برصغیر کی کچھ مذہبی اور تحریکیں

اس سے پہلے مضامین میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کیسے پروٹسٹنٹ ازم یورپ میں اور بھگتی تحریک برصغیر یں پروان چڑھیں۔ اب اس مضمون میں ہم مختصراً اس بات کا جائزہ لیں گے پندرہویں اور سولہویں صدی میں ہندوستان کن مسلم تحریکیوں سے متاثر ہورہا تھا۔
ہندوستان میں کبیر اوریورپ میں ایراس مس کے ایک ہم عصر سید محمد جون پوری تھے سن چودہ سو پینتالیس سے پندرہ سو پانچ تک تقریباً ساٹھ سال زندہ رہے۔ اگر کبیر برہمن اور ملا کے خلاف مزاحمت کررہے تھے اور اہراس مس کلیسائے روم میں اصلاحات کے خواہش مند تھے تو سید محمد جون پوری دونوں کا سنگم تھے۔
پندرہویں صدی عیسویں کے وسط میں جون پوری شرقی خاندان کے زیر اثر تھا جس نے چودھویں صدی کے اواخر میں تغلق حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ شرق خاندان پندرہویں صدی کے اواخر تک کوئی سوسال قائم رہا جب لودھی خاندان نے ایک بار پھر جون پور کو دہلی سلطنت کا حصہ بنالیا۔
یہ وہ دو تھا جب 1398 میں تیمور کے حملے نے ہندوستان میں دہلی سلطنت کو مفلوج کرکے چھوڑا تھا جس سے برصغیر کے ہندو اور مسلم دونوں شدید مایوسی کا شکار تھے۔ ان حالات میں مذہب بھی ایک میدان جنگ بن گیا۔
ہندومت میں بھگتی تحریک نے مختلف طریقوں سے مذہب کو زندہ کرنے کی کوشش کی جس میں ایک راستہ کبیر اور نانک کا تھا جنہوں نے مذہبی بالادستوں کے استحصال کا للکارا۔
دوسرا راستہ چینتیا، ولبھ اچاریا، سورداس، میرا بائی اور تلسی داس وغیرہ کا تھا جنہوں نے اپنے اپنے دیوتاﺅں سے قربت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں اور لوگوں کو بھی خاص طور پر کشن مہاراج کے قریب لانے کی کوشش کی۔
دھارمک ناچ گانے اس تحریک کا خاصہ تھے جن کے ذریعے عوام کو لوریاں سناکر سلانے کی کوشش کی گئی البتہ مسلم آبادی میں مذہب ایک مختلف موڑ سے گزررہا تھا۔
اس دور کی مذہبی سکونت کو ہلانے والی غالباً پہلی شخصیت سید محمد جون پوری کی تھی جن کی مہدوی تحریک اب تک قائم ہے اور ذکری مہدوی کے نام سے ایرانی خراسان، پاکستانی بلوچستان اور سندھ کے علاوہ افغانستان کے فراہ کے صوبے میں موجود ہے۔ گوکہ سید محمد جون پوری کی ابتدائی تعلیمات صوفیوں کے چشتی سلسلے سے تھیں لیکن انہوں نے جلد ہی خود کو مہدی موعود مشہور کردیا۔
 انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں خدائی پیغام کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ وہ ہی مہدی موعود ہیں۔ اس دور کے دیگر صوفیوں کی طرح سید محمد جون پوری کے حالات زندگی بھی کچھ مبالغہ آمیز معلوم ہوتے ہیں۔
سید سبط حسن اپنی کتاب ”پاکستان میں تہذیب کا ارتقا“ کے چھٹے باب میں بھگتی اور مہدوی تحریکوں کے بارے میں بھی مختصراً روشنی ڈالتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
” جب بہلول لودھی نے سلطان حسین شرقی کو شکست دے کر جون پوری کو سلطنت دہلی میں شامل کیا تو جون پوری کی ساری شان و شوکت خاک میں مل گئی۔ سید محمد جون پوری کو بڑا صدمہ ہوا۔ انہوں نے جون پور کے زوال کو اسلام کے زوال سے تعبیرکیا اور عہد نبوی کی اسلامی قدروں کی احیا کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ عین ممکن ہے کہ ان کے عزائم میں مسلمانوں کو بھگتی تحریک کے اثر سے محفوظ رکھنے کا جذبہ بھی شامل ہو۔ انہوں نے مہدی آخر الزماں ہونے کا اعلان کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ خدا نے مجھے مسلمان کو فسخ و فجور سے نجات دلوانے پر مامور کیا ہے۔ (صفحہ 227)
جون پور میں سید محمد کے بڑے عقیدت مند جمع ہوگئے اور خود سلطان، حسین شرقی علم و روحانی رتبے سے بڑا متاثر ہوا تھا۔ شرقی خاندان کے خاتمے کے بعد سید محمد جون پوری چالیس کی عمر میں جون پور سے چلے گئے اور 1480 کے عشرے میں گجرات پہنچے جہاں ان کے پھر ہزاروں معتقد جمع ہوگئے۔ اس وقت گجرات پر سلطان محمد بیگڑا کی حکومت تھی جو مظفری خاندان کا حکم ران تھا ۔ اس خاندان نے چودہویں صدی کے اواخر سے سولہویں صدی کے اواخر تک تقریباً دو سو سال گجرات پر حکومت کی۔
گجرات کے مذہبی رہ نماﺅں نے سید محمد جون پوری کی شدید مخالفت کی اور انہیں روانہ ہونا پڑا۔ کبیر اور نانک کی طرح ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے طویل سفر کیے اور افغانستان اور ایران کے علاوہ عرب ممالک بھی گئے۔ کہا جاتا ہے کہ سید محمد جون پوری نے حج کے بعد اپنے مہدی ہونے کا اعلان کیا مگر کسی نے ان پر یقین نہیں کیا۔ کچھ سال بعد وہ گجرات واپس آئے اور یہاں بھی مہدی ہونے کا اعلان کیا اور مہدوی تحریک شروع کی۔ پھر مقامی مذہبی رہ نما ان کے خلاف ہوگئے اور انہیں بھاگنا پڑا۔
یورپ کے پروٹسٹنٹ رہ نماﺅں کی طرح اور کسی حد تک بھگتی تحریک کی مانند سید محمد جون پوری پرانے مذہبی مسلکوں سے دور ہوتے گئے اور مذہب کے بنیادی ماخذ صرف آسمانی صحفیوں کو سمجھتے تھے۔ لیکن پروٹسٹنٹ رہ نماﺅں کے برعکس جون پوری ترک دنیا اور لوگوں سے دور رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اسی طرح کے رویے ہمیں کچھ مہدوی یاذکری لوگوں میں نظر آتے ہیں جو شادی کرکے اہل و عیال سے فارغ البال ہونے کے بعد بڑھاپے میں ترک دنیا کرتے ہیں۔
سید محمد جون پوری کی تعلیمات میں خدا کے دیدار کی تلاش اور ذکر یعنی مسلسل مراقبہ اور اسمائے مبارک کی تکرار بڑی اہم کی حامل ہے اور یہ تکرار خاموشی سے اور باآواز دونوں طرح کی جاتی ہے اس طرح اس میں بھگتی تحریک سے کچھ مماثلت بھی ہے جو خود اپنے دیوتاﺅں کے درشن کے لیے بھجن گاتے رہے تھے جو ایک طرح کا ذکر ہی ہے۔
پروٹسٹنٹ ازم کی طرح سید محمد جون پوری نے بھی یہی کہا کہ ان کا بنیادی مقصد مذہب کو اس کی اصلی حالات میں بحال کرنا تھا۔ جون پوری نے شریعت اور فقہہ کی بحالی کی بات کی۔ گوکہ مہدوی یا ذکری پیروکار تمام مسلکوں کے احترام کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی مماثلت حنفی مسلک سے نسبتاً زیادہ ہے۔ یہ لوگ فجر کے بعد اور مغرب سے پہلے ذکر کرتے ہیں۔ مہدوی تبلیغ کے لیے انہوں نے مختلف علاقوں میں تبلیغی مراکز بھی قائم کیے۔
مہدوی تحریک کے لیے سب سے تباہ کن بات سید محمد جون پوری کا یہ دعوا تھا کہ جو بھی ان کو مہدی تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے۔ ممتاز مورخ شیخ محمد اکرام نے اپنی کتاب ”رود کوثر“ میں چھ صفحات میں مہدوی تحریک کا ذکر کیا ہے ۔ لکھتے ہیں۔
”احمد آباد میں جب سید محمد جون پوری نے کہا کہ اس دنیا میں مادی آنکھوں سے خدا دکھا سکتا ہوں تو اس پر علمانے مخالفت کی اور آپ کے اخراج کا حکم ہوا۔ وہاں سے پٹن پہنچے جہاں بہت سے معتقدوں کے باوجود یہی صورت پیش آئی۔ پٹن سے آپ بری گئے جہاں آپ نے مہدی موعود ہونے کا پھر اعلان کیا اور مختلف حکم رانوں کو تبلیغی خطوط بھیجے، پھر جانور، ناگور، جیسل میر ہوتے ہوئے ٹھٹہ پہنچے جو سندھ کا پایہ تخت تھا۔ یہاں جام نظام الدین والی ٹھٹہ کی مخالفت کے باوجود کئی اکابر اور قاضی قاضی سندھ آپ کے معتقد ہوگئے۔ ٹھٹہ میں ایک سال قیام کے بعد آپ خراسان کی طرف روانہ ہوگئے۔ پہلے قندھار آئے اور وہاں سے فرہ پہنچے جہاں پندرہ سو چار میں بعارضہ تپ دق آپ وفات پاگئے۔ مزار فرہ کے قریب ہے۔“ (رود کوثر صفحہ 26-27)
مہدوی جماعت سید محمد جون پوری کے دعوﺅں پر یقین کے علاوہ یہ بھی عقیدہ رکھتی ہے کہ فرائض و واجبات قرآنی دو قسم کے ہیں اول تو نبوت اور شریعت کے احکام اور دوسرے وہ جن کا تعلق خاص ولایت محمدی سے ہیں جن کی تبلیغ کے لیے حضرت سید محمد مہدی موعود معبوث ہوئے جو دافع ہلاکت امت محمدی ہیں اور ناصر شریعت ہیں۔
 مقام ولایت میں جو امور فرض اور ارکان دین کا درجہ رکھتے ہیں حسب ذیل ہیں پہلے تو ترک دنیا، دوسرے صحبت صادقین، تیسرے عزلت از خلق، چوتھے توکل، پانچویں طلب دیدار خدا، چھٹے عشر، ساتویں ذکر کثیر اور آٹھویں اور آخری درجے پر ہجرت بھی فرض ہے۔
سید محمد جون پوری کی وفات کے بعد ان کی تحریک پر تشدد ہوا اور گجرات کے سلطان مظفر شاہ دوم جو پندرہ سو دس سے پندرہ سو پچیس تک برسراقتدر رہا اس نے مہدوی تحریک کو گجرات میں کچل دیا۔ ہوا یہ تھا کہ دوسری مہدوی خلیفہ بندگی میاں خند میر اور ان کے پیروکار ذکر خدا کے لیے ترک دنیا کرچکے تھے مگر پندرہ سو تئیس میں بندگی میاں کو ان کے مریدوں سمیت چمپا نیر گجرات میں قتل کردیا گیا جہاں اب بھی ان کا مقبرہ ہے۔
 شیخ محمد اکرام رود کوثر میں لکھتے ہیں۔
”شروع شروع میں یہ تحریک گجرات، خاندیش اور احمد نگر میں زوروں پر تھی اور بڑے قابل اورمخلص لوگ اس میں شامل تھے۔ لیکن شیخ علی متقی کی علمی مخالفت اور مخدوم الملک کی سیاسی کوششوں نے اسے شمالی ہند میں پھلنے پھولنے نہ دیا۔ گجرات سے یہ تحریک دکن منتقل ہوگئی۔ احمد نگر میں جہاں جمال خان مہدوی، نظام شاہی افواج کا ایک بااثر سپہ سالار تھا۔ اس فرقے کو ایک زمانے میں خاص اہمیت حاصل ہوگئی۔ جمال خان نے اپنے ہم مشرب مہدویوں کو ذکر وفکر کے اشغال سے ہٹاکر سیاست اور عسکری زندگی کی طرف مائل کیا۔ اس کے زیر اثر شاہی خاندان کے چھٹے بادشاہ اسماعیل بن برہان نے مہدوی عقیدہ اختیار کرلیا۔“ (صفحہ 28)
