کورا کاغذ! ۔۔۔ (“آصف فرخی“ کے لیے)

وہ جو کورا کاغذ میز پر

پڑا ہوا ہے

اس کاغذ پر

اْس کو کچھ لکھنا تھا

کیا لکھنا تھا؟

کوئی نام

گام

یا کوئی کام

نام کبھی جو لے نہیں پاتے

لیکن اْس کا پہلا حرف لکھ لیتے ہیں!۔

یا وہ گام

جو ہم سے کبھی کا چھوٹ گیا

وہ گلیاں اور چوراہے

گاہے گاہے یاد آتے ہیں!۔

اور وہ لوگ

جنھیں ہم شہر کی بھول بھلیوں میں

بھول نہ پائے

سیدھے سادھے سے

بھولے بھالے سے۔۔!۔

اور وہ کام

ابھی جو کرنے تھے

اور ابھی جو سوچوں میں تھے

اور کبھی جو سوچوں میں آنے تھے!۔

سارے کام اْس کے جانے سے

دھرے کے دھرے رہ گئے!۔

اور وہ نام

کبھی جو لکھ نہ سکا

کس کا تھا؟

اْس کا پہلا حرف

کبھی جو لکھ نہ سکا

کیا تھا؟

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*