مگر ایک ساعت

کوئی ایک جملہ

کوئی ایک لمحہ

کوئی ایک ساعت

مٹا کے دوبارہ سے لکھ دے ہمیں

کہاں ایسا ہوتا ہے۔۔

لیکن ہوا

بہت کم سخن ایک ساعت

مخاطب تھی

” تم ایسی دیوارِ گریہ ہو

جو سارے دکھ سوک لے

خود پہ بیتے ہوئے وقت کی

سب تہوں

ساری پرتوں کی گھمبیر خاموش شکنوں کو اذنِ سخن دوں

تردد، تذبذب بنا

بانٹ کے خود کو تم سے تمہیں

ذات کے ایک گوشہ میں چن دوں ”

کوئی ایک ساعت

مٹا کر دوبارہ سے لکھ دے ہمیں

کہاں ایسا ہوتا ہے

لیکن بہت مہرباں ایک ساعت۔۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*