ساتواں نمبر

لکڑیاں آگ میں دہک رہی تھیں ۔شعلے اوپر تک اٹھ رہے تھے۔گلدستہ کے گال، آگ کی تپش سے انگارہ ہو رہے تھے۔
جانے وہ وہ کب سے رو رہی تھی۔ اور اماں صغراں اسے گاہے بگاہے ٹھیک ہونے کی تسلی دے رہی تھی۔ کچھ تو وہ پورے دن سے تھی کہ درد کی ٹیسیں اس کی جان کو آ جاتی تھیں اور کچھ یہ کہ اس کی روح، اس کے جسم، اس کے ذہن سے آج تلخ یادوں کے ٹکڑے صبح سے ہی چپک گئے تھے۔ اس نے اپنے ذہن، اپنے پورے وجود کو نوچ نوچ کر لہولہان کر دیا اور یادوں کو پکڑ پکڑ کر وہ بڑی نفرت سے دور پھینکتی رہی ،مگر یادیں تھیں کہ جواب میں بڑے زور سے کسی ربڑ کے گیند کی طرح اس کی روح سے آلگتیں کہ اس کے منہ سے بے ساختہ آہ نکل جاتی۔
گندم کی کٹائی شروع ہو چکی تھی ۔ گاؤں کے تمام مرد اور عورتیں کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔عورتیں کام کرتے کرتے درانتی ہاتھ میں پکڑے باتوں میں مصروف ہو جاتیں اور دل ہلکا کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر سے کام شروع کر دیتیں۔ پورے کھیت میں کچھ کچھ فاصلے پرگندم کی ڈھیریاں رکھی ہوئی تھیں ۔ گلدستہ کی اماں کاملہ خالہ سے باتوں میں مصروف تھی۔ گلدستہ اور امینہ اپنی ماؤں کے لیے کھانا لا کراب تالاب میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔
’’ نازو کل شام کیا پھر حیات خان سے لڑائی ہوئی تھی، بڑا شور آرہا تھا تیرے گھر سے؟‘‘کاملہ خالہ نے پوچھا۔
نازو کے تیزی سے چلتے ہاتھ ایک دم رک گئے لیکن وہ خاموش رہی۔ خالہ کے دوبارہ پوچھنے پراس نے پلکیں اٹھائیں اور کاملہ خالہ کے چہرے کو تکنے لگی ،’’ خالہ کوئی نئی بات تو نہیں۔۔۔ پچھلے اٹھارہ سال سے یہی کچھ تو ہو رہا ہے‘‘ کہتے ہوئے وہ پھر سے کٹائی میں مصروف ہو گئی۔
’’ حیات خان کو خدا کا خوف نہیں ۔ سارا دن جانوروں کی طرح کام کرتے رہو اور پھر یہ مار پیٹ الگ‘‘خالہ کاملہ آہیں بھرنے لگی۔
’ ’ارے کچھ سنا تم لوگوں نے، سنا ہے ساتھ والے گاؤں میں جو قتل ہوا تھا اس میں دو معصوم لڑکیاں خون بہا میں گئیں‘‘۔ زبیدہ خاتون ہانپتی کانپتی آتے ہوئے بولی۔
یہ سن کر نازو پیلی پڑ گئی ۔ اس سے پھر کوئی کام نہیں ہوا گیا ۔ اس کی زبان گُنگ ہو گئی اور درد اس کے دماغ اور دل میں لہریں لینے لگا۔
’ ’ خالہ ساری عورتوں کا نصیب ایک جیسا ہوتا ہے کیا؟‘‘آنکھوں میں آنسو لیے پوچھنے لگی۔
’’ ہاں ہم غریب عورتوں کے نصیب ایک جیسے ہوتے ہیں، بیٹی!!۔‘‘
سورج ڈھل رہا تھااور اس کی پیلی روشنی کائنات کی ہر شئے میں گھل گئی تھی۔ نازو خاموشی سے اٹھی، برتن سنبھالے اور گلدستہ کو آواز دے کر تالاب سے منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھپاکے مارے۔ پانی پیا اور گھر کی طرف چل دی۔
