کوہ سلیمان میں مست کے آثار حصہ دوم

,, مست بیٹلا یکبہئ ,,

مست کے آثار جو کوہ سلیمان کے طول و عرض میں بکھرے پڑے ہیں ان میں ایک جس کا آج ہم ذکر کرنے جارہے ہیں وہ ہے
,, مست بیٹلا یکبہئ ,,
اس نشانی کے ساتھ ساتھ یکبہئ کا تعارف اور جغرافیہ بتانا لازم ہے
یکبہئ یہ لفظ ایک مرکب اصطلاح ہے جو کوہ سلیمان کی ایک بلند چوٹئ اور ڈیرہ غازی خان میں کوہ سلیمان کے سلسلے کی سب سے بڑی چوٹی کا نام ہے .اس جگہ کی شہرت,, مست بیٹ یا بیٹلا,, کی وجہ سے ہے.
اس چوٹی کے نام کی نسبت جو معلومات ہیں وہ قارئین کے سامنے پیش کررہا ہوں.
,, یکا،، بلوچی میں ہروقت اور ,, بہی,, خطرہ کو کہتے ہیں.
یعنی وہ جگہ جہاں ہمہ وقت خطرہ ہو.
پرانے زمانے میں یہاں قریب کوئی آبادی نہ تھی اور یہ ایک دور افتادہ جنگل تھا اس چوٹی پہ شاذ و نادر کوئی آتا جاتا تھا. مگر مست توکلی نے یہاں ایک چاردیواری بنا کر تقریباً دو ماہ یا چالیس دن قیام کیا. اس چاردیواری کواس وقت سے لیکر آج تک
,, مست بیٹلا,,(مست والی چاردیواری) کہا جاتا ہے اس کے بعد لوگوں کا خوف کچھ کم ہوا اور پھر کچھ آمد و رفت شروع ہوئی مگر خطرہ جوں کا تو‍ رہا لیکن اب کوئ خطرہ نہیں کچھ آبادیاں قریب ہیں.
اس چوٹی پہ ہر سال برف پڑتی ہے اور یہاں کا موسم گرمیوں میں بھی خاصا سرد رہتا ہے. یہاں بڈنڑ کے درخت کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں.اس کے شمال میں
,, مبارکی ٹوپ,, (مبارکی چوٹی) ہے اس کے جنوب میں بیسر اور فورٹ منرو دو چوٹیاں ہیں مشرق میں رونگھن مغرب میں تھوخ خانانی ہے.
حالیہ سالوں میں جب اس پہاڑی چراگاہ کی تقسیم ہورہی تھی تو بلوچ شاعروں نے مطالبہ کیا کہ اس چوٹی کی سب سے بلند جگہ جہاں یہ چار دیواری یعنی مست بیٹ یا مست بیٹلہ واقع ہے اسکو الگ کرکے بلوچ شاعروں کی ملکیت میں دیا جائے تو اس طرح اس چوٹی پہ تقریباً 4 یا 5 کنال رقبہ علیحدہ کر کے کوہ سلیمان کے بلوچ شعراء کو دیا گیا. اور وہ اب بلوچ شعراء کی ملکیت ہے. فورٹ منرو سے یکبہئ تک بلیک ٹاپ روڈ کی منظوری ہوچکی ہے اور اس پہ کام جاری ہے. بس صرف ایک جگہ کٹائی باقی ہے تب مکمل ہوگا.
یہاں بڈنڑ کے درختوں کا جنگل ہے جب ان پہ دھوپ پڑتی ہے تو انکی چمک دیدنی ہوتی ہے اس جنگل مین ایک جگہ درختوں سے انگریزی حرف Z لکھا ہوا ہے. جس کو آج سے کئ سال پہلے میں نے بطور پروفائل پکچر استعمال کیا تھا. اسے بلوچوں کے ہاں ایک خاص اہمیت حاصل ہے مست سے پہلے اس چوٹی کو دیکھنے کے لیے جام درک بھی آیا تھا جام کی شاعری میں اسکا تذکرہ تفصیل سے موجود ہے اگر میں یہ کہوں کہ بلوچ شعراء کے لئے یہ سب سے محبوب جگہ ہے تو شاید کسی کو اعتراض نہ ہوگا.