جب شاہ اسماعیل بن برہان نظام شاہی ثانی تخت نشینی کے دو ہی سال بعد پندرہ سو نوے میں مارا گیا تو احمد نگر میں پھر اثنا عشری شیعہ اثرات غالب آگئے۔ پھر بھی جنوبی ہند میں مہدوی لوگ باقی رہے اور کہا جاتا ہے کہ سلطان ٹیپو کے پاس بہت سے مہدوی افغان ملازم تھے جنہیں ایک بار حکم عدولی کے بعد مارا اور نکال دیا گیا۔
شیخ محمد اکرام حافظ محمود خان شیرانی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ” راجا چندولال کے دور میں حیدرآباد مہدوی گروہ کا مرکز بن گیا اور وہ دس بارہ ہزار کی تعداد میں ملازم بھی رکھ لیے گئے تھے اور بے باکانہ مذہبی بحثیں کرتے تھے بلآخر نواب سکندرجاہ نے انگریزی فوج کی مدد سے ان کو نکالا“ (صفحہ نمبر 29)
شاید بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوکہ نواب بہادر یار جنگ بھی مہدوی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا اور وہ جذباتی خطابت کے بادشاہ تھے اسی لیے انہیں نہ صرف مہدویوں میں بلکہ عام مسلمانوں میں خاص اثر حاصل تھا۔
 اس وقت یعنی اکیسویں صدی میں بھی کچھ مہدوی جنوبی ہند میں آباد ہیں اور بنگلور میں جماعت مہدویہ چلاتے ہیں ان کا ایک کتابچہ عقیدہ شریعہ ویب سائٹ پر موجو ہے جس میں بندگی میاں کی سوانح حیات شامل ہے جس کا انگریزی ترجمہ سید ضیاءاللہ نے کیاہے۔
 بلوچستان میں تربت کے قریب ذکری لوگ آباد ہیں جوکوہ مراد پر زیارت کے لیے جاتے ہیں جہاں سید محمد جون پوری کچھ عرصہ رہے تھے۔ اس وقت پاکستان میں ان کی آبادی مکران، لسبیلہ، کوئٹہ اور کراچی میں ہے۔ بھارت میں یہ لوگ حیدرآباد، تلنگانا، میسور اور کرناٹک میں رہتے ہیں۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ سولہویں صدی کے اوائل میں جب لوتھر اور زوینگلی جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں پروٹسٹنٹ تحریک کا آغاز کررہے تھے۔ پنجاب میں گرونانک ایک نیا مذہب شروع کررہے تھے اور بندگی میاں مہدوی تحریک کو بچانے کی کوشش کررہے تھے تقریباً اسی دوران میں سن پندرہ سو پچیس عیسوی میں جالندھر میں ایک ولادت ہوئی جو آگے چل کر بایزید انصاری کے نام سے جانے جاتے ہیں جنہوں نے روشنیہ فرقے کی بنیاد رکھی۔
بایزید انصاری وزیرستان کے اورمڑی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے خاندان کے کچھ لوگ جالندھر میں آباد تھے جہاں بایزید انصاری پیدا ہوئے۔ وزیرستان واپس جاکر انہوں نے بڑا مذہبی مقام حاصل کیا ۔ بڑی ریاضتوں اور عبادتوں کے بعد اپنے خیالات کو پیش کیا تو مخالفت ہوئی جس پر وہ وادی تیراہ چلے گئے وہاں کئی قبیلیوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی مگر مخالفوں نے کابل کے بادشاہ مرزا محمد حکم کے پاس شکایت کی جس پر انہیں گرفتار کرکے کابل بھیج دیا گیا۔ جہاں کابل کے حکم ران اور قاضی ان کے باتوں سے مطمئن جہاں سے پیر روشن پشاور آگئے اور اپنی کتاب ”صراط التوحید“ شہنشاہ اکبر کے پاس بھیجی۔ مگر پھر پیر روشن کے مریدوں اور مغلوں میں لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ کہا جاتا ہے کہ پیر روشن نے بھی بڑے طویل سفر کیے اور اسماعیلیوں کے علاوہ ہندو یوگیوں کے ساتھ بھی وقت گزارا۔
بایزید انصاری پیرروشن کی تعلیمات میں بھگتی، اسماعیلی، مہدوی اور صوفی روایات کا مغلوبہ پایا جاتا ہے۔ بابا گروہ نانک کی طرح پیر روشن بھی مختلف مذہبی نظریات سے فیض اٹھانے کی کوشش میں تھے۔ وہ ابن عربی کے وحدت الوجود سے بھی متاثر تھے جس پر راسخ العقیدہ مسلمان خاصی تنقید کرتے ہیں۔
سید محمد جون پوری کی طرح پیر روشن کو بھی احساس تھا کہ وہ ایک عظیم منصوبے کی تکمیل پر مامور ہیں۔ پیر روشن ذکر خفی یا خاموش ذکر کے قائل تھے۔ جب جون پوری دیدار خدا کی تلاش میں تھے۔ پیر روشن قریب خدا کے داعی تھے۔ چالیس برس کی عمر میں پیر روشن نے بھی دعویٰ کیا کہ انہیں غیبی آوازیں آتی ہیں جو کہتی ہیں کہ مذہب کے ظاہری رسم و رواج چھوڑ دو۔
یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پروٹسٹنٹ اور بھگتی تحریک اور مہدویوں کی طرح پیر روشن بھی روایات کے خلاف ہیں۔
روشنیہ فرقے کے بارے میں کارآمد تعارف ہمیں ”دبستان المذاہب“ نامی فارسی کتاب میں ملتا ہے جو سترہویں صدی میں ایک ایرانی نژاد کشمیری عالم محسن فانی نے لکھی تھی۔ محسن فانی شہزاد دارہ شکوہ کے زیر سایہ بھی رہے۔
 ڈاکٹر ظہور الدین احمد اپنی کتاب ” پاکستانی فارسی ادب کی تاریخ“ مطبوعہ مجلس ترقی ادب لاہور میں لکھتے ہیں کہ محسن فانی ملا محمد کافی کے شاگرد تھے۔ انہوں نے علم و فضل میں کمال پیدا کیا اور شاہ جہاں نے بھی ان کی قدرومنزلت کی اور سالانہ وظیفہ مقرر کیا۔
ڈاکٹر ظہور الدین احمد نے محسن فانی کا تفصیلی ذکر دس صفحات میں کیا ہے اور ان کی شاعری اور حالات لکھے ہیں مگر فانی تصانیف میں جن پانچ کتابوں کا ذکر ہے ان میں ایک دیوان اور پانچ مثنویاں شامل ہیں مگر ”دبستان المذاہب“ کا ذکر نہیں ہے البتہ ڈاکٹر ظہور مختلف حوالوں سے یہ ضرور لکھتے ہیں کہ محسن فانی وسیع المشرب اور صلح کل کے مذہب پر یقین رکھتے تھے اور انہیں دارہ شکوہ کے قتل کا بہت افسوس تھا۔
 محسن فانی کی کتاب ”دبستان المذہب“ کا انگریزی ترجمہ جو راقم کے پاس موجود ہے اسے ”اورینٹل لٹریچر“ کے نام سے پہلے بار امریکا میں 1901 میں شائع کیاگیا تھا اور پھر 1973 میں پاکستان میں۔
پیر روشن کی تعلیم میں شریعت کے مطلوبہ رسوم و رواج پر زور نہیں اور نہ ہی نماز روزے کی تلقین ہے اور وہ بھی مسلمہ مذہبی ضابطوں کے خلاف تھے اور مذہبی افسر شاہی کو منافق قرار دیتے تھے۔ پیر روشن بھی زیادہ تر مراقبے، غورو فکر اور ذکر میں مشغول رہتے تھے اور اسمائے مبارک کی تکرار کرتے تھے۔ جیسا کہ کچھ مہدوی اور بھگتی لوگ کیا کرتے تھے۔
