چگھا بزدار۔۔ ایک بڑا شاعر

شاعری صرف جملوں کے نثری ترکیب کو بدلنے کا نام نہیں بلکہ شاعری تب شاعری ہے جب اسکے اندر سے ایک مقصد ایک فکر ہمہ وقت روشنی کے کرنوں کی طرح چھن چھن کر باہر آرہی ہو یا نسیم سحری کی طرح معطر اور دھیمی خوشبو سے احساسات کو اپنی طرف مائل کررہی ہو. تو آپ کہہ سکیں گے کہ یہ ہے وہ فن جو مجھ میں نہیں ہے اور اس انسان کے اندر موجود ہے اور وہ میرے دل کی بات ایک ایسے اسلوب سے بیان کررہا ہے.جو میرے بس کی بات نہیں. یقیناً شