میں خوشبوؤں کے بازار میں ایک ایسی دکاں پر کھڑی ہوں۔۔
ہر ایک شکل کی خوشبو جہاں سجی ہوئی بند ہے
کانچ کی ننھی صراحیوں میں کہیں کسی آہو کی بیتاب خوشبو
کہیں پہ سمندر کے بطن کا نیلگوں جادو۔۔
گلاب و عنبر و یاسمیں کی الگ بہاریں ہیں
“فقط آپ کو زیبا ہے خوشبو” کہیں پکاریں ہیں۔۔
حنا کے عطر سے گرم لپٹیں مجھے بلاتی ہیں
اگر و لوبان کے دھویں میں سرسراتی ہیں۔
ایک یلغار جیسے خوشبو کی، ایک اودھم ہے میری سانسوں میں۔۔
میں ایک کانچ کی شیشی سے لے کے خوشبو کو
اپنے بازو پہ کچھ لگاتی ہوں۔
“ہاں یہ اچھی ہے مگر اتنی خاص نہیں ”
کوئی انوکھی سی خوشبو کیا آپ کے پاس نہیں ”
آپ کو کیسا عطر چاہیے بتائیے تو۔
ہر عطر لاجواب ہے آزمائیے تو۔
سن کے عطار کی باتیں میں تھک کے لوٹ آئی
آج پھر تمہاری خوشبو کو
ڈھونڈنے میں وقت گزارا ہے۔۔
سارے عطروں سے وہ انوکھی ہے۔۔
وہ جو بازار میں مل نہیں پائی۔۔
وہ مہک جو گرم چادر میں۔۔
تمہارے بالوں سے جنم لیتی ہے۔۔
تمہارے سینے سے پھوٹتا جادو
جس کی لہروں میں پھول کھلتے ہیں
تمہاری پوروں کے نرم سے حصے
جن میں خوشبو کے راز ملتے ہیں۔۔
وہ مہک جو میری گردن پہ
تیرے بوسے سے مل کے بنتی ہے
ساری دنیا کے عطر خانوں میں
اس کی کوئی مثل نہیں جاناں۔!۔
ماہنامہ سنگت اگست