پیر روشن نے اپنی کتاب ”حال نامہ“ میں روحانی ارتقا کی جو منازل بتائی ہیں ان میں اول شریعت پھر حقیقت اور معفرت، پھر قربت اور وصالت اور آخر میں سکونت شامل ہیں۔ ”حال نامہ“ کے علاوہ ان کے دست یاب کتابوں میں ”خیر البیان“ ”مقصود المومنین“ اور ”صراط التوحید“ شامل ہیں۔
پیر روشن کی تعلیمات کی ایک اور خاص بات مردو زن کی برابری کا تصور تھا جس پر مخالفین نے بہت شورمچایا اور خاص طور پر ایک معروف شخصیت ”اخوند درویزہ“ نے پیر روشن کی شدید مخالفت کی۔
ڈاکٹر ظہور الدین احمد اپنی کتاب ”پاکستا میں فارسی ادب کی تاریخ“ کے صفحہ 565 پر لکھتے ہیں۔
” پیر روشن بایزید انصاری اور ان کے بیٹے جلالہ کے ساتھ مغل فوج کی ٹکرہوتی رہی۔ جلالہ نے 1585ءمیں پشاور کے قلعے کا محاصر ہ کیا اور سید حامد بخاری کو قتل کردیا۔ 1586 میں مغل فوج جلالہ کو زیر کرنے میں مصروف رہی۔ جلال چترال کی پہاڑیوں میں پناہ گزین ہوا اور لڑتا ہوا مارا گیا۔ اس کی وفات کے بعد بھی روشنیہ تحریک جاری رہی۔ امداد انصاری اور عبدالقادر نے 1613 میں پشاور پر حملہ کیا جس میں قلیج خان مارا گیا۔ 1630 میں انہوں نے دوسرا حملہ کیا جس میں سپہ سالار مظفر خان کو شکست ہوئی۔ شاہ جہاں کے عہد میں بایزید کا آخری نامور خلیفہ عبدالقادر، مغل دربار سے وابستہ ہوگیا تو یہ سیاسی تحریک ختم ہوگئی۔“
 ڈاکٹر ظہور نے یہ تفصیلات بحوالہ منتخب التاریخ مصنف عبدالقادر بدایونی اور بحوالہ اکبر نامہ مصنف ابوالفضل تحریر کی ہیں۔
 جب کہ شیخ محمد اکرام ”رود کوثر“ کے صفحہ چھالیس پر لکھتے ہیں کہ
”ابتدا اس طرح ہوئی کہ پیر روشن کے مریدوں نے ایک قافلہ لوٹ لیا جو مال لے کر ہندوستان سے کابل جارہا تھا۔“
 جس کے بعد زور کا معرکہ ہوا جس میں مغل سپاہیوں کو شکست ہوئی مگر یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور مغلوں نے ان قبائلی جنہوں نے روشنیہ عقائد اختیار کرلیے تھے پر شدید حملے کیے اور اسی دوران 1572 میں پیر روشن یا بزید انصاری کی وفات ہوگئی۔ ان کے پانچ بیٹے تھے جو لڑائیوں میں مارے گئے۔ آخری بیٹا جلال الدین تھا جسے مغل مورخین جلالہ کہتے ہیں۔
اخوند درویزہ نے اپنی تصنیف ”مخزن اسلام“ میں فرقہ روشنیہ اور اس کے بانی پیر روشن کو خوب لتاڑا ہے۔ اخوند درویزہ اپنے خیالات میں بہت سخت تھے اور ان کے لیے پیر روشن کا نسبتاً ڈھیلا ڈھالا مسلک قابل قبول نہ تھا اور اسی لیے اخوند درویزہ نے پیر روشن بایزید انصاری کو ”کافرمطلق“ اور ” منکر دین برحق“ اور پیر روشن کی بجائے ”پیرتاریک“ کا نام دیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ اخوند درویزہ ہی تھے جنہوں نے مقامی یوسف زئی لشکروں اور مغل افواج کو پیر روشن اور ان کے مریدوں کے خاتمے پر اکسایا۔ پیر جلالہ بالآخر افغانستان چلا گیا جہاں بعض روایات کے مطابق ”جلال آباد“ کا شہر اس کے مریدوں نے آباد کیا تھا۔ 1600 کے آس پاس پیر جلالہ کی موت کے بعد روشنیہ فرقے کے کچھ لوگ وادی تیراہ، پکتیا، لوگر اور ننگر ہار وغیرہ میں آباد رہے جہاں بالآخر 1650 کے لگ بھگ شاہ جہاں کی افواج نے ان کا بالکل صفایا کردیا۔
