بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جس کے حکمران اپنے عوام کو سوائے جھوٹی تسلی اور سبز باغ کے دیکھنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں دے رہے ہیں. پچھلے کئی دہائیوں سے حکمرانوں نے اپنی نااہلی اور کمزوری کا ذمہ دار کبھی وفاق کو یا کبھی قبائلی سرداروں کو ٹھہرایا ہے تاکہ اپنی نااہلی کو چھپا یا جاسکے .
بلوچستان میں جتنی بھی حکومتں آئیں ہیں ان کا ہمیشہ سے دعویٰ رہا ہے کہ انھوں نے یہاں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا ہے. مثلا تعلیمی اداروں کے لئے رنگ ورغن کے اخراجات, ایسے سکول،کالجزکو اب گریڈ کرنا جہاں پہلے سے ہئ اساتذہ اورپروفیسرز کی کمی ہو.یا اپنے من پسند دو چار لوگوں کو لیویز،پولیس،چوکیدار،مالی بھرتی کرنا اور باربار ایک ہی سڑک ٹینڈز کروانا وغیرہ جن کو وہ ترقیاتی کام کہتے رہتے ہیں.
لیکن ان بلند وبالا نعروں ،وعدوں کے باوجود عوام ایک خوشحال زندگی کے بجائے کسمپرسی کی زندگی گزررہے ہیں. ان اداروں میں جیتے بھی کام ہو ئے ہیں ان کاموں سے ایک مخصوص طبقے کے افراد کو فائدہ ملا ہے.
ہم ان دعووں کا بخور جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ بلوچستان میں حکمرانوں نے جو ترقی کا تصور پیش کیا ہے وہ ایک مت کہانی ہے جس کا زمینی حقائق سے کو ئی واسطہ نہیں
پاکستان لیونگ اسٹینڈرڈ کئ 2018/19 کے رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں شراخواندگی 2013/14 کے نسبت واضح طور پر کم ہوئی ہے رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں 2013/14 کے نسبت 2018/19 میں زیادہ تر بچے سکولوں سے باہر ہیں اور الف اعلان کے مطابق بلوچستان میں ہر 77 مربع کلومیٹر پر صرف ایک گرلز ہائی اسکول ہے.
بلوچستان کے پسماندگی کے حوالے سے ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں میں نے چالیس سال تحقیق کیا.ِاس دوران میں نے پورے پاکستان میں کام کیا لیکن بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جہاں مجھے دوسرے صوبوں کئ نسبت بھوک و افلاس زیادہ نظر آیا.
بلوچستان میں ذرائع پیداوار کی کوئی کمی نہیں بلکہ بلوچستان پاکستان کی معشیت میں اہم رول اداکررہا ہے. قیام پاکستان سے لیکر اب تک ملک کے 73 فیصد توانائی کی ضرورت سوئی گیس سے پوری ہو رہی ہے. ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق سوئی گیس کے ذریعے بلوچستان نے 1955 سے 2014 تک 7.69 ٹریلین سبسڈی دی ہے . صدیق بلوچ اپنے کتاب Balochistan it’s Politics Economics اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں بلوچستان میں اکثر حکمرانوں نے ایسے معاشی پلاننگ کی جس سے صرف حکمران طبقے نے فاہدہ اٹھایاصدیق بلوچ مزید لکھتے ہیں حکومت بلوچستان نے کوئی ایسا منصوبہ اب تک بنا ہی نہیں جس سے ریونیو اور روزگار پیدا ہوں.
علم معشیت میں ترقی کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ آپ کے دور حکومت میں کتنے اخراجات ہو ئےبلکہ ان اخراجات سے لوگوں کی زندگیوں میں کیا فرق آیا مثلااعلیٰ تعلیم کی رسائی ،بنیادی سہولیات کئ فراہمی اور آمدنی میں اضافہ پر کتنی بہتری آئی تب ہی ہم یہ کہہ سکتے گے کہ واقعی میں ترقی ہوئی ہے .