(یہ غزل ہیمنگوئے کے مشہور ناول دی اولڈ مین اینڈ دی سی‘ سے متاثر ہو کر لکھی ہے)۔
ارنسٹ ہیمنگوئے کے لیے
دکھ سکھ دونوں جھیل چکے تھے ، بوڑھا اور سمندر
ساحل پہ اکثر ملتے تھے ، بوڑھا اور سمندر
وقت کی کھڑکی میں بیٹھی تھیں حیرانی کی جل پریاں
دو شہزادے ساتھ کھڑے تھے ، بوڑھا اور سمندر
ماتھے پر لہریں تھیں جیسے اور لکیریں پانی میں
دو ملتے جلتے چہرے تھے ، بوڑھا اور سمندر
سدا بہار جوانی جانے کب لہروں سے نکلے گی
سب حیرت سے سوچ رہے تھے ، بوڑھا اور سمندر !
سورج اور سیاروں نے جب پہلی پہلی ہجرت کی
اک دوجے میں ڈوب چکے تھے ، بوڑھا اور سمندر
صبح سویرے دونوں مل کر اپنے آنسو پیتے تھے
رات کے سارے دکھ سانجھے تھے ، بوڑھا اور سمندر
صدیوں کی رفتار کو اک لمحے کی تھکن نے زیر کیا
وقت سے ٹھوکر کھا کے گرے تھے ، بوڑھا اور سمندر
شام کو جب طوفاں تھما تو دیکھا بستی والوں نے
ریت پہ دونوں مرے پڑے تھے ، بوڑھا اور سمندر