خالی رکابی

تابی میں خالی رکابیں میں عنابی و گلابی نقش نگار، اناج کے دانے بکھیر کر چھپا دیئے اس نے۔ اور اندر چلی گئی۔ تب ہی ایک کوا لپک کر جھپٹا اور رکابی کے کنارے پر جا براجمان ہوا۔ جس سے رکابی لرز گئی اور دانہ چگتی کبوتریں ذرا دور ہویں۔ کوے کو نہ بھایا تو جا اڑا مگر رکابی الٹا گیا۔ اس رکابی تلے ایک کبوتر آیا جس کے سر پر اب عنابی و گلابی نقش نگار سایہ کیے تھے کبوتر دانہ چگنا چاہتا تھا جو باہر بکھرا پڑا تھا۔ مگر اس کو نقش نگار دستیاب تھے سو چونچ سے ان کو تھونگا اور پھر رکابی کی اوندھی دیواروں سے اپنا سر لگا کر بے بسی سے بیٹھ گیا۔ آج پر گھر نہ لے جاسکتے تھے اور نقش نگار پیٹ نہ بھر سکتے تھے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*