کھڑکی

شہر میں بلکہ دنیا میں پھیلی وبا کی وجہ سے آج کل میں کمرے میں بند ہوں۔ میرے باہر کی دنیا بس ایک بڑی سی کھڑکی سے نظر آتی ہے جو گھر کے لان کی طرف کھلتی ہے۔ اس کھڑکی کو پتا نہیں کیوں فرینچ ونڈو کہا جاتا ہے۔ شاید فرانسیسیوں کی حسِ جمالیات نے ایسی کھڑکیاں قدرتی مناظر سے تعلق قائم رکھنے کے لیے بنائی ہوں گی۔ تو اس کھڑکی سے مجھے تھوڑا سا آسمان اور بہت سا سبزہ نظر آتا ہے۔ سبزہ جو میں ذہنی صحت سلامت رکھنے کے لیے ضروری سمجھتی ہوں۔ میں جب بھی کھڑکی سے باہر دیکھتی ہوں تو چمپا، موتیا اور بوگن ولا کے ساتھ ناریل، امرود، آم اور زیتون کے پیڑ نظر آتے ہیں۔ ویسے تو میں نے اِملی، شریفہ اور سوہنجنا بھی لگا رکھا ہے مگر وہ دوسرے کمرے کی کھڑکی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ میں تو آج کل بس اُس کمرے میں رہتی ہوں جو میری خواب گاہ ہے۔ اس کی دو طرف دیواروں سے چھت تک پہنچتے ہوئے شیلف ہیں جن میں کتابیں رکھی ہیں، ایک طرف کپڑوں کی الماری اور سرہانے کی جانب یہ کھڑکی ہے جو باہر کے نظارے کا واحد ذریعہ ہے۔ جب میں اس پر پردے کھینچ دیتی ہوں تو دنیا میرے کمرے سے باہر چلی جاتی ہے۔ نہ آسمان نہ زمین کچھ نہیں رہتا۔ ایسے میں ایک کھڑکی میرے اندر کھل جاتی ہے جس میں بہت کچھ ہے۔ بہت سی یادیں اُن لوگوں کی جو کبھی میرے اردگرد تھے اور اُن لوگوں کی بھی جو اب بھی موجود ہیں مگر اپنے اپنے کمرے میں بند ہیں۔

کبھی باہر بہت بھیڑ تھی مگر اب یہ بھیڑ اندر کی کھڑکی ہی سے نظر آتی ہے۔ حیرت ہے کہ اب اک اک چہرہ بہت واضح اور پہچانا جاتا ہے۔ اُن کی جو باتیں یاد رہ گئی ہیں، اُن میں بھی بہت سے مفہوم کھلتے جا رہے ہیں جو پہلے واضح نہیں تھے، مثلاً اُن میں سے ایک صاحب جو خیرخواہ بن کر میرے پیچھے کی جانے والی باتوں کو مجھ تک پہنچاتے تھے اور اُن لوگوں سے خبردار رہنے کو کہتے تھے، اب اُن کی باتیں یاد آتی ہیں تو سوچتی ہوں کہ وہ یہ سب کچھ مجھے کیوں بتاتے تھے۔ جنھیں میری غیبت کرنی ہے وہ تو کریں گے، میں اُن کی باتوں کے بارے میں جانوں یا نہ جانوں، پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ وہ ہمدرد اُن کی باتیں اتنی تفصیل سے کیوں سنتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ اُس ذہنی مریضہ کی باتیں بھی اُس کے لکھے ہوئے خطوط کے بہت باریک بیں مطالعے کے بعد مجھے سناتے تھے جو وہ خاتون نہ جانے کیوں میرے بارے میں لکھتی تھیں۔ شہر میں ایسے حاسدین کی کمی نہیں جو اپنی ناکامیوں کی وجہ دوسروں کی کامیابیوں کو سمجھتے ہیں اور اُن کے بارے میں بدگوئیوں سے اپنے اندر کی بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ خطوط، مضامین، ٹیلی فون اور اب تو سماجی رابطے کے ذرائع سب کچھ استعمال کرتے ہیں۔

اب جو یادوں کی کھڑکی کھلی ہے تو میں اپنا ایک دکھ بھی سنادوں۔ یہ زیادہ پرانی یاد نہیں ابھی چند روز پہلے ہی مجھے فون پر اُس شخص کے بارے میں انتہائی کریہہ الفاظ سننے پڑے تھے جو شدید بیمار تھا۔ میرا فوری ردِعمل یہ تھا کہ خدا کے لیے ایسی باتیں نہ کیجیے وہ تو بہت بیمار ہے، اُس کی زندگی کی دعا کیجیے۔ مجھے ڈر تھا کہ یہ مہلک الفاظ بیمار کے کانوں میں نہ اُنڈیل دیے جائیں۔ ہوا میں چلا یہ تیر کوئی لے جاکر اُس کے کلیجے میں نہ بھونک دے۔ میرا دکھ اُس وقت انتہا کو پہنچا جب دوسرے ہی روز مجھے اپنے اُس بیمار کی موت کی اطلاع ملی۔ تیر نے تو اپنا کام کر دکھایا، میں نے دعا کی، یا اللہ جاتے وقت اُس کا دل بہت زیادہ دکھا ہوا نہ ہو۔ وہ دل جس کی دھڑکن پہلے ہی کئی صدموں کے بوجھ میں دب کر بند ہونے لگی تھی۔ کہیں اس آخری وار سے ہمیشہ کے لیے ساتھ تو نہیں چھوڑ گئی۔ کس سے پوچھوں کہ یہ الفاظ جو میں نے سنے تھے اور کس کس نے سنے، کون بتائے؟ مگر چند روز میں ہی پتا چل گیا جب سماجی رابطے کے ذرائع اُس بدگوئی کو بہت سے لوگوں تک پہنچا رہے تھے۔ ایسے میں میرے اُنہی خیرخواہ کا فون آیا جو بدگوئی کا کوئی جملہ ضائع نہیں جانے دیتے۔

”دیکھ لیا! بے چارے مرنے والے کے بارے میں کیا کیا لکھا جا رہا ہے۔“

میں نے کہا، ”ہاں سن بھی لیا، اُس کی موت سے ایک دن قبل۔“

”فلاں سے؟“خیرخواہ نے فوراً نام لے لیا۔

”جی ہاں، اُسی سے جس کے بہت سے مکروہ الفاظ آپ میرے بارے میں بھی مجھ تک پہنچا چکے ہیں۔“ میں نے فون بند کردیا۔

میں کمرے میں بند ہوں۔ آوازیں کھڑکی سے باہر ہیں۔ کمرے اور دل کی کھڑکی دونوں بند کر رکھی ہیں۔ یادیں آتی ہیں تو اُن کا رُخ پیڑوں کی طرف موڑ دیتی ہوں۔ شریفے کا پیڑ ڈھاکہ یونی ورسٹی میں لائبریری عمارت کے پیچھے تھا، جہاں میں نے ایک آخری شریفہ اُس صبح توڑا تھا جس کے بعد شہر میں ہونے والے سیاسی ہنگاموں نے مجھ پر ڈھاکہ یونی ورسٹی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا تھا۔ ناریل کا پیڑ میں نے اس لیے لگایا ہے کہ ڈھاکہ میں میرے گھر کے آنگن میں لگے ہوئے یہ پیڑ پنکھے کا کام کرتے تھے۔ گرمیوں میں کچے ناریل کا پانی میرا پسندیدہ مشروب تھا۔ امرود کا پیڑ دادا نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا جب وہ ہندوستان میں اپنا گھر چھوڑ کر ابا کے پاس آگئے تھے۔ وہ امرود بہت میٹھے اور خوشبودار تھے۔ پیڑ بھی لگانے والوں کے جیسے ہوتے ہیں، سایہ اور پھل دیتے ہوئے۔ دادا مر گئے تو مجھے اُس پیڑ سے اُن کی خوشبو آتی تھی۔ اک مہندی کا پیڑ بھی تھا۔ بچپن میں جب میں نے عید پر مہندی لگانے کی ضد کی تھی تو چچا ڈھونڈ ڈھانڈ کر مضافاتی بستی کے کسی گھر سے مہندی کی پتّیاں لائے تھے۔ پھر اُنھوں نے صحن میں مہندی کا پودا لگا دیا تھا۔ آم، انجیر، میں نے اپنے بچوں کے لیے لگائے ہیں۔ شاید اُنھیں اس میں میری خوشبو محسوس ہو۔ آج یہی پیڑ میری تنہائی کے ساتھی ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*