ڈیئر ابو جان!۔

ابو کے نام خط

ایک سال اور بیت گیا۔ پھر 14 جولائی آگیا۔14 جولائی آنے سے پہلے ہی دل تنگ ہونے لگتا ہے۔ سانس سینے میں پھنس جاتی ہے، حلق میں گرہ سی پڑ جاتی ہے، اور بات بات پر آنسو آنکھوں سے رواں ہونے لگتے ہیں۔ آنسووٗں کو اگر پی بھی لوں تو آواز ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ نیند غائب، سکون ندارد اور دل تنگ۔ یہ حال گذشتہ سولہ سال سے ہے۔ اب تو بچوں اور شہزاد کو بھی پتہ لگ گیا ہے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیتے ہیں کہ خود ہی سوگ منا کر ٹھیک ہو جائے گی۔ لیکن اب ٹھیک ہونا ممکن نہیں بس ہمت جُٹا کر زندگی کی چاد ر واپس تان لیتی ہوں۔
آپ کو بتانے کے لئے بہت کچھ ہے اور آپ سے پوچھنے کے ہزاروں سوال۔ آپ سے ناراض بھی بہت ہوں۔ کئی برس تو اس بات سے reconcile ہی نہیں کر پائی کہ جاں کنی کے وقت آپ کے لبوں پر میرا نام کیوں نہیں آیا۔ آپ شاہ محمد مری کو کیوں پکارتے رہے۔ دعوے تو آپ کے مجھ سے محبت کے تھے پھر آخری وقت یہ بیوفائی کیوں۔ یہ بھی جاننا چاہتی ہوں کہ کیا گھڑی بھر کو میرا خیال بھی آیا کہ نہیں۔ کتابوں میں پڑھا تھا intuition کے بارے میں ،مگر سن 2002 اتوار کے دن صبح گیارہ بجے سے اس کو محسوس بھی کیا۔ دل گھبرا کر بار بار تیزی سے دھڑکنے لگتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ابھی بند ہو جائے گا، میں نے سمجھا کہ شاید ماں بننے کے احساس سے بوجھل ہے۔ کئی بار گھر ٖفون بھی کیا مگر جواب نہ پایا۔ آخری بار آپ سے بات بھی نہ ہو پائی اور نہ ہی آپ کا مخصوص جملہ I love you my princess سننے کو ملا۔ تھک ہار کر جب آرام کرنے بیٹھی تو یہ اندوہناک خبر ملی کہ آپ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور آپ جانبر نہ ہو سکے۔

یوں وحشتِ رُخصت میں نہ اِس دل کو رکھا جائے
جانا ہے کسی کو تو اچانک ہی چلا جائے

تب سمجھ آئی اپنی کےٖفیت اور تب ہی معلوم ہوا کہ یک جان دو قالب ہونا کیا ہوتا ہے۔ جب ایک جان نکل رہی ہوتی ہے دوسری جان اسے محسوس کرتی ہے۔ میں اس اذیت سے ہر14 جولائی کو گزرتی ہوں۔
امی، باجی، دارا، شہزاد، شہرزادے اور انوشے کے بے تحاشا پیار اور محبت کے باوجود زندگی تنگ سی لگتی ہے۔ ہر خوشی، ہر غم، ہر کامیابی، ہر ناکامی، ہر دن اور ہر گھڑی آپ کو یاد کرتی ہوں۔ بچوں کی ان گنت خوشیاں آپ کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہوں۔ آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ کیسے قدرت نے 16 اکتوبر 2002 آپ کی سالگرہ والے دن مجھے ایک ننھی پری سے نوازا ۔ انوشے کی شکل میں آپ مجھے واپس مل گئے اور قدرت نے مجھے تباہی سے بچا لیا۔شہرزادے اور انوشے کو آپ کے قصے اور باتیں ایسے سنائی گئیں ہیں جیسے بچوں کو دیو مالائی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ کاش آپ ان دونوں کو بڑا ہوتے دیکھ پاتے اور کاش کہ وہ آپ کی گود میں کھیل کر بڑی ہوتیں۔ کاش کاش اور بہت سارے کاش۔۔۔۔
ٍ ابو جان ! آپ کے بعد بہت حالات تبدیل ہوئے۔ آپ کا کوئٹہ نا قابل بیان حد تک بدل گیا۔ لوگ ایک دوسرے سے کترانے لگے۔ کئی علاقے no go area بن گئے۔ نقل مکانیاں ہوئیں، گمشدگیاں ہوئیں، ہلاکتیں ہوئیں، شہادتیں ہوئیں، بوٹوں کی گونج سنائی دی،آزادی کے نعرے ابھرے، قوم پرستی، فرقہ پرستی کا راج ہے اور جمہوریت خاموش تماشائی ہے۔ عام افسرگھر میں کروڑوں دبائے بیٹھا ہے اور عام آدمی اپنی جان بچانے میں مصروف ہے۔ اچھا ہی ہوا کہ آپ یہ سب دیکھنے سے پہلے ہی چلے گئے ورنہ آپ بھی نامعلوم افراد کا نشانہ بنتے۔
اور بہت سی باتیں ہیں آپ کو بتانے والی۔ سائنس اور کمیونیکیشن کی ترقی۔ Face book, twitter, WhatsApp, Snap Chat, Skype, Viber, Instagram, Tango, Facetime اور نجانے کیا کیا۔ آپ ہوتے تو پتہ نہیں کتنے ہزاروں آپ کے دوست ہوتے، اپنے پرانے گمشدہ دوستوں تک کو ڈھونڈ نکالتے۔اور آپ جو کمپیوٹر گیمز کھیلتے وہ الگ۔کتنا مزہ آتا جب امی اور آپ کی لڑائی ہوتی فیس بک پر اور ہزاروں لوگ اُس کو like کرتے۔ ابو جان ابھی تو آپ کے مطلب کا زمانہ شروع ہی ہوا تھا کہ آپ نے رخت سفر باندھ لیا۔یہ آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔خاص کر میرے اور دارا کے بچوں کے ساتھ۔
امی آپ کو سلام کہلاتی ہیں، اور امید کرتی ہیں کہ آپ نے حوروں سے دل نہیں لگا لیا ہوگا۔ آپ کے بچوں کی طرف سے آپ کو بہت سا پیار
آپ کی لاڈلی!۔
عائشہ امیر

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*