بھولنے تو نہیں دیں گے دنیا کو ہم

یاد ہے یا د ہے

ایک اک مرحلہ یاد ہے

بیس لوگوں کا وہ قافلہ

ایک تاریک گھاٹی میں داخل ہوا

اور پھر جیسے زنداں کا در کھُل گیا

بھولنے تو نہیں دیں گے دنیا کو ہم

ناتواں ہڈیاں کھاد بنتی رہیں

اور کپاس کے کھیت میں دور تک

بس غلامی کی فصلیں ہی اگتی رہیں

بادباں کرب سے پھڑ پھراتے رہے

کشتیاں بین کرتی رہیں

اور سمندر تو بس آنسوؤں کی طرح

کتنی لاشوں کو اپنی تہوں میں چھپاتا رہا

بھولنے تو نہیں دیں گے دنیا کو ہم

وہ جو تاریخ ہے ظلم اور جبر کی

پانیوں پر جو لکھی گئی

پھر بھی مٹتی نہیں

ہم مویشی تھے، جنسِ تجارت تھے

غربت بڑا جرم

اور پھر کالی رنگت کڑا جرم

آج زیرِ زمیں بنکروں میں چھپے کیوں ہو

باہر تو جھانکو ذرا

بیس لوگوں کا وہ قافلہ

اک ہجومِ بلا خیز میں ڈھل گیا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*