موجودہ زمانے میں برکی قبیلے کے کچھ لوگ روشنیہ فرقے سے اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہیں ان میں کچھ لوگوں کی زبان اب بھی ار مڑی ہے جو بہت کم لوگ جانتے ہیں اور یہ زبان ناپید ہونے کا خطرے سے دوچار ہے۔
جس دوران میں یعنی سولہویں صدی عیسوی کے اواخر میں جب پیر روشن اپنی تعلیمات عام کررہے تھے تقریباً اسی وقت شہنشاہ اکبر خود نئے مذہبی تجربات کررہے تھے۔
اکبر کے والد ہمایوں سنی مسلمان تھے مگر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایران میں اپنی جلاوطنی کے دوران شیعہ اسلام قبول کرلیا تھا اوراب چالیس سالہ اکبر صلح کل پر مبنی ایک نئے تصور کی بنیاد رکھ رہے تھے اس وقت مغلیہ سلطنت افغانستان سے بنگال تک پھیلی ہوئی تھی۔
اکبر میں بہت تجسس تھا اوروہ علم کے متلاشی تھے۔ انہوں نے مختلف مذاہب کے نمائندوں کو اپنے دربار میں بلایا اور مذاکرے کرائے۔ اکبر کا خیال تھا کہ مختلف مذاہب کی مشترکہ باتیں لے کر ایک ”آئین رہ نمونی“ دیا جائے جسے بعد میں کچھ لوگوں نے ”دین الٰہی“ کہنا شروع کردیا۔
سولہویں صدی کے ہی برطانوی شاہ ہنری ہشتم کی طرح اکبر بھی مذہبی پیشواﺅں کے خلاف ہوگئے اور مذہبی افسر شاہی کی مخالفت کی۔ اکبر نے غیر مسلموں پر عائد محصول جزیہ ختم کیا اور تبدیلی مذاہب کی عام اجازت دے دی۔
اکبر کو ملاﺅں کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جن میں شیخ احمد سرہندی جنہیں بعد میں مجدد الف ثانی بھی کہا گیا پیش پیش تھے۔ اکبر کی تمام مذاہب کی تہواروں میں شرکت نے بھی راسخ العقیدہ مولویوں کو ناراض کیا پھر اکبر نے دیگر مذاہب کی مقدس کتابوں کے تراجم بھی کرائے اور انہیں پڑھوایا۔
بھگتی شاعروں اور سکھ مذہب کی جانب اکبر کے نرم رویے نے اکبر کو عوام میں مقبول کردیا تھا مگر نئے مذہبی تصورات جڑیں نہ پکڑ سکے۔ جو قارئین اس بارے میں مزید معلومات پڑھنا چاہیں وہ مکھن لال چودھری کی کتاب ”دین الٰہی“ کامطالعہ کرسکتے تھے۔
آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پندرہویں اور سولہویں میں یورپ اور ہندوستانی برصغیر نے خاص سرگرم مذہبی تبدیلیاں دیکھیں ان کے راستے مختلف تھے شایداس لیے یورپ کی پروٹسٹنٹ تحریک کے اثرات زیادہ دیرپا ہوئے جس کے پیچھے مخصوص سماجی و معاشی حالات تھے۔
ہندوستان میں شیخ احمد سرہندی اور اخوند درویزہ جیسے مذہبی رہ نماﺅں نے مذہبی اصلاحات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں مگر ان کے لیے ہمیں ایک اور سلسلہ مضامین کی ضرورت ہوگی جس میں دیکھا جائے کہ سرہندی جسے لوگوں کی بنیاد پرستی نے کیا گل کھلائے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*