کرونا یونہی نہیں آیا ،شاید اسے گذ شتہ وباﺅں کی طرح نسل نو کو آزمانا ہے سر زد شدہ غلطیوں ،کو تائیوںاور نا سمجھیوں کا احساس دلانا ہے زند گی کو بہتر انداز میں گزارنے کے گرُ بتاناہے طبقا تی نفرتوںمیں پڑے انسانی گھتیوں کو سلجھا نا ہے ۔گلوبل یک رنگی او ر مو ت کی عفریت سے باخبر رکھنا ہے یا پھر لمحوں میں زند گی کے فنا ہو نے ،مزید جرت کے ساتھ زند گی کی بہاروں سے متعلق سبق پڑ ھانا ہے ،جس کا مطلب دوسروں کو سمجھنا خود کو سمجھانا ہے ۔جدید ٹیکنا لوجی سے محروم قوموں کو تر قی کی راہ پر ڈالنا ہے کسی مفید نظام کی پیروی کے لئے انسانوں کو اکسانا ہے لگتا ہے وہ اکیسویں صدی کے انسانوںسے لینے کم زیا دہ دینے کی نیت سے آیا ہو ہ رملک کے عوام نے اسے اپنی بساط کے مطابق دیکھا ،پرکھا اورر اس سے نبردآزما ہو اکہیں پسپائی ،تو کہیں فاتحیں جشن منا رہے ہیں جو اس میں محض سازش تلا ش کر تے رہے وہ زیا دہ نقصان میں رہے جن کے ظاہری زخم ہیں وہ جلد ہی مند مل ہو ں گے خواب خر گوش میں رہنے والوں کے زخم آنے والے دنوں میںنا سور کی شکل اختیار کاا ندیشہ لئے ہو ئے ہیں جو سبب نہیں قا تل او رمقتول کا قضیہ لے کر بیٹھے ہیں زندگی اور وقت ریت کی طرح انکی مٹھیوں سے نکلنے کو ہے ۔بہر حال کرونا بے وقو فوں کے لئے خوف اور عقلمندوں کےلئے چیلنج بن کر آیا ہے اس دوران بعض قوموں کی انسان دشمن ترقی ،بالا دستی ،غرور اور تکبر کی قلعی بھی کھل کر سامنے آگئی وہ جو کہتے پھرتے تھے پدرم سلطان بود ،انکی سلطانی ہوا ہو چکی ہے جنھیں اپنی فوج ظفر موج اور طاقت کا گمنڈ تھا انکی حالت دیدینی ہے جنہوں نے فطرت اور فطرتی عنا صر سے چھیٹر چھا ڑ نہیں کی وہ بے خوف رہے اور محفوظ بھی ،فطرت کے باغیوں پر کرونا لو ٹوں اور نو ٹوں میں چھپ کر وار کر تارہا مکار ،جھو ٹے اورانسانیت کے دشمنوں کے سامنے ان کے کر توں کی فلم چلتی رہی ۔بعض ممالک کے معصوم انسان اپنے نادان دوستوں کی وجہ سے کر ونا کا شکا ر ہو تے رہے البتہ کر ونا نے ہٹ دھرموں کو خوب سبق سکھا یا ،جا ئلوں کی اچھی خاصی کلاس لی جو اسے ڈرامہ سمجھتے رہے وہی بکھرتے ،الجھتے ،تڑ پتے اور مر تے رہے ۔یا اپنوں کےلئے مصیبت کا سامان فراہم کر تے رہے اس دوران مثبت روایات بھی یا د آتے رہے ،اخلا قی اقدار کی تر بیت پر بھی زو ردیا جاتا رہا بہر حال کرونا نے بتایا بہتر نظام زند گی وضع کرنے والوں کا ساتھ دیا جا ئے جو رو گردانی کر تے ہیں وقتی چمک کا ساتھ دیتے ہیں بلائیں انہی کا بگاڑتی ہیں بالکل جس طرح بد نیتوں کی سازشیںانہی کےلئے ہلا کت کا باعث بنتی ہیںکورونا کے دوران جن کا احساس وضمیرجاگے وہی زند گی کی خو بصورتی او ربد صورتی کا معاملہ سلجھاتے رہے شا ید وہی بہتر زند گی اور نئی مثبت تاریخ رقم کرسکیں یا جن کی زند گی بہتر ہے انکی تاریخ مزیدشا ندارہوکر ونا کے دوران زند گی شنا س تر قی پسند انسان دوست رہنما بار بار یاد آتے رہے بہت سے لو گوں سے یہ شعر بھی سنا گیا ۔
وقت کر تا ہے پر ورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہو تا
میں نے اپنے اردگرد جو حالت دیکھی تو مجھے عطاشاد کا شعر یا د آیا
سیلاب کو نہ روکیے رستہ بناےے
کس نے کہا تھا گھر لب دریا بنا ےے
ہمارے ساتھ کر ونا نے کیا کیا اور ہم نے کر ونا کا کیا بگا ڑا ،یقینا کرونا یہاں آکر پچھتایا ہو گا کیونکہ اس کی موجو دگی میں ہماری بچگانہ سیا ست چلتی رہی زمینوں کی ملکیت پر قتل ہو تے رہے ڈاک کا نظام درہم بر ہم رہا مگر ڈاکو دندھاتے رہے ،سنیٹا ئزر،ماسک اوردواﺅں کی قیمتوں میں سو گنا اضافہ ہوا ،میڈیکل اسٹور پر ،اسٹو رمالک اور صارفین کو کہتے سنا گیا یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے اس قسم کی گفتگو ہم زلزلہ ،سیلاب ،خشک سالی اور سیلا ب کے مو قعوں پر سنتے آرہے ہیں بے شمار آفتوں کے باوجود ہمارے اعمال درست نہیں ہو سکے خیر کرونا کی امدادی سر گرمیوں میں شامل افراد کی لوٹ ماربھی عر وج پر رہی ۔آئی ایم ایف اور دیگر قر ضہ جات وجیب خرچ کے لئے کرو نا کو بڑھاوا دینے کے الزامات بھی لگتے رہے بلو چستان میں بجلی اور انٹر نیٹ کی سہولت نہ ہونے کے باوجود آن لائن تعلیم کا سلسلہ بھی چلتارہا کر ونا کا اپنا اختیار چھین کر اس کے آنے اور جانے کے اوقات بھی مقرر ہو ئے ابھی کر ونا نے اتنے نہیں مارے تھے کہ جہاز کر یش ہوا سو کے قریب مارے گئے ٹرین حا دثہ بھی بالکل اسی دوران ہوا سڑک حادثات بھی ہو تے رہے کرونا جس کے پاس گیا وہ مرنے کےلئے پہلے ہی سے تیار بیٹھا تھا ،کو ئی کینسر کا غم لے کر بیٹھا تھا کو ئی ڈائلا سز مشین پر انتظار کر رہا تھا کو ئی شوگر اور کو ئی بلڈپر یشر کا تصد یقی سر ٹیفیکٹ لئے بیٹھا تھا کرونا کو وہ بھی ملے جو سلطان راہی کی فلم مولا جٹ کا ڈائیلا گ دہرا رہے تھے جنے مولا نے نہیں ماراکرونا کی مارے گا کرونا کو اپنے ظرف پر اس وقت شک ہوا جب اسے کسی کا آلہ کا ر کہاگیا کہ یہ تو مسلمانوں کے خلاف صیونی سازش ہے کر ونا کو اس وقت حیرت ہو ئی جب ملک بھر میں ٹڈی دل آوارہ کتوں کی طرح اپنی خوراک کےلئے ایک شہر سے دوسرے شہر میں آزادی کے ساتھ داخل ہو رہے تھے پھر تو کرونا نے کہا ہو گا جو اپنی خوراک اپنے اور اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کر سکتے ان کےلئے زند گی چی معنی دارد۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے