ماہنامہ سنگت کا ایڈیٹوریل

ون یونٹ کی طرف

بلوچستان سے لے کر مغربی صنعتی دنیا تک آٹھ ماہ سے کووِڈ19کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ یہ وبا”سنگت اکیڈمی “سے بھی ایک البیلا میٹھا نوجوان کھا گئی۔اور اس بیماری سے زدو کوب توہمارے کئی سنگت ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں سینکڑوں انسان (سیاسی کارکن، ڈاکٹر، ٹیچر، محنت کش اور دیگر اہم شعبوں سے وابستہ لوگ )مٹی کے سپرد ہوچکے ہیں۔ دیگر صوبوں میں تو حالت اور بھی خراب رہی ہے ۔حکومتوں نے جتنا چاہا چھپا لیا مگر سب جاننے والوں نے جان لیا کہ ہزاروں قریبی دوستوں کے قریبی لوگ بچھڑچکے ہیں۔ہمارے ہاں ہزاروں انسان مرکر دوسرے کروڑوں انسانوں کو ”ہرڈ امیونٹی“ دے چکے ہیں۔ مغربی دنیا تو تباہی کا ، اجل کا اصل گڑھ رہی ہے ۔ اب تک سات لاکھ گونڈل وکار آمد اشرف المخلوقاتی ممبر اِس بلا کا شکار ہوچکے ہیں۔
گوکہ چند ادویات ساز کمپنیاں، انٹرنیٹ کے کچھ کھرب پتی ،اور کورونا کے علاج سے لے کر کفن دفن تک سے متعلق کمپنیوں کی تجوریاں لبریز ہوگئیں۔ مگر مجموعی طور پرعالمِ انسانیت المناک ترین خسارے میں رہی۔ معیشتیں زمیں بوس ہوچکیں، روٹی روزگار فرار ہو رہی ہیں اور مہنگائی انسان کو مفلوج کیے جارہی ہے ۔مخلوقاتِ عالم میں صرف نوعِ انساں اس موت آور وبا کا واحد ٹارگٹ ہے ۔ انسان میں بھی سب سے کار آمد حصے نشانے پہ ہیں۔۔۔ اور، ابھی گرانی ِ شب میں کمی نہیں آئی ۔
یہ بدترین فضا شاید اگلے دو تین برس تک جاری رہے ۔ اس لیے ممالک اپنے اپنے معاشی سماجی اور سیاسی بندوبست کر نے میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا معاشی ، سماجی اور سیاسی بجٹ توخیر منفی میں ہے اور اس کے بہتر ہونے کا ایک فیصد بھی چانس نہیں ہے ۔ ہمارے مربی عرب شیخ و شاہ جو کہ اب دھرتی پہ بوجھ بنے بے دولت لاشیں ہیں ، ہماری امداد اب نہیں کرپائیں گے ۔وہاں سے ہمارے ہزاروں مزدوروں کو واپس بھیجا جارہا ہے۔
امریکہ بھی چونکہ ہر جگہ سے اپنی فوجیں واپس لے جارہا ہے اس لیے اب اُسے بھی اتحادیوں کی فوجوں کی ضرورت نہ رہے گی۔
تیسری دنیا کے ممالک کے ان بے روزگارمزدوروں اور فوجوں کی اپنےاپنے ملکوں کو واپسی پہلے سے موجود معاشی سماجی بحران کو مزید گھمبیر بنادے گی ۔
امریکہ ،یورپ اور لاطینی ممالک میں بربریت اور نسل پرستی کی طرفداری کرنے والے لوگوں کے مجسمے گرائے جانے کا سلسلہ جاری ہے ۔جلسے جلوس دوماہ سے جاری وساری ہیں ۔ اور مجسمے گرانے کا یہ کام اب مظاہرین کے ساتھ ساتھ حکومتیں اور پارلیمنٹیں خود بھی کر رہی ہیں۔
امریکہ دنیا میں سب سے بڑے بدمعاش کے اپنے مقام سے دستبردار ہورہاہے اور سعودی عرب ہمارے خطے کی وڈیرہ گیری ترک کر رہا ہے ۔دونوں کی جاں نشینی کی کوششیں ہوں گی ۔ امریکہ کی جانشینی کے لیے مزید سائنسی ہونا پڑے گا اور سعودی جانشینی کے لیے مزید بنیاد پرست ۔ امریکی جانشینی شاید ایک ملک نہیں بلکہ پوری یورپی یونین کر سکے گی ۔ اور یہاں سعودی رسالداری کو سنبھالنے ترکی ہاتھ پاﺅں مارے گا۔
ایران کے گلے کو امریکہ کے کرخت انگوٹھے کی درشت گرفت سے چین نے عارضی نجات دلادی ہے ۔ سی پیک ، اور، ون روڈ ون بیلٹ کا لمبا چینی پھندا ایران کی بھی گردن کے گرد لپٹ چکا ہے۔چاہ بہار کی قسمت گوادر کے مقدر سے بندھ جائے گی۔(دونوں بلوچ بندرگاہیں ہیں)۔ بھارت اور امریکہ باہر، اور چین نے جگہ پالی۔اور ، ایران پہ اثر بڑھانے کے لیے وہ ہم پہ اپنی گرفت مزید سخت کرتا جائے گا۔اور یہ سب کچھ ایسے زمانے میں ہورہا ہے جب امریکہ افغانستان سے نکلنے کی کر رہا ہے ۔
مانا کہ کپٹلزم زندہ رہنے کی زبردست صلاحیتوں کا مالک ہے ۔ وہ بد ترین حالات کو بھی جھیل لیتا ہے ۔ آج بھی وہ اسی صلاحیت سے کام لینا چاہے گا۔ اور وہ کوشِشیں ہمیں ابھی سے نظر بھی آرہی ہیں۔ کپٹلزم امریکی الیکشنوں میں ٹرمپ کو ہروا دے گا۔ عدم اعتماد کی تحریکیں کامیاب کروائی جائیں گی، اور ”قابل ِ قبول “ چہرے تخت پہ بٹھائے جائیں گے ۔اسی طرح کی پیوندکاریاں سارے ممالک میں کی جائیں گی ۔ لیکن اس بار بحران اس قدر ہمہ گیر اور گہرا ہے کہ ٹرمپ اور ٹرمپ نماﺅں کی نمائشی تبدیلی سے ٹل نہ سکے گا۔اس بار عالمی بحران طول کھینچے گا اور عوامی غصے کی لہریں موج در موج مسلط کرتا رہے گا۔
پھر آئی ایم ایف کے قرضے ہیں۔ یہ قرضے عرصے سے ہمارابھٹہ مکمل طور پر بٹھا چکے ہیں۔ ہم میں ان کی بھاری سود تک کی ادائیگی کی سکت موجود نہیں ہے ۔ مگر یکسر انکار کی نہ جرات ہے نہ قوت ۔ اس لیے فیصلہ آئی ایم ایف ہی نے کرنا ہے ۔چونکہ اُس نے عالمی کپٹلزم کو برقرار رکھناہے اس لیے وہ اِن قرض قسطوں اور سود کی ادائیگی کو ملتوی کردے گا، کرتا رہے گا۔
ہماری معیشت پہلے تباہ تھی ۔اوپر سے موجودہ حکومت اور وائرس نے مل کر سب کچھ بلڈوز کردیا۔ کسان کی کمر پہ آخری وار لوکسٹ (مکڑ) کی پڑی۔ مینوفیکچرنگ تو کبھی کی ونٹلی لیٹر میں پڑی ہے ۔ ہمارے ہاں کا محتاج کپٹلسٹ تو سرکار کی رعایتوں ہی کو چوسنے اور مزید چوسنے کے لیے زندہ ہے ۔ سروس سیکڑ کو ماتمی ساز بجانے پہ لگادیا گیاہے۔ جگہ جگہ مزدور اور ملازم برطرف کیے جارہے ہیں۔ اُن کی اجرتوں میں کمی کی جارہی ہے۔ آٹا چینی اور پٹرول بجلی گراں قیمت پہ بھی نایاب ہیں۔
پھر ہمارے ملٹر ائزڈ سماج کو مصروف رکھنے کے لیے سمت اور مقام بھی نہیں مل رہا ہے ۔ کہاں جایاجائے ، پرچم لہرانے؟۔ خالی خولی بنیاد پرست نعرے تو اس ملی ٹنسی کو سمو نہیں سکتے۔ کوئی نیا میدان چاہیے کوئی نیا محاذ چاہیے ۔ اور ہمہ وقت چاہیے۔
صوبوں اور قومیتوں کی بے اطمینانی حسبِ معمول جاری ہے ۔ عالمی بحران کے سارے اثرات کا گُھٹنا بالآخر انہی جارج فلائیڈوں ( قومیتوں) کی گردن پہ رکھا جائے گا۔ اٹھارویں ترمیم کی آنتیں نکالنے کی کوشش ہوگی ، فنانس کمیشن کا سر پھوڑ دیا جائے گا ،اور ون یونٹ کا کوہِ بلند ایستادہ کرنے کو اہم ترین کام گردانا جائے گا۔
دوسری طرف خلقت ہے جو دھیمے مگر فیصلہ کن انداز میں کہہ رہی ہے : ”ناممکن“۔

Although some websites do provide comparable services, several websites don’t offer this, and they constantly will need to https://www.affordable-papers.net/ request an upfront fee prior to supplying them with the papers.

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*