غزل

دیا جلایا اپنے آپ سے باتیں کی خاموشی میں
کوئی نہ آیا اپنے آپ سے باتیں کی خاموشی میں

آدھی رات کو جب قدموں کی چاپ یہ میرے ساتھ چلی
تو گھبرایا اپنے آپ سے باتیں کی خاموشی میں

تیرا غم تھا کس سے کہتے میں نے خالی کمرے کو
حال سنایا اپنے آپ سے باتیں کی خاموشی میں

پچھلی رات کا قصہ ہے کہ صدیوں کا لیکن میں نے
دل بہلایا اپنے آپ سے باتیں کی خاموشی میں

وہ غصہ تھا یا وحشت تھی لیکن گُذری باتوں پر
جب پچھتایا اپنے آپ سے باتیں کی خاموشی میں

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*