اس نے کروٹ لی۔ آنسو اس کے گالوں پر قطار بنا کر اس کی چادر میں جذب ہوتے رہے۔ اسے یاد تھا کہ اس واقعہ کے کتنے دن بعد تک اماں بخار میں تپتی رہی تھی۔ گلدستہ نے بچپن سے دیکھا تھاکہ اماں اور بابا کی لڑائیاں ہوتی تھیں۔ بابا اس سے تو بہت پیار کرتا تھا لیکن اماں سے اس کا سلوک جانوروں سے بد تر تھا۔ وہ حیران ہوتی تھی کہ بابا ایسا کیوں کرتا ہے۔ اس نے ساری عمر اماں کو ایک انجانے خوف میں محصور دیکھا۔ شاید ہی اسے کبھی اماں کھل کر ہنستی ہوئی نظر آئی ہو۔
وقت گزرتا گیا ، گلدستہ بڑی ہوتی گئی اور پھر ایک دن اسے پتہ چلا ایسا کیوں ہے۔۔۔ اماں نے اسے بتایا کہ اس کے ماموں نے کسی معمولی سی بات پر گلدستہ کے چچا کو قتل کر دیا تھا، جس کے بعد جرگے کے فیصلے کے مطابق وہ خون بہا میں حیات خان سے بیاہی گئی تھی۔
درد کی ایک لہر اٹھی اور گلدستہ کے منہ سے ایک سسکی نکلی۔
موتیوں اور سکوں سے بھری کوچیوں کی طرح لمبی فراک پہنے ہوئے جب چادر کے کناروں پر لگے سکے گلدستہ کے ماتھے پر رقص کرتے تو چاند کا ایک ٹکڑا ہی تو لگا کرتی۔ اس کی آنکھیں مستقبل کے خواب لیے چمکا کرتیں اور جب وہ بکری کے چوکڑیاں بھرتے بچوں کے پیچھے اِدھر اُدھر بھاگتی رہتی اور، چوڑیوں اور پائل کی جھنکار اور شڑنگ وادی میں گونجتی تو یوں لگتا کہ ساری فضا، ساری ہوا اس کے حسن کو خراج دیتے ہوے رقص کر رہی ہے۔
اس کی ہنسی کے فوارے جب چھوٹتے تو ایسے میں ماں خوف سے پیلی پڑ جاتی اور اپنے اندر کے خوف کولیے وہ چیخ اٹھتی، ’’ وئی گلدستے آرام سے بیٹھو۔۔۔ لڑکیوں کا اتنا ہنسنا اچھا نہیں ہوتا، ابھی تمہارا باپ آگیا تو غصے ہوگا‘‘۔
’’ اماں ہم نے ابھی کیا کِیا ہے ہم تو اپنا گلالئی کے ساتھ کھیل رہا ہے اور بابا تو ہم سے بہت پیار کرتا ہے‘ ‘۔۔۔یہ کہتے ہوئے وہ ایک دفعہ پھر گلالئی کے پیچھے بھاگی کہ بابا کی آواز آئی،’ ’ خیال سے گلدستے گر نہ جانا‘‘۔ اور گلدستہ ہنستی ہوئی چلی گئی۔
تمام فکروں سے آزاد، غموں سے دور اور بے نیاز گلدستہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ زندگی کے مزے لے رہی تھی۔ اس وقت بھی وہ گل مینہ اورسلیمہ کے ساتھ پہاڑ سے اتر کر نیچے کنویں سے پانی بھرنے آئی تھی۔ کافی دیر تک وہ کنویں سے پانی نکال نکال کر اپنے مہندی لگے پاؤں پر ڈالتی اور پھر کھل کھلا کر ہنس پڑتی ۔ جانے کیا ایک دوسرے کے کان میں کہتیں کہ قہقہے فضا میں بلند ہو جاتے۔ لڑکیوں کے چیخنے اور ہنسنے کی آوازیں وادی میں دور تک گونجتی رہیں کہ اچانک فائرنگ کی آواز ایک گونج بن کر پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آنے لگی۔ لڑکیوں کی آوازیں تھم گئیں۔ فضا میں ایک خوف و ہراس نے جنم لیا۔ اک خاموشی نے چارسو ہر شئے کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔
اور پھر پتہ چلا کہ گلدستہ کے بھائی موسیٰ جان نے دوسرے قبیلے کے ایک نوجوان کو قتل کر دیا، جس کے جانور ان کی کھڑی فصلوں میںآ گئے تھے ۔ بہت سارے دن ایک خوف میں گزر گئے اور بالآخر جرگہ بیٹھا ، جس میں گاؤں کے ملک ، سردار اور سارے نام نہاد بڑے جمع تھے، دونوں خاندانوں میں تصفیہ کرانے کے لیے ۔ کھانے اور چائے کے دور چلتے رہے اور تین دن تک جرگہ بغیر کسی فیصلے کے اٹھتا رہا ۔ سارے خاندان بلکہ سارے گاؤں پر ہی ایک عجیب سا سکوت طاری تھا اور سب کے کان جرگے کے فیصلے کی طرف لگے ہوئے تھے ۔
گلدستہ بھی کسی انہونی کے خوف سے بے کل تھی اور کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرز رہی تھی ۔ ہر آہٹ پر کسی منحوس خبر سے دل ڈول جاتے ۔ اور بالآخر تیسرے دن کی شام کو رسم و رواج کے قیدیوں کے فیصلے کے مطابق سات لڑکیاں قاتل خاندان مقتول خاندان کو بطورِ خون بہا د ے گا اور اس خاندان کو گاؤں بھی چھوڑ دینا ہوگا۔ چھ اس کی چچا زاد اور ساتواں نمبر گلدستہ کا تھا۔ سات لڑکیاں اس قاتل رسم کی بھینٹ چڑھ گئیں۔سات لڑکیوں کو ایک موسیٰ جان پر قربان کر دیا گیا!
گلدستہ کے ہاں تو صفِ ماتم بچھ گئی لیکن ظلم کی انتہا کہ اس ماتم میں صرف گلدستہ اور اس کی ماں بیٹھی تھیں کہ موسیٰ جان نے تو پہلے ہی کہہ دیا کہ ،’’ کوئی احسان نہیں کر رہا ہے ہم پر، صدیوں سے ہمارا آبا و اجداد کا زمانہ سے یہ رواج چلا آ رہا ہے‘‘۔ ہاں بابا نے خاموشی سے جھکی نظروں سے اپنی پگڑی گلدستہ کی جھولی میں رکھ دی تھی۔ اس نے بھی بیٹے کو بچانے کے لیے بیٹی کو دشمنی کی آگ میں جھونک دیا۔
وہ روتی رہی ،چلاتی رہی ، مگر کون سنتا؟ بابا نے تو اپنی پیاری بیٹی کو بیٹے کے سر پہ وار دیا ۔ اور یوں گلدستہ کا جنازہ اس خاندان کے حوالے کر دیا گیا۔
گلدستہ روتی رہی اور اپنی زندگی کو سوچتی رہی ۔ اس کو گل مینہ کی کہی ہوئی بات یاد آئی ،’’ گلدستہ تم شادی کے بعد ہم لوگوں سے ملنے آیا کرے گا ناں؟‘‘
’’ اگر کوئی بہت اچھا بندہ ہم کو مل گیا تو ہو بھی سکتا ہے کہ ہم تم لوگوں کو بھول جائے !‘‘ گل مینہ یہ کہہ کر اٹھ کربھاگی تھی اور ساری لڑکیاں قہقہے لگاتے ہوئے دور تک اس کے پیچھے بھاگتی چلی گئیں۔ کتنی خوش تھی وہ تب۔ بارش شروع ہو گئی تھی اور پوری فضا لڑکیوں کے بے فکری کے قہقہوں کے ساتھ رقص کناں تھی۔ گول گول فراکیں بھی خوشی اور مستی میں گھوم گھوم کر ان کے ساتھ ہم رقص تھیں۔۔۔۔۔۔
گلدستہ کے گالوں پر آنسو بہنے لگے۔
درد کی ایک شدید لہر اٹھی ۔ لڑکھڑا کر وہ دیوار کا سہارا لیتے ہوئے گر پڑی۔
جانے کتنی دیر وہ اس درد سے لڑتی رہی۔۔۔!۔
جانے یہ صرف دردَ ذہ ہی تھا۔۔۔!!۔
کوئی نہ تھا جو اسے تسلی دیتا ،ایک سوائے اماں صغراں کے۔کوئی نہیں تھا جو اسے اس درد، اس غم سے نکالتا۔۔۔!!۔
اور بالآخر اس درد سے لڑتے لڑتے اس نے ایک چاند سی بچی کو جنم دے دیا۔۔۔!
ایک اور ساتویں نمبر کا اضافہ ہو گیا۔۔۔!!۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*