محبوب خزاں

ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے

لکھنے والوں کے لئے محبوب خزاں نے کیا پتے کی بات ایک شعر میں سمودی۔

میَں تمھیں کیسے بتاؤں کیا کہو
کم کہو، اچھا کہو، اپنا کہو

استاد محبوب خزاں کی شخصیت خوب تھی، وہ مشاعروں کے شاعر نہ تھے۔ ان کا ایک ہی مختصر سا مجموعہ ہے،، اکیلی بستیاں،،۔ صرف اسی صفحات کا، شاید احمد ہمیش ضد نہ کرتے تو یہ اردو شاعری محبوب خزاں کی خوبصورت نظموں، گیت، اور غزلوں سے تہی داماں رہ جاتی۔ ان کی شاعری جذب و جنوں اور واردات قلبی کا حاصل ہے۔ ان کے ایک اور مجموعہ ”دوسری محبت “ آج تک شائع نہ ہوسکا۔ جانے ان کا یہ کلام محفوظ ہے یا نہیں۔

محبوب خزاں کے کئی اشعار تو ایسے ہیں جو برسہا برس سے زباں زد عام ہیں:

حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
زیر لب آہ بھی محال ہوئی
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں

ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
کہتا ہے چپکے سے کون
جینا وعدہ خلافی ہے

محبوب خزاں کا اصل نام محبوب صدیقی تھا (پیدائش یکم جولائی1930۔ وفات چار دسمبر2013)۔ وہ کئی برس اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن میں ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی حیثیت سے تعینات رہے۔ مشاعرے اور کرکٹ سے انھیں بہت رغبت تھی۔ ایک د ن کرکٹ کھلاڑی قاسم عمر کے اعزاز میں پی سی میں ایک تقریب تھی۔ ان کا فون آیا کہ مجھے اس تقریب میں شرکت کے لئے دعوت نامہ چاہیئے۔ منتظمین سے رابطہ کیا تو پتہ چلا دعوت نامے ختم ہوچکے۔ لیکن اگر وہ شرکت کرنا چاہیں تو آجائیں، ہم ان کا خیرمقدم کریں گے۔ شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ سلیم الدین صدیقی نے انھیں یہ اطلاع دی اور کہا کہ ہمارے افسر آپ کو تقریب میں لے جائیں گے۔ تو انھوں نے سلیم صاحب سے پوچھا کہ اس افسر کا عہدہ کیا ہے؟ بہت رکھ رکھاؤ اور لئے دیئے رہنے والے تھے۔

تنہائی پسند تھے۔ مشاعروں کا بہت شوق تھا، پڑھنے کے لئے نہ جاتے تھے، صرف سننے کے لئے جاتے اور خاموشی سے عام سامعین میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ ایک بار پانچ ستارہ ہوٹل میں ایک عالمی مشاعرہ تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، استاد محبوب خزاں وہاں آئے تو کوئی سیٹ خالی نہ تھی، وہ ایک کونے میں کھڑے ہوکر مشاعرہ سننے لگے۔ وہ 1952 میں سول سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) افسر ہوئے۔ اکاونٹیٹ جنرل پنجاب تعینات ہوئے۔30 جون 1990 کو اکاونٹینٹ جنرل سندھ کے عہدے سے رٹائرڈ ہوئے۔اپنے حال میں مست رہتے تھے۔ محبوب صاحب کا تعلق اتر پردیش کے ضلع بلیہ کے موضع چندھیر کے ایک معزز گھرانے سے تھا۔ 12 برس کی عمر میں ان کے والد انتقال کر گئے، تعلیم و تربیت بڑے بھائی محمد ایوب صدیقی نے کی۔ وہ الٰہ آباد یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے۔ قیام پاکستان کے اگلے برس وہ پاکستان آگئے۔ سول سروس میں ان کی پہلی تقرری لاہور میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے ہوئی، پھر ڈھاکہ بھیج دیئے گئے۔ تہران میں بھی رہے، وہیں ان کی ملاقات نون میم راشد سے ہوئی اور خاصی قربت رہی۔ ایک دن ہمارے آنجہانی ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر جی ایم پریرا کے گھر جانا ہوا، وہاں استاد محبوب خزاں بھی موجود تھے۔ اس دن کوئی کرکٹ میچ تھا اور وہ وہاں یہ میچ دیکھنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ان دنوں وہ رٹائرڈ ہوچکے تھے۔ ان کے پاس ایک تھیلا تھا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے تھیلا کھولا، اس میں سے ایک پیالی، ایک ٹی بیگ، دودھ، چینی کی پڑیاں نکالی، اور پریرا صاحب سے کہنے لگے،” مسٹر پریرا بس مجھے ایک پیالی گرم پانی دے دو،“ پریرا کہنے لگے سر یہ آپ کیا کر رہے ہیں، کیا ہم آپ کو ایک پیالی چائے بھی نہیں پلا سکتے۔ کہنے لگے ”بھئی میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں صرف میچ دیکھنے آؤں گا۔ باقی میں اپنا انتظام کرکے آیا ہوں“۔