ایک بلند چوٹی اور پھر مست کا مسکن جہاں سے سخی سرور کا دربار اور دریائے سندھ مشرق کی طرف دکھائی دیتے ہیں. ان دونوں سے مست کو محبت تھی. مغرب میں ضلع موسی خیل کوہلو بارکھان نظر آتے ہیں. جنوب مغرب میں جہاں جاکر حد نگاہ ختم ہوتی ہے اور پھر چشم تصور شروع ہوتا ہے شاید وہاں سے سمی کا مسکن بھی نظر آئے. شمال میں چوٹی بیہو بھی نظر آتی جس کو کاھان کے بعد مست کا گھر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا یکبہی سے مست کو بیک وقت کاھان اور بیہو کا نظارہ دیکھنے کو ملتا تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ مست سمو اپنے بھائی پیرک اور بیہو کے بعد سب سے زیادہ اسی چوٹی سے محبت کرتا تھا.
اسی نسبت سے ہر بلوچ ادیب شاعر اور محقق کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ہوسکے میں مست بیٹلا اور یکبہئ کی زیارت ضرور کر لے یہاں طلوح آفتاب غروب آفتاب اور نصف النہار کا منظر کافی عجیب ہوتا ہے طلوع آفتاب کے وقت ہر طرف پرندوں کی آوازیں مختلف اطراف سے اپنی ریوڑوں کو ساتھ لیے چرواہوں کی , اَرّرِھ,, کی آوازیں اور باریک پتھروں کو اپنے کلہاڑیوں پہ مار مار کر اس سے ایک خاص میوزک پیدا کرکے اپنی بھیڑوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اب تم چراگاہ میں پہنچ چکی ہو پھیل جاؤ.
آپ وہاں جائیں آپ کو بھیڑوں کے چلنے کی وجہ سے اتنی لیکریں ملیں گی جن کی گنتی آپ کے لیے مشکل ہوگی. پھر نصف النہار کو جب بڈنڑ کے درختوں پہ سورج کی دھوپ پڑتی ہے اور انکو مختلف سمتوں سے ہوا چھیڑتی ہے تو انکے پتوں سے نقرئی لہریں پیدا ہوتی ہے جو قابل دید ہیں. پھر شام کو غروب آفتاب کا منظر یہ پیغام دیتا ہے کہ میاں ہم گھر کو چلے تم بھی لوٹ جاؤ. اس منظر کو دیکھنا کسی دل گردے والے انسان کا کام ہے ورنہ اس وقت کلیجہ منہ کو آتا ہے. مست نے یہاں چالیس راتیں گذار کر شاید یہی پیغام دیا کہ اگر تم کسی بے گھر کی اور بے سہارا کی کیفیت اور غم کو محسوس کرنا چاہے ہو تو ایک رات یکبہئ کی چوٹی پہ گذارو اگر رات نہیں تو غروب آفتاب کے منظر کو لازمی دیکھ کر جانا. پھر تمہیں احساس ہوگا کہ کسی کے بچھڑنے کے بعد رہ جانے والے کی زندگی کتنی تاریک ہوتی ہے. زندگی میں جب بھی وقت ملے یکبہئ ضرور آئیں مگر غروب آفتاب تک لازمی رہیں تاکہ آپ جب روشنی سے بچھڑیں تو آپکو مست کے جذبات کا احساس کچھ تو ہوسکے.
بقول مست.
,, زارہاں مئی آں تھہ رسے برانی مریذ,,
,, ما پھہ سمو ئا چھو تھہ پہ ھانی ءَ زہیر,,
ترجمہ میرے غم کو اے شیہہ مرید توہی سمجھ سکتا ہے جسے تم ہانی کے لیے بے قرار تھے سمی کے ہجر میں میری حالت بھی اسی طرح ہے.

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*