مخد وم گو اور پیر ک

۔

میر عر ب مدرسہ میں دو بھا ئی تھے جن سے میں پہلے شنا سا اور بعد ازاں آشنا ہو ا ۔
بڑے کا نام مخصوم خو اجہ تھا اور اس کا لقب ’’مخدوم گو ‘‘ (بیل ) تھا ۔ وہ بلند قا مت شخص تھا۔مگر اس کا بد ن اس قد ر بھر ا بھر ا تھا کہ کو تا ہ قد لگتا تھا ۔ اس کا چہر ہ سیا ہ را ت کی طر ح کالا تھا۔بڑ ی سیا ہ شعلہ پا ش آنکھیں تھیں۔اس کا چہر ہ گو شت سے بھر ا اور تقریباًسا رے کا سا را کا لے با لوں سے بھرا ہو ا تھا۔ اس کے ابر و آپس میں ملے ہو ئے تھے۔اور انکھو ں کے مثر گا ن لمبے اور انکے سر ،خمد ار تھے ۔اس کے پا ؤ ں رانو ں تک گھنے سیا ہ با لوں سے بھر ے ہو ئے تھے۔
یہ شخص شکل سے ہیبت نا ک لگتا تھا۔ مگر بہت حلیم ،نر م خو اور کشا دہ جبیں تھا۔ ایک ہی نظر میں دو سرے کی محبت اپنی طر ف کھینچ لیتا ۔اس کے لبو ں پر مسکر اہٹ رہتی تھی اور آنکھیں ہمیشہ مہر با ن لگتی تھیں۔
وہ سا رے طا لبو ں با لخصو ص غریب طا لبو ں سے محبت کے سا تھ پیش آتا ۔ اور مہر با نی سے حا ل احو ال پو چھتا ۔ اگر کو ئی طا لب بیما ر پڑ جا تا تو وہ اس کی خو ب تیما ر داری کر تا۔ وہ اس کے لئے چا ئے بنا تا، اس کا حجر ہ صا ف کر تااور اس کے کپڑے دھو دیتا۔ وہ جو تی نہیں پہنتا تھا اور پگڑی بھی نہیں با ند ھتا تھا۔ گر میو ں میں وہ ایک سو تی کرتہ شلو ار میں رہتا اور سر دیو ں میں کر تہ کے اوپر ایک پتلا سو یٹر پہنتا ۔ وہ ہمیشہ بر ہنہ سر رہتا اور سر دیو ں میں بس ایک ٹو پی سر پہ پہنتا ۔
یہ 25 بر س کا نو جو ان تھا مگر اس کا سر ،داڑھی اور اسکے ہا تھ پا ؤ ں اور قد کا ٹھ تیس بر س سے زیا دہ کے لگتے تھے۔ وہ اس عمر میں وہ کتا بیں پڑ ھ رہا تھا جو میر ی طر ح کے چو دہ سا لہ لڑکے پڑھتے تھے ۔ میں اس شخص کو ’’بیل ‘‘ کا لقب دینے پر بخا را کے با شند وں سے خو ش نہ تھا ۔ ہر چند کہ اس کی ظا ہر ی شکل و صو رت بیل کی ہو گی مگر اس کا اخلا ق ، آداب اور کر دا ر ایک اچھے انسا ن کے تھے۔
اس شخص کے بھا ئی کا نا م پیر ک تھا ( اس کا اصل نا م پیر تھا مگر اپنے بھا ئی کی نسبت کم حجم ہو نے کے سبب اُسے پیر ک کہتے تھے )۔ وہ پند رہ بر س کا تھا مگر صور ت سے دس سا ل کا بچہ نظر آتا تھا۔پستہ قد تھی ، بد ن اور داڑھی با ریک تھی ۔ چھو ٹی سی آنکھیں تھیں اور ان میں نو ر نہ تھا۔ اس کا چہر ہ زرد تھا ،لگتا تھا کہ وہ طو یل عر صہ سے ایک بڑی بیما ری سے ابھی ابھی تند رست ہو ا ہے۔
پیر ک کے بقو ل وہ اور اس کا بھا ئی ہم درس تھے اور دو نو ں ’’ کا فیہ ‘‘ پڑ ھ رہے تھے ۔البتہ میں نے نہ اُسے اور نہ اُس کے بھا ئی کو کبھی دیکھا کہ وہ ہم’’ علم دو ست‘‘ طلبہ کی طر ح شا م کو مد رسہ کے بر آمد ے میں درس کی تکر ار کر تے ہو ں ، ہم نے نہ تومد رسہ میں اور نہ کہیں اور ،ان بھا ئیوں کو پڑھتے ہو ئے دیکھا ۔ پیر ک کا کہنا تھا وہ اپنے با پ سے پڑھتے ہیں ۔
ان کا با پ ایک 80 سالہ ملاٌ تھا جو مد رسہ میر عر ب کے جنو ب میں قریب ہی اپنی بیو ی اور بیٹوں کے سا تھ زند گی بسر کر رہا تھا ۔ ان بھا ئیوں کی ما ں اُس وقت مر گئی جب ان کا با پ ستر سا ل کا تھا۔ اس نے دوسری شا دی کی تھی ۔ دوسری بیو ی سے بھی اس کے تین بیٹے تھے جن میں سب سے بڑا دس سا ل کا اور سب سے چھو ٹا ایک سال کا تھا۔
ان کا با پ گو کہ ایک مد رسہ میں مد رس تھا مگر درس گو ئی نہیں کر تا تھا اور مد رسہ کے وقف جا ئید اد کی آمد ن سے گزارہ کر لیتا تھا۔ مد رسہ میر عر ب میں اس کے دو حجر ے تھے ۔ جو اس نے دو نو ں فر زند وں کو دے کر انہیں اپنے اہل عیال سے جد ا کر دیا تھا۔ وہ بھا ئی ان دو حجر وں میں قیا م کر تے تھے اور ان حجر وں کے وقف کی آمد نی سے گزر بسر کر تے تھے ۔
ان دو بھا ئیوں سے میر ی شنا سا ئی اس طر ح ہو ئی : مدرسہ کے اہا لیا ن کی عا دت ہے کہ عصر اور مغر ب کے درمیا ن ہو ا خو ری کے لئے با ہر نکلتے تھے ۔ بڑ ی عمر کے لو گ مد رسہ کے درمیا ن کھلی جگہ پہ بیٹھتے تھے جبکہ کمسن بیر و نی صحن میں بیٹھے تھے ۔
ایک شام میں صحن میں پیر ک کے داہنی پہلو میں بیٹھا ہو ا تھا ۔ میں ہمیشہ ان لو گو ں سے ملنا پسند کر تا تھا جنہیں شعر زبا نی یا د ہو ں ۔ اس طر ح جب میں نے پیر ک کو دیکھا تو اس سے کہنے لگا :
’’آپ کو کو ئی بیت یا غزل یا د ہے؟‘‘
’’اگر ہو تو؟‘‘ اس نے الٹا مجھ سے سوال کیا ۔
’’ اگر زبا نی کو ئی بیت یا د ہو تو ہم بیت با زی کر یں گے ‘‘۔ میں نے کہا
’’ نہیں میں بیت ویت نہیں جا نتا ‘‘ اس نے کہا ’’ ملا حا مد صوتی اور زین الد ین خو اجہ اکثر ہما رے حجر ہ میں آتے ہیں اور غز ل خو انی کر تے ہیں ،مگر میں نے ان میں سے ایک بھی یا د نہیں کیا ‘‘
اس نے مجھ سے پو چھا ’’ مگر کیا تمہیں شا عری یا د ہے ؟‘‘
’’ہا ں ،تھو ڑی تھوڑی ‘‘۔ میں نے کہا
میر ے اس جو اب سے اس کے چہر ے پہ ایک شر میلی سر خی دوڑی جیسے کہ اسے طر ح کا بچکا نہ رشک آگیا ہو ۔اس نے چا ر پا نچ سا لہ بچے کی طر ح جو اپنے کھلو نو ں کی تعر یف کر تا ہے ، ایک مغر ور لہجے میں کہا ’’ مگر میں ایک ایسی چیز جا نتا ہو ں جو تم نہیں جا نتے ‘‘۔
’’وہ کیا ؟‘‘ ۔میں نے تعجب سے پو چھا
ممکن تھا کہ وہ ایک چیز نہیں بلکہ بہت سی چیز یں جا نتا ہو جو میں نہیں جانتا تھا ۔ مگر اس نے یہ کہا ں سے جانا کہ میں نہیں جا نتا ؟۔ مجھے اس با ت پر تعجب ہو رہی تھی ۔
’’ میں روسی زبا ن جانتا ہو ں ‘‘۔ اُس نے اسی غر ور سے کہا۔
میں اس کی با ت پہ یقین نہ کر تے ہو ئے دل میں سو چنے لگا، مد رسہ میں جو طا لب علم خو د اپنی ما دری زبا ن نہ جانتاہو، اور اپنی مادری زبان میں ایک شعر بھی یا دنہ رکھتا ہو ،وہ روسی کس طر ح سیکھ سکتا ہے ‘‘؟۔ میں اس سے پو چھا ۔
’’اچھا روسی زبا ن میں با ت کر و۔ میں بھی سنو ں کہ یہ کس طر ح کی زبا ن ہے ؟‘‘۔
’’روسی لوگ گھنٹہ کو ’’چس ‘‘ کہتے ہیں‘‘ اس نے کہا ۔
’’اور کیا جا نتے ہو ؟‘‘ میں پو چھا ۔
’’ میں اور بھی کئی الفا ظ جا نتا ہو ں جو اس وقت مجھے یا د نہیں آ رہے‘‘ ۔ اس نے کہا ۔’’میں نے کا غذ پر لکھ ڈالے ہیں ۔ تم کبھی میر ے حجرے آ جا ؤ ،پڑ ھ کر سنا ؤ ں گا‘‘
میں اُسی روز رات کے کھا نے کے بعد اُس کے حجر ے چلا گیا۔ اس کا حجر ہ مدرسے میں جنو ب مغر بی کو نے میں واقع تھا اور بہت تنگ تھا ۔ دو آدمی بمشکل بیٹھ سکتے تھے ۔ حجر ے کے وسط میں ایک صند لی رکھا ہو ا تھا ۔ایک طر ف ہا تھ دھو نے کے لئے لو ٹا نما بر تن رکھا تھا اور اسکے نیچے چلمچہ تھا اور جب یہ بھر جا تا تو مد رسہ کے احا طے میں لے جا کر پا نی گرا دیا جا تا ۔ دوسری طر ف دیو ار کے سا تھ انگیٹھی تھی ۔حجر ے کی دری سا دی مگر صا ف ستھر ی تھی ۔ وہ حجر ہ بخا را کے مد رسو ں کے حا لا ت میں ایک شخص کی اقا مت کے لئے کا فی تھا۔
پیر ک نے مجھے اپنے سا منے صند لی کے پا س بٹھا یا اور بغیر تکلفا ت کے اپنے نیچے بچھے کمبل کے نیچے سے ایک کا غذ نکالا ۔ اس کا غذ پہ پنسل سے دو سطر یں لکھی ہو ئی تھیں ۔ ان میں سے کچھ حر فوں سے معلو م ہو تا تھا کہ وہ خط عر بی میں لکھے گئے ہو ں مگر انہیں پڑھنا ممکن نہ تھا ۔ پیر ک نے وہ کا غذ مجھے تھما دیا ۔
’’اسے پڑھو اور روسی زبان سیکھو‘‘۔اس نے کہا ۔
’’اُسے پڑھنا ممکن نہیں ہے ، اسے کس نے لکھا ؟ ‘‘ ۔میں نے کا غذ کو غو ر سے دیکھنے کے بعد کہا ۔ پیرک کے بے نو ر چہر ے پہ سر خی ڈوری ۔
’’میں نے خو د لکھا ‘‘۔ اس نے کہا ‘‘میر ی خو ش خطی اچھی نہیں ہے ۔ اس لئے کہ میں نے خو ش نو یسی نہیں سیکھی ۔ میں نے اسے کسی اور کے لکھے سے نقل کیا ہے ‘‘۔
میں نے کا غذ اُسے واپس کر دیا اور کہا ۔ ’’پھر اسے پڑھو بھی خو د ‘‘۔
اس نے خا غذ پہ سیا ہی کی لا ئنو ں پہ با ئیں ہا تھ کی شہا دت کی انگلی پھیر تے ہو ئے آنکھو ں کو کا غذ یہ ٹکا ئے پڑ ھنے کی کو شش کی : ’’یعنی کہ ‘‘ یہ ہے’’ لید ینہ ‘‘ جسکا مطلب ہے بر ف ۔ پھر یعنی کہ یہ ہے ’’چہ سی ‘‘مطلب گھنٹہ‘‘ اور یعنی کہ ’’حلییب‘‘ جس کا مطلب ہے ’’روٹی ‘‘۔ پھر خا مو ش ہو ا
’’بس ؟ ‘‘ ۔میں نے پو چھا ۔
’’ہا ں ۔ بس ‘‘۔ اس نے جو اب دیا۔
’’اچھا ۔تو انہیں ’’یعنی کہ ‘‘ بو لے بغیر دو با رہ پڑھو ۔ تا کہ میں انہیں پہچا نو ں اور یا د کر وں ‘‘۔
پیر ک نے دو تین با ر پھر انہیں ’’یعنی کہ ‘‘ والے الفا ظ کے بغیر بڑ ی مشکل سے دھر ا یا ۔وہ اپنا تکیہ کلا م الگ رکھنے میں بہت دشواری محسو س کر رہا تھا ۔ ’’لدینہ ۔بر ف‘‘، ’’چہ سی ۔ گھنٹہ ‘‘،’’خیلیب ۔نا ن‘‘
میں نے اس کی زبا ن سے یہ الفا ظ سیکھ لئے اور انہیں شعر کے مصر عے کی طر ح کہنا شروع کیا ۔ ’’لدینہ ۔بر ف ،چہ سی ۔گھنٹہ ،خیلیب ۔نا ن‘‘
میر ی زبا ن سے یہ با تیں سن کر پیر ک کا چہر ہ خو شی سے دمک اٹھا ۔ اس نے ہیجا ن کے سا تھ کہا ’’ارے یہ تو نصا ب الصبیا ن کی طر ح بن گیا‘‘۔
’’لیکن کیا تم ،نصا ب الصبیا ن ،جا نتے ہو ؟‘‘ ۔میں نے پو چھا ۔
’’میر ے والد نے میر ی کمسنی کے وقت اُس کے چند اشعا ر مجھے یا د کر ائے تھے ۔ا س کا ایک مصر ع تو مجھے ابھی تک یا د ہے۔ سما ۔آسما ن ،ار ض وغبرا۔زمین‘‘
پھر اس نے کہا ’’آو ایک کا م کرتے ہیں ۔ میں روسی الفا ظ تر جمہ کے سا تھ بتا تا جا ؤ ں گا اور تم انکا شعر بنا تے جا ؤ !‘‘
’’تم روسی الفا ظ کہا ں سے لا ؤ گے ؟‘‘
’’ملا تر اب سے ۔وہ ہما رے مد رسے میں رہتا ہے اور اکثر سمرقند آتا جا تا ہے ۔وہا ں کئی روسی رہتے ہیں ۔وہ روسی الفا ظ ایک کا پی میں لکھ لا تا ہے۔میں اُس سے نقل کر تا ہو ں ۔میں اس سے کہو ں گا کہ اس با ر زیا دہ الفا ظ لکھ لائے ۔پھر میں اُس سے نقل کر و ں گا اور تمیں دے دوں گا‘‘۔
’’بہت خو ب ‘‘ میں نے کہا
پیر ک اند یشہ بھر ی خا موشی کے بعد بو لا: ’’ان روسی الفا ظ کے لکھنے کے با رے میں کسی کو بتا نا نہیں ۔اگر ملاٌ ؤ ں نے سنا تو وہ ہما ری زندگی اجیر ن کر دیں گے ‘‘۔
’’کیو ں ؟‘‘مجھے تعجب ہو ا ۔
’’ یہ تو انہی سے پو چھنا پڑ ے گا ۔ میں تو اتنا جا نتا ہو ں کہ پچھلے سا ل انہوں نے ملا تر اب کو بہت تنگ کیا تھا ‘‘ ۔
’’کس لئے ؟‘‘۔
’’ملا ؤ ں نے پتہ نہیں کہا ں سے سنا کہ ملا تر اب سمر قند سے روسی الفا ظ لکھ لا یا ہے ۔ اس پہ وہ ’’روسی ہو گیا ہے، اسے مدرسے سے نکا لنا چاہیے ‘‘ کی تکر ار کر نے لگے ۔پر وہ تو اپنے زر خر ید حجر ے میں رہتا ہے ، اُسے وہا ں سے نکا لنا آسان تو نہیں ۔ اسی لئے مدرسے کے بڑے میر ے والد کو سا تھ لے کر قا ضی کے پا س یہ درخو است لے گئے کہ ملا تر ا ب کو مد رسہ سے نکا لے ۔ لیکن بڑ ے قا ضی نے قبو ل نہ کیا ۔اس نے کہا ’’روسی الفا ظ لکھنے سے آدمی کا فر نہیں ہو جا تا ‘‘اور یہ بھی کہا کہ ’’روسی عا لی جنا ب (امیر ) سے دوستا نہ تعلقا ت میں ہیں ۔اگر وہ تمہا ری یہ با تیں سنیں گے تو بہت نا راض ہو جا ئیں گے ۔ اس لئے ایسی فضو ل با تو ں سے پر ہیز کر و‘‘۔میں نے یہ با تیں والد سے سنیں ۔ میر ے بھا ئی کی ملا تر اب سے دوستی بھی ،میر ے والد نے اُسے تنبیہ کی کہ اس سے آمد ورفت نہ رکھے‘‘۔
میں نے اندازہ کیا کہ بیما ر چہر ے والا پیر ک سیکھنے کا شو ق رکھتا ہے ۔اس لئے میں نے اس سے کہا ۔
’’کم کم شعر خو انی بھی کر و۔ یہ انسا ن کے کا م آتے ہیں ‘‘
’’ملا حا مد صو تی اور زین الد ین خو اجہ اکثر میر ے حجر ے آتے رہتے ہیں اور غز ل خو انی کر تے ہیں ۔میں ان سے کہو ں گا کہ وہ مجھے شعر یاد کر ائیں ‘‘
’’یہ مشکل کا م ہے ۔اس سے انسا ن شعردان نہیں بن جا تا ۔اچھی با ت یہ ہو گی کہ کسی بیا ض یا د یو ان سے کم کم شعر پڑھتے رہو ‘‘
’’ہما رے پا س بیا ض نہیں ہے‘‘ ۔اس نے کہا ۔’’مکتب کے زما نے میں والد نے مجھے ’’حا فظ‘‘ کا دیو ان دیا تھا ۔وہ کتا ب میں نے اپنے چھو ٹے بھا ئی کو دیدی جو اب مکتب میں پڑھتا ہے ‘‘
’’میں تمہا رے لئے شعر کا ایک کتا بچہ لا ؤ ں گا ۔ اس سے پڑ ھو گے ؟‘‘
اس نے منظو رکیا۔اُس رات پیر ک کے سا تھ یہ محفل ختم ہو ئی ۔ میں ایک اور رات کھا نے کے بعد ’’محمو د و ایا ز‘‘ کا کتا بچہ لے کر پیر ک کے حجر ے گیا۔ اس نے کتا بچہ لیا ،اس کی ورق گر دانی کی اور مجھے لوٹا دی :
’’میں اسے پڑ ھ نہیں سکتا۔اگر ’’حا فظ‘‘ کی کتا ب مل جا تی تو شا ید پڑھ سکتا ‘‘۔اس نے ما یو س آواز میں کہا ۔
میں سمجھ گیا کہ وہ بھی اُس زما نے کے مکتب کے دیگر بچو ں کی طر ح اپنا پڑھا ہو ا کو رس ہی پڑ ھ سکتا ہے اور بیگا نہ کتا ب نہیں پڑھ سکتا ۔میں نے اس سے بہت نر می ا ور پیا ر سے کہا:
’’میں تمہیں اس کا پڑ ھنا بتا دو ں گا ۔دو تین دن میں خو د پڑ ھ سکو گے‘‘
میں نے اس سے یہ با تیں بڑ ی احتیا ط سے کیں ۔ میں نے اسے یہ نہیں کہا کہ ’’سکھا دو ں گا ‘‘ بلکہ کہا کہ ’’میں تمہیں پڑھنا بتا دوں گا ‘‘۔ اس لئے کہ اگر میں خو د کو استا د جتا تا تو اس کی انا کوٹھیس پہنچتی اور وہ پڑ ھنے سے انکا ر کر دیتا۔
’’ہا ں ہا ں مجھے پڑھنا بتا دو‘‘۔ اس نے شو ق بھر ے لہجے میں کہا ۔
میں نے اُس رات اُس کتا بچہ کی ایک غز ل سے چا ر شعر پہلے خو د بلند آواز سے پڑھے ،پھر اس سے کہلو ائے ۔
جب اُسے شعر یا د ہو گئے تب میں نے ایک ایک لفظ بتا یا کہ کیسے لکھے ہو ئے ہیں ۔اس رات کے بعد تعطیل کی ہر رات کو فا ر غ ہو کر میں پیر ک کے حجر ہ چلا جا تا اور اس کے سا تھ ’’محمو د ایا ز‘‘ کا کتا بچہ پڑھتا ۔
وہ دو ماہ میں سا ری کتا ب آسا نی سے پڑ ھ سکنے کے قا بل ہو ا ۔ اس کے بعد میں اُسے اُسی کتا بچے سے متعلق خط نو یسی سکھانے لگا ۔وہ پہلے پہل نقل کر کے لکھتا رہا مگر جب قلم رام ہو ا تو وہ خو د سے بھی کچھ کچھ لکھنے لگا ۔ مو سم بہا ر تک وہ لکھنے اور پڑ ھنے کے قا بل ہو چکا تھا۔
اس دوران ملا تر اب ایک با ر پھر سمر قند ہو آیا ۔ ہر چند کے وہ ملا ؤ ں سے ڈرتا تھا مگر پیر ک کے التما س پر تین اور الفا ط تر جمہ کے سا تھ لا یا ۔وہ الفا ظ یہ تھے :
’’سنیگ ۔بر ف ،داژد۔با رش ،دوشہ ۔جا ن ‘‘
پیر ک ملا تر اب کے لکھے ہو ئے الفا ظ کو خو د اپنے ہا تھ سے لکھ لا یا ۔ اس نے مجھ سے درخواست کی کہ انہیں بھی ’’نصا ب الصبیا ن ‘‘ کی طر ح شعر ی صورت دوں ، میں نے غو ر کیا اور کسی دشواری کے بغیر ان تین الفا ظ جو بھی ایک مصر ع بنا دیا ۔بس ’’بر ف ‘‘ لفظ کے بعد ’’او ‘‘لگا دیا ۔ میں نے اس مصر ع کو پیر کے کتا بچہ ’’نصا ب الصبیان‘‘ میں لکھ دیا اور اسے پڑھا ۔
’’سنیگ ۔ برف او دوشہ ۔ جان ،داژد۔با رش ‘‘۔پیر ک نے درخو است کی کہ اس کے ’’نصا ب الصبیان میں اس مصر ع کو بھی پچھلے مصر ع کے سا تھ ہم قا فیہ بنا کر لکھوں ۔
میں نے دونو ں مصر عوں کو اکٹھا لکھا:
’’لید ینہ ۔بر ف ،چہ سی ۔گھنٹۃ ،خیلیب ،نا ن ‘
’’سنیگ ۔بر ف ودوشہ ۔جا ن۔داژد۔با ران ‘‘
ان مصرعو ں کو سن کر پیر ک پہ ہیجا ن کی صورت طا ری ہو گئی اور وہ مسر ت سے اپنی جگہ سے اچھلا اور نا چنا شروع کر دیا ۔میں حیر ان ہو ا ۔ وہ اپنے بدن کے اعضاء کو مو سیقی کی سی ہم آہنگی میں بہت ہی متوازن اند از میں ہلا تا اور اس نے ہا تھو ں کے دونو ں پنجے انگلیوں سے با ہم پیو ست کر کے بہت ہی ہم آہنگ میں اپنے بد ن کی شکن شکن کو لرزاں رکھا ۔
میں نے اس طر ح کا رقص اپنی عمر میں ایک با ر دیہا ت میں دیکھا تھا۔اس وقت ہما رے ہا ں سا زند وں کا ایک دستہ پڑوسی غجدوان سے آیا تھا۔ان میں تا جی خا ن نا می رقص بھی تھا ۔اس نے ایسا رقص کیا کہ اس کی ہر رقص کے بعد تما ش بین’’شا با ش ،زند ہ با ش ۔آفرین‘‘ کے نعر ے لگاتے۔مگر تا جی خا ن تو ایک پیشہ وررقاص تھااور ہنر مند استا دوں کی مو سیقی میں رقص کر تا تھا۔پیر ک کے رقص میں حیرت انگیزی یہ تھی کہ وہ بغیر کسی استا د کے اور بغیر کسی مو سیقی کے اسی تا جی خا ن کی طر ح بہت متوازن،خو بصورت اور ہم آہنگ تھی ۔
رقص کر نے کے بعد پیر ک میر ے بر ابر میں آکر بیٹھا اور اپنے ’’نصا ب الصبیا ن ‘‘میں میر ے شعر کی تعر یف کی ۔میں نے بھی اس کے نا دررقص کی بہت تحسین کی اور اس سے پو چھا کہ اس نے یہ خو بصورت رقص سیکھی کہا ں سے؟ ۔اس نے جو اب دیا ۔
’’ہما رے مد رسے میں ملا حا مد صوتی ہے ۔وہ بھی تمہا ری طر ح غجد ون کا رہنے والا ہے۔ میر ے بھا ئی کا دوست ہے۔کبھی کبھی تعطیل کی راتو ں کو جب اس کے پا س کو ئی مہما ن نہیں ہو تا تووہ زین الد ین خو اجہ کے سا تھ بھا ئی سے ملنے آجا تے ہیں ۔ملا حا مد بہت خو بصورت غزل خو اں ہے ۔وہ ایک پراتھ ( تھا لی ) پہ خو بصورت تھا پ بھی دیتا ہے اور غزل بھی گا تا ہے ۔اس مو سیقی اور غزل خو انی میں ایک رقا ص بھی لا زمی ہو جا تا ہے۔اس وجہ سے اس نے مجھے رقص کر نا سکھا یا ‘‘۔
ایک لمحہ کے وقفہ کے بعد وہ پھر بو لا ’’اب جب ملا حا مد میر ے بھا ئی کے حجر ے آئے گا،میں تمہیں خبر کر و ں گا ۔ آجا نا ،اس کی غزل خو انی اور میر ے رقص کا تما شا کرنا‘‘۔
میں نے ہا ں کر دی اور وعد ہ کیا کہ شبِ معلو م ضر ور آؤ ں گا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*