وہ بہت کم گوتھے۔ مطالعے سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ اکثر ان کے ہاتھ میں کتاب ہوتی۔ ان کا ایک شعر ہے:

اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو
محبوب خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے

سر شام گھر جانا، واقعی ان کے لئے مشکل تھا۔ اور اس وقت تو اور بھی مشکل ہوتا جب ان کے اکاونٹ میں تنخواہ آجاتی۔ جی ایم پریرا ان کے ساتھ جنرل منیجر بجٹ و اکاونٹس تھے۔ مہینے میں ایک دو بار انھیں اچانک فون آتا، پریرا آج تمھیں میرے ساتھ جانا ہے۔ شام کو گاڑی میں بیٹھ کر وہ لائینز ایریا اور دیگر نواحی بستیوں میں جاتے، گاڑی آبادی سے دور رکوا کر تھیلا لے کر اکیلے نکل جاتے، اس تھیلے میں بہت سے لفافے ہوتے، جو نوٹ سے بھرے ہوتے۔ پھر وہ یہ لفافے جانے کس کس کو دے کر آتے۔ تھیلا خالی ہوجاتا۔ تو کہتے” بس اب بوجھ اتر گیا“۔

ان کی ایک مشہورغزل ہے:

چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم
شاید اسی لیے ہے گلہ کم بہت ہی کم
تھے دوسرے بھی تیری محبت کے آس پاس
دل کو مگر سکون ملا، کم، بہت ہی کم

شعری مجموعے ”اکیلی بستیاں“ میں ان کی شہرہ آفاق نظم ایک زندہ جاوید نظم ہے۔ اس نظم کا ڈھنگ اوراسلوب اور غنائیت عجب سحر طاری کر دیتی ہے۔

بے کس چمبیلی، پھولے اکیلی،
آہیں بھری دل جلی بھوری پہاڑی،
خاکی فصلیں، دھانی کبھی سانولی
جنگل میں رستے، رستوں میں پتھر،
پتھر پہ نیلم پری لہریلی سڑکیں۔

محبت، آنکھیں، موسم، حسن، ان کی شاعری کے خاص موضوعات تھے۔ شاید محبت کا دکھ ان کی زندگی پر محیط ہوکر رہ گیا تھا۔ زندگی بھر شادی نہ کی۔ والدہ سے محبت تھی، جب تک زندگی رہی ان کے لئے ہی جیتے رہے۔ کم گو تھے، لیکن کبھی بولنے پر آتے تو خوب بولتے۔ ادبی محفلوں کا شوق نہ تھا۔ کبھی کبھار دو چار خاص دوستوں ہی میں اپنی ایک آدھ غزل یا شعر سناتے۔ سرکاری خرچ میں بھی کفایت شعاری سے کام لیتے۔ زر،زمین، زن سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔

ان کے آخری ایام بھی درویشی کے تھے۔ ہاتھ میں کپڑے کا ایک تھیلا ہی ان کی کل کائنات ہوتی جس میں کچھ پھل یا بسکٹ ہوتے۔ عام بسوں میں سفر کرتے۔ لباس بھی معمولی ہی ہوتا۔ کوئی مشکل ہی سے پہچان پاتا کہ بس کا یہ مسافر، بے بدل شاعر ہونے کے ساتھ اعلیٰ سرکاری افسر اور اکاونٹینٹ جنرل سندھ کے عہدے پر فائز رہ چکا ہے۔

استاد محبوب خزاں کراچی میں ہی پیوند خاک ہوئے۔ ان کا ایک مصرعہ ہے: جو لوگ مر نہیں جاتے وہ زندہ رہتے ہیں۔

ان کے کچھ منتخب اشعار یہ ہیں۔

یہ دلنواز اداسی، بھری بھری پلکیں
ارے، ان آنکھوں میں کیا ہے، سنو، دکھاو مجھے

دام ہزاروں دل کے لئے
کون چلا منزل کے لئے
دل لے کر اب جائیں کہاں
دنیا چھوڑی دل کے لئے

یہ جو ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں رات کو
رات کیا سمجھ سکے ان معاملات کو
آنکھ جب اٹھے بھر آئے، شعر اب کہا نہ جائے
کیسے بھول جائیے، بھولنے کی بات کو
اے بہارِ سرگراں! تو خزاں نصیب ہے
اور ہم ترس گئے تیرے التفات کو

سکوں پیام اداوں کو مہرباں دیکھو
سمجھ گئے تو کوئی اور آستاں دیکھو
وہی قیامتِ احساس ہے، جدھر جاو
وہی حکایتِ لبریز ہے، جہاں دیکھو
یہ زندگی ہے تمہاری، اگر خرید سکو
نہیں تو خیر، وہی راہِ رفتگاں دیکھو

پلکوں پر حسرت کی گھٹائیں، ہم بھی پاگل تم بھی
جی نہ سکیں اور مرتے جائیں، ہم بھی پاگل تم بھی
خواب میں جیسے جان چھڑا کر بھاگ نہ سکنے والے
بھاگیں اور وہیں رہ جائیں، ہم بھی پاگل تم بھی

پھر وہی انتظار کی زنجیر
رات آئی، دیے جلانے لگے
حال، احوال کیا سنائیں تمہیں
سب ارادے گئے، ٹھکانے لگے

محبت کو گلے کا ہار بھی کرتے نہیں بنتا
کچھ ایسی بات ہے، انکار بھی کرتے نہیں بنتا
بھنور سے جی بھی گھبراتا ہے، لیکن کیا کیا جائے
طوافِ موجِ کم رفتار بھی کرتے نہیں بنتا
اسی دل کو بھری دنیا کے جھگڑے جھیلنے ٹھہرے
یہی دل جس کو دنیا دار بھی کرتے بھی نہیں بنتا
دنیا کے روگ جھیلئے کمرے میں بیٹھ کر
کھڑکی کے پاس جائیے، حسرت خریدئیے

جنوں سے کھیلتے ہیں، آگہی سے کھیلتے ہیں
یہاں تو اہلِ سخن آدمی سے کھیلتے ہیں
تمام عمر یہ افسردگانِ محفلِ گل
کلی کو چھیڑتے ہیں، بے کلی سے کھیلتے ہیں
جو کھیل جانتے ہیں ا±ن کے اور ہیں انداز
بڑے سکون، بڑی سادگی سے کھیلتے ہیں
خزاں کبھی تو لکھو ایک اس طرح کی غزل
کہ جیسے راہ میں بچے خوشی سے کھیلتے ہیں

تم بہت دور ہو، ہم بھی کوئی نزدیک نہیں
دل کا کیا ٹھیک ہے، کم بخت ٹھہر جائے کہاں
رخِ صحرا ہے خزاں گھر کی طرف مدت سے
ہم جو صحرا کی طرف جائیں تو گھر جائے کہاں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*