اداسی

باغ کے ایک کونے میں

ایک بوڑھا بینچ

پر بیٹھا ہے۔

وہ محسوس کرتا ہے

شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ

جو پھولوں کے لبوں سے

رس چراتی ہیں۔

ہوا میں تیرتی خنکی کی خوشبو

جس میں باغ میں کھلتے

ہر ایک پھول، پودے اور پتے

کا لمس شامل ہے۔

وہ محسوس کرتا ہے

اپنے اندر ایک ٹھنڈی /سردسانس

جب بچوں کو خوش ہوکر

دوڑتے دیکھتا ہے۔

اک پل کے لیے سوچتا ہے۔

زندگی ساکن/جامد نہیں

کسی مردہ منظر کی طرح

نہ ہی فقط موت کا انتظار ہے۔

شکن زدہ چمڑی کے پیچھے نہ ہی

درد کی بے چین کرتی

چبھن ہے۔۔۔

اس کے چہرے کی شکنوں میں

ایک بچہ چھپا ہے۔

آنکھوں میں بچپن جیسا ہی تجسس

چھلکتا محسوس ہوتا ہے

جیسے کہ وہ ماضی کو

ڈھونڈتا ہے،

اپنے کھوئے ہوئے چھوٹے

ساتھی یاد آتے ہیں،

ماں کی گود کا سکھ

باپ کی شفقت بھری چھاؤں

ایک پرسکون گھر کا اطمینان

شاید اور بھی بہت کچھ

وہ یہ بھی سوچتا ہوگا

کہ اب تک

اس نے کیا کچھ

گنوایا ہے۔

لیکن پھر وہ سوچتا ہے کہ گنوانا ایک حقیقت ہے

پھر وہ اٹھتا ہے

ایسے ہی بچوں کے ساتھ دوڑتا ہے

قہقہے لگا کر

تالیاں بجاتا ہے۔

وہ بچوں کے ساتھ خوشی بھر کچھ بتانا چاہتا ہے

بچے “پاگل پاگل۔۔” کہہ کر

اس کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*