شام ڈھلے

اب تو عادت سی بن گئی ہے۔ میں شام ڈھلتے ہی لارنس باغ کی سیر کو نکل جاتا ہوں۔ لارنس مجھے سحر زدہ کر دیتا ہے۔ تازہ ہوا، خوشگوار فضا، قدیم، سرسبز، خوبصورت، شاہانہ انداز میں ایستادہ وہ درخت مجھے ہر شام متوجہ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اور پھر درختوں پر لٹکی ہوئی بڑی بڑی سیاہ چمگادڑیں بہت عجیب منظر پیش کرتی ہیں۔ یوں جیسے یہ پراسرار مخلوق اپنے بنانے والے سے سوالوں کے جواب پانے کے لیے اْلٹی لٹکی ہوں۔ ان کو گچھا لچھا ہوتے دیکھ کر مجھے بہت سی ہارر فلمیں یاد آ جاتی ہیں، جو میں نے بار بار دیکھ رکھی تھیں۔ آخر ان چمگادڑوں کا راز کیا ہے؟ میں سوچنے لگتا تو مجھے اْن سے ڈر محسوس ہونے لگتا، کہیں مجھ سے آ کر چمٹ نہ جائیں۔ یہ سوچتے ہی میں اپنی سپیڈ بڑھا دیتا اور اْن سے دور بہت دور نکل جانے کی کوشش کرنے لگتا۔

کل شام بھی میں معمول کے مطابق اپنی سیر اور خیالوں میں مگن چلتا جا رہا تھا۔ اِرد گرد کی جھاڑیوں میں چھپے جوڑوں کی نزدیکیاں اور کھْسر پھْسر دیکھ کر میرے چہرے پر مسکراہٹ کھیل گئی۔

”بھلا محبت کرنے والوں کو کوئی کیسے روک سکتا ہے؟“۔ میں نے زیر لب کہا۔

تھوڑا سا آگے گیا تو ایک جھاڑی کے قریب بیٹھی دو خواتین نظر آ گئیں۔ میری رفتار خود بخود دھیمی ہو گئی۔

عجیب بات ہے وہ دونوں اپنے گھریلو اخراجات پر بحث کر رہی تھیں۔ بھلا لارنس باغ میں کوئی ایسی باتیں کرنے آتا ہے۔۔۔۔۔ ایک عورت کچھ عمر رسیدہ تھی اور دوسری جوان۔۔۔۔۔ اْن کے چہرے یہی بتا رہے تھے۔

”رکشے کے پیسے بھی نہیں بچیں گے۔۔۔ گھر واپس کیسے جائیں گے؟“ بڑی نے اْداس لہجے میں کہا۔

”مجھ سے کیا کہتی ہو؟ بچا لیے ہوتے نا۔“ چھوٹی تنک کر بولی۔

”منے کی فیس کی کل آخری تاریخ ہے۔۔۔۔۔ اور پھر تیرے ابا کی دوا بھی لانا ہے۔۔۔۔۔“ بڑی بولی۔

”میں نے تو بس موبائل فون کے ایزی لوڈ کے لیے دو سو رکھے ہیں۔۔۔وہ تو ضروری ہیں، وہ تو نہیں دوں گی۔“ چھوٹی جھنجھلا کر بولی۔

میرے دل میں رحم کا سمندر موجیں مارنے لگا۔ بے چاری مجبور، مظلوم عورتیں۔ کیوں نہ اِن کی کچھ مدد کر دوں، مگر پھر سوچا۔۔۔۔۔ کہیں وہ اس کا کوئی غلط مطلب ہی نہ نکال لیں۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔۔۔ مجھے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ مگر انہیں چاہیے ایسی باتیں گھر جا کر کریں۔۔۔۔۔ اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا ہے۔۔۔۔ ہاں مگر میرا کیا لینا دینا۔۔۔۔۔ جو مرضی کریں۔ مجھے چاہیے سیر ختم کر کے جلدی جلدی گھر پہنچوں۔ شام کو میرا اپنے دوستوں کے ساتھ ڈنر اور فلم دیکھنے کا پروگرام ہے۔ یہ سوچ کر میں نے اپنی رفتار تیز کر دی اور لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگا۔ چند ہی قدم بڑھا تھا کہ کانوں میں ایک آواز آئی۔۔۔ ”سنیے“۔ میں چونکا اور گردن گھما کر دیکھا۔۔۔۔۔

دو چمگادڑیں میرے سامنے کھڑی تھیں۔ مجھے رْکتے دیکھ کر جوان والی نے اپنا برقعہ تن سے نیچے گرا دیا۔ میری نظر اْس کے خوبصورت، پرکشش وجود پر پھسلتی چلی گئی۔

بڑی والی نپے تْلے قدم اْٹھاتی میرے قریب آئی اور جوان والی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔

”سر جی۔۔۔ کچھ مْوڈ وْوڈ ہے؟“

ضروری

”چلو بیٹا جلدی کرو۔ سکول سے دیر ہو جائے گی۔“ میں نے منے کو اپنا ناشتہ ختم نہ کرتے ہوئے دیکھ کر ہولے سے سرزنش کی۔

”بس امی۔۔۔ ٹوسٹ کا یہ آخری پیس ختم کر لوں۔“ منے نے حسب معمول سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔

”دیکھو مجھے پندرہ منٹ میں کلاس لینی ہے۔اگر ٹیچر ہی وقت پر نہ پہنچے تو یہ بہت غلط بات ہوتی ہے۔ چلو اْٹھو اور یہ ٹشو سے صاف کرو۔“ میں نے منے کو کرسی سے اْٹھاتے ہوئے کہا اور ملازمہ کو گھر کے بارے میں ہدایات دینے لگی۔

”اپنی پنسل، شارپنر، ہوم ورک کی کاپی، لنچ باکس سب چیک کر لینا۔ کہیں کچھ بھول نہ جاؤ۔“ میں نے منے کو تاکید کی۔

”نہیں بھولتا امی۔۔۔ سب کچھ تیار ہے۔“ منے نے اپنے سکول بیگ میں جھانکتے ہوئے کہا۔

منے کی دادی تسبیح پھرولتی ہوئی ہمارے قریب چلی آئیں اور دعائیں پڑھ پڑھ کر ہم پر پھونکنے لگیں۔ مجھے دل ہی دل میں ہنسی آ گئی۔۔۔ اماں کتنی وہمی ہو گئی ہیں، ہم سکول جا رہے ہیں محاذ پر تو نہیں۔ مگر مجھے پھر اماں پر پیار آ گیا۔ کچھ کہنے کے بجائے میں دل ہی دل میں سوچ کر خاموش ہو رہی۔ وقت پر سکول پہنچنا میرے لیے زیادہ ضروری تھا۔ آخر کو میں ایک ذمہ دار ٹیچر سمجھی جاتی تھی۔ میں نے پھرتی سے اپنا بیگ اْٹھایا، سر پر دوپٹہ درست کیا اور گاڑی کی چابیاں اْٹھاتے باہر کو چل دی۔۔۔ منا میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ دروازے سے باہر نکلنے سے پہلے ہی منے کے ابا کی کچھ آواز سنائی دی۔

”منے بیٹا تم اپنا کیلکولیٹر تو بھولے جا رہے ہو۔“ انہوں نے منے کے بیگ کو کھولا اور اس میں کیلکولیٹر ڈالنا شروع کر دیا۔

”بڑا بھلکڑ ہے، روز کچھ نہ کچھ بھول جاتا ہے۔“ میں نے منے کی طرف دیکھ کر مصنوعی غصے سے کہا۔

”بالکل ماں پر گیا ہے۔۔۔“ منے کے ابا اطمینان سے بولے۔

”ماں پر؟ کیا مطلب؟ میں کچھ بھولتی ہوں؟“ میں نے حیرت سے اْن کی طرف دیکھا۔

”روز یہ بھول جاتی ہو۔ تمہیں پتہ ہے روز سکول جاتے ہوئے بیگ میں یہ رکھنا کتنا ضروری ہے؟“۔انہوں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا اور میرے ہاتھ میں ایک گن پکڑا دی۔ میں نے ٹھنڈی سانس بھر کر اْسے اپنے پرس میں خاموشی سے رکھ لیا۔ واقعی ابھی تک مجھے یہ سکول لے جانا روز ہی بھول جاتا تھا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*