنی افغانستان میں ریتے تھے-محمود غزنوی کے دور وہ شیخ درویش ایک صوفی کے ساتھ ہندوستان آئے تھے-ہندوستان میں وہ جالندھر کی بستی شیخاں میں آباد ہوگئے -میرے بزرگوں نے وہیں گانا سیکھا اور پھر گائیکی کاپیشہ اختیار کر لیا-
یہ ضروری نہیں ہے کہ موسیقار گھرانے کا فرد، خواہ وہ گاتا ہو،نام پیدا کرے، عروج کو حاصل کرنے کے لئے اسے بہت محنت کرنی پڑتی ہے-اگر وہ کسی آرٹسٹ کا بیٹا ہے تو اسے اور زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے کیوں کہ اس کو اپنے والد کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوتا ہے-میرے اپنے خاندان میں اکثر لوگ نہیں گاتے –
بلکہ انہیں معلوم ہی نہیں ک کیسے گایا جاتا ہے-صرف وہی آرٹسٹ بن سکتا ہے جس میں خداداد صلاحیتیں
ہوں-
میرے خاندان میں میرا چھوٹا بھائی فرخ فتح علی خان ہے جو اچھا گائیک ہے اور میرے ساتھ وہ بچپن سے گاتا ہے-
ہمارے گھرانے نے بڑے گائیک پیدا کئے صا حب داد، خالق دادا، اطہر داد، جہانگیر میر داد، کلو خان وغیرہ-
میرے والدین استاد فتح علی خان اور استاد مبارک علی خان-وہ اپنے وقت کے بہت بڑے کلاسیکل موسیقار اور قوال تھے-انہوں نے بہت محنت کی ان کا کوئی مقابلہ نہ کر سکتا تھا-انہوں نے موسیقی کا ہر انگ سیکھا-وہ ہر طرح کا
Instrument
ساز بچا سکتے تھے –وہ کلاسیکل موسیقی کے بہت بڑے استاد تھے—ان کے شاگردوں میں بڑے غلام علی، سلامت علی، نزاکت علی ، استاد صادق علی
خان کے علاوہ بے شمار گانے والے تھے-جنہوں نے ان سے موسیقی کا ہنر سیکھا-ان کے بعد ان کی اولاد نے اپنی محنت سے گائیکی میں نام کمایا-
میرے بزرگون کا قوالی میں ساری دنیا میں نام تھا اور ان کا کوئی ثانی نہیں تھا-موسیقی کو جاننے والوں کا ان کے مرتبے کا احساس تھا-ان کی تربیبت بنیادی طور پر کلاسیکل گائیکی میں تھی اور انہوں نے قوالی کو بھی کلاسیکل انگ دیا-وہ خیال اور تروبت میں گاتے تھی-میرے والد فتح علی خان تروبت میں گاتے تھے اور اس کے بھائیِ مبارک علی خیال میں گاتے تھے سو ان کی قوالی میں دو رخ ہوتے تھے-
اس کے علاوہ وہ گھیرہ تلفظ اور گھیرہ تذمین بھی استعمال کرتے تھے-کسی کو اس کا پنجاب میں علم نہیں تھا-میرے والد پہلے تھے جنہوں نے اسے اسعتمال کیا-ان کی لے کی چوائس زبردست تھی-انہوں نے اسے پنجاب میں متعارف کروایا کیوں کہ پنجابی اس سے پہلے اس سے واقف نہ تھے-سو اس بات کا سہرا ان کے سر ہے-
بچپن میں مجھے طبلہ بجانے کی تربیت دی گئی-ملیلوڈی ہمارے گانے کا بہت اہم حصہ ہے-میرے والد نے بھی اسے استعمال کیا-میلوڈی ہمارے میوزک میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے-
مشرق اور مغرب کی موسیقی کی بارے میں:
مغرب میں لوگوں کا ردعمل بہت اچھا تھا انہوں نے ہمارا گانا بہت پسند کیا-ہمیں بہت پذیرائی ملی بعض لوگوں کو ٹکت نہیں ملے اور انہیں مایوس جانا پڑا-دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر سننے والے یورپین تھے-
وہ ہماری زبان نہیں سمجھتے تھے مگر ہم نے ردم اور میلوڈی اس طریقہ سے پیش کی کہ انہیں ہماری زبان سمجھنے کی ضررت پیش نہیں آئی- ہم الفاظ کی پروا نہیں کرتے ہم آرٹ کو پرکھتے ہیں-
ہم اس میں اب بھی تجربہ کر رہے ہیں-ہمارا ایک نمبر ہے ‘مست مست’ جس میں ہم نے پس منظر میں مغربی موسیقی کا استعمال کیا-مغرب کے بہت مشہور موسیقار
Peter Gabriel
نے
The last temptation of Christ
میں میری آواز، پس منظر میں میرا گانا استعمال کیا-
برطانیہ میں ایک بہت بڑی کمپنی
Real World
ہے جس کا سٹوڈیو
Bath, England
میں ہے، نے میرا گانا ریکارڈ –
مجھے مغربی میوزک کے ساتھ گانا بہت اچھا لگا۔ تبدیلی ہونی چاہئے –مغرب کو ہماری موسیقی اور ثقافت کو سمجھںا چاہئے اور ہمیں بھی ان کی موسیقی اور ثقافت کو سمجھنا چاہئے-اس عمل میں آرٹسٹ قریب آجائیں گے اور ایک دوسرے کو سمجھ پائیں گے-
مجھے مغربی ساذ پسند ہے اس کے ساتھ مجھے
Michael Jackson, Tina Turner
بہت پسند ہیں
Tina Turner
نے میرے ساتھ گانے کی خواہش کا اظہار کیا-
مجھے وہ گانے والے پسند ہیں جو لے کا استعمال کرتے ہیں اور جن کی آواز بھی سریلی ہو-کچھ افریقن گاانے والے بھی ہیں-میرا کالا گانے والا زمبابے کا یوسف علی فرخا دوست ہے-

موسیقی کے تعلیم و تربیت
شروع میں نے راگ ودیا گانا سیکھا اور اسے زبانی یاد کر لیا-
مجھے بہت سارے راگ پسندیدہ ہیں –میں نے کلاسیکل موسیقی میں تربیت حاصل کی لیکن مجھے ذاتی طور پر ایمن کلیان، گجری، دہسی ٹوڈی، درباری اور للت پسند ہیں-
معراج کو حاصل کرنے کی لئے ایک اچھا آرٹست ہر وقت ہمیشہ ریاض کرتا ہے-ریاض لازمی ہے لیکن ہم اس سطح پر پہنچ گئے ہین کہ ہم ذہنی ریاض کرتے ہیں-
ماضی میں ہم 10 گھنٹے ریاض کرتے تھے-میرا چچا اس عمارت کے نچلے حصہ میں رہتا تھا-وہاں ایک بیٹھک تھی –جہاں ہم ریاض کرتے تھے اور وقت کا کوئی احساس نہہں ہوتا تھا-صبح شام کا کوئی تصور نہیں تھا-
کبھی ہم صبح ریاض شروع کرتے اور رات کو دس بجے ختم کرتے یا رات کو شروع کرتے تھے اور صبح ختم کرتے تھے-میں اب بھی ذہنی ریاض کرتا ہوں-
غزل گانے کی ابتدا:
میں نے ابتدا قوالی سی کی آپ کو پتہ ہے میں نے غزل کیسے گانی شروع کی-یہ ایک حادثہ تھا-میں شروع سے ہی کلاسیکل میں گاتا ہوں-میں اپنے والد کی برسی پر بھی کلاسیکل گاتا ہوں-ریڈیو ٹی وی اور لاہور میں بڑے ارٹستوں کے درمیان بھی میں کلاسیکل گاتا ہوں-میری پہچان کلاسیکل گائیک کی ہے-
موجودہ دور ہر فن مولا کا ہے جیسے کرکٹ میں عمران آل راوڈدر ہے-میری نظر میں آل راونڈر ہونا اچھی بات ہے-یہ صحیح نہیں ہے کہ میں قوالی پر ہی انحصار کروں اور دوسرے صنفوں کو بھول وں کیون کہ میں بنیادی طور پر کلاسیکل موسیقی میں تربیت یافتہ ہوں-ہمیں موسیقی اور گانے کے ہر پہلو پر عبور ہونا چاہئے-
ایک شخص جسے آرٹ کے تکینکی علم پر عبور حاصل ہو اور جس کی آواز بھی سریلی ہو اور جس کو شاعری اور ادب سے دلچسپی ہو-غزل گانا اس کی لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے-
کلاسیکل گائیگی کا مستقبل:
میرے خیال میں لوگ کلاسیکل گانے سے بھاگ رہے ہیں-اس میں ہمارا قصور پے-ہمیں کلاسیکل میوزک اس انداز میں پیش کرنا چاہئے کہ لوگ اس کو پسند کریں اور جس فنکار کو اپنے فن پر عبور حاصل ہے یہ اس کے لئے مشکل نہیں ہونا چاہئے-اس کو اپنا فن عام آدمی تک پہچانا چاہئے-مسئلہ اب یہ ہے کہ جب ریڈیو اور ٹی وی پر کلاسیکل موسیقی پیش کی جاتی ہے تو لوگ اس کو بند کر دیتے ہیں-ہمیں کلاسیکل موسیقی میں عام فہم انداز اپنانا چاہئے تاکہ لوگ اس سے محظوظ ہوں-
قوالی میں میں نے ایسا عام اندااز اپنایا ہے کہ میں نے ایک معیار بنا دیا ہے-کوئی بھی چیز مضبوط لے کے ساتھ پیش کی جائے تو لوگ محظوظ ہوتے ہیں وہ بھی جنہیں کلاسیکل موسیقی کی شدھ بدھ نہیں ہے-کیون کہ یہ ہماری فطرت میں ہے، ہمارے دل کی دھرکن میں ہے، دنیا میں ہر چیز کا ایک نظام ہے-سر انسانی فطرت کے بہت قریب ہے-

پسندیدہ کلا سیکل گائیک :
مجھے ہندوستان میں بڑے غلام علی خان، استاد امیر حسین خان، استاد اللہ رکھا خان اور پاکستان میں استاد سلامت علی خان پسند ہیں-
ہندوستان میں عورتوں میں کلاسیکل گانے والیوں میں کشوری امونکر کا بہت اعلیٰ معیار ہے، مجھے پروین سلطانہ بھی پسند ہے-

روشن آرا بیگم جیسا فنکار ایک صدی میں ایک ہوتا ہے-موجودہ فنکار محنت نہیں کرتے اور زیادہ کوشش نہیں کرتے لیکن سرحد کے اس پار اچھے عورت اور مرد گانے والے ہیں-
مجھے پاکستانی گانے والوں میں فریدہ خانم، غلام علی اور نور جہاں پسند ہیں-یہ سب اچھے گانے والے ہیں-کلاسیکل گانے والوں میں مجھے استاد سلامت علی پسند ہیں
عدندنان سمیع اور کچھ دوسرے اچھے ہیں، ہمیں ہر قسم کے موسیقی کو خوش آمدید کہنا چاہئے-ہمیں عوام کے قریب آنا چاہئے عدنان سمیع نوجوان ہے اور لوگوں کو متحرک کرتا ہے-
ہند-پاک تعلقات:
ارٹستوں کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں ہوتی-آرٹسٹ جنگ پسند نہیں کرتے-جنگ ملک کے لئے اچھی نہیں ہے-ہمیں انڈیا کے ساتھ علم میں مقابکہ کرنا چاہئے، آرٹستوں کے ساتھ جیسے کہ ہم ان کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلتے ہیں-ہم ان کے ساتھ ثقافتی وفود کا تبادلہ کریں –مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمیں انڈیا کے آرٹسٹوں کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے-پاکستان کے علاوہ وہ واحد ملک ہے جہاں کلاسیکلی انداز مین گانا گایا جاتا ہے-
ہماری ایک ثقافت اور تہذیب ہے-سو ہمارا انڈین آرٹسٹون سے ذہنی مقابلہ ہے-ہمارے اچھے آرٹست، سنگر، موسیکار شائد مقبول نہ ہوں مگر سرحد کے دونوں طرف ارٹسٹ ایک دوسرے کو جانتے ہیں-
1980 میں ہم راج کپور کی دعوت پر اینڈیا گئے تھے-ہمارا بہت پر جوش استقبال ہوا تھا-اس کے بعد ہمیں کئی دعوت نامہ ملے مگر ہم ہندوستان دوبارہ نہ جا سکے مگر ہماری کیسٹوں کی وجہ سے لوگ ہر گھرمیں ہمیں جانتے ہیں-
میری 150 کیسٹیں ہیں مجھے کچھ پیسے رائلٹِی کے ملتے ہیں مگر ریڈیو اور ٹی وِ ی بہت کم پیسے دیتا ہے-لیکن شروع میں شہرت کے لئے کم پیسوں پر بھی گانا پڑتا ہے-ہماری ٹیم کے 12/13 ممبر ہیں کبھی کبھی ہمیں سفر پر تی وی کے معاوضہ سے زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے-

مستقبل:

میرا ارادہ موسیقی کی تعلیم عام کرنے کے لئے اپنے والد استاد فتح علی خان اور چچا استاد مبارک علیخان کے نام پر فیصل آباد میں اکیڈمی بنانے کا ہے-پچھلے 26 سالوں سے ہم اپنے والد کے لئے ان کی وفات کے دن سالانہ پروگرام منعقد کرتے ہیں-ہمارے پروگرام اتنے مقبول ہیں کہ سارے آرسٹ اس میں شامل ہونا پسند کرتے ہیں-ہم اس پر اپنے پیسہ خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی دلچسپی رہے-ہم اس لئے یہ کرتے ہیں کہ ہمارا ارادہ ایک اکیڈمی کھولنے کا ہے اپنے بزرگوں کے نام پر-
ہمارے گروپ میں گانے والے سب رشتہ دار ہیں-
ہم اپنے بچوں کو کلاسیکل موسیقی میں تربیت دے رہے ہیں مگر یہ اچھی بات ہے کہ کوئی جدید موسیقی بھی سیکھے-ہم موسیقی کی ہر صنف کو خوش آمدید کہتے ہیں-
پاکستان میں کلالسیکی موسیقی کا مستقبل روشن نہیں ہے گو آرٹسٹ اپنے بچوں کو کلاسیکل موسیقی میں تربیت دیتے ہیں مگر اس کا مستقبل روشن نہیں ہے-
کلاسیکی والے اب اپنے بچوں کو ہلکی پھلکی موسیقی کی تربیت دے رہے ہیں کیوں کہ کلاسیکل موسیقی کا کوئی مستقبل نہِں ہے- شام چراسی کا گھرانہ اپنے بچوں کو لائت میوزک میں ٹرینگ دے رہا ہے-
پاکستان میں لوگون موسیقی کی طرف لا تعلقی کا رویہ ہے-موسیقی اور گانا سکھانے کے لئے کوئی ادارہ نہیں ہے- لوگ موسیقی کے بارے میں الجھاو کا شکار ہیں-جو اسے سیکھنا چاہتے ہیں یا سیکھ چکے ہیں ہمیشہ الجھاو کا شکار ہیں اور اسے حرام سمجھتے ہیں –لیکن آپ کو سچ بتاوں کلاسیکل موسیقی، سر اور لے، اسلام کے خلاف نہیں ہے-یہ حرام نہیں ہےسر کو سننے کے بعد آدمی بھٹکتا نہیں ہے-میں نہیں سمجھتا کہ یہ بری چیز ہے-ہمارے لوگ ابھی بھی حلال اور حرام میں الجھے ہوئے ہیں-اس کے علاوہ سرکار بھی اس کی سرپرستی نہیں کرتی-
اس کے بر عکس انڈیا میں سرکار نے اکیڈمیاں کھولی ہوئی ہیں ادارے بنائے ہوے ہیں-وہاں لوگ باقاعدہ ارٹ سیکھتے ہیں-یہاں الگ الگ اپنی کوشش اور پہل قدمی سے سیکھتے ہیں –لیکن سرکار کی طرف سی کوئی سرپرستی نہیں ہے-
پاکستان میں لوگوں کا موسیقی کی طرف لا تعلقی کا رویہ ہے-موسیقی اور گانا سکھانے کے لئے کوئی ادارہ نہیں ہے- لوگ موسیقی کے بارے میں الجھاو کا شکار ہیں-جو اسے سیکھنا چاہتے ہیں یا سیکھ چکے ہیں ہمیشہ الجھاو کا شکار ہیں اور اسی حرام سمجھتے ہیں –لیکن آپ کو سچ بتاوں کلاسیکل موسیقی، سر اور لے اسلام کے خلاف نہیں ہے-یہ حرام نہیں ہےسر کو سننے کے بعد آدمی بھٹکتا نہیں ہے-میں نہیں سمجھتا کہ یہ بری چیز ہے-ہمارے لوگ ابھی بھی حلال اور حرام میں الجھے ہوئے ہیں-اس کے علاوہ سرکار بھی اس کی سرپرستی نہیں کرتی-
اس کے بر عکس انڈیا میں سرکار نے اکیڈمیاں کھولی ہوئی ہیں ادارے بنائے ہوے ہیں-وہاں لوگ باقاعدہ ارٹ سیکھتے ہیں-یہاں الگ الگ اپنی کوشش اور پہل قدمی سے سیکھتے ہیں –لیکن سرکار کی طرف سی کوئی سرپرستی نہیں ہے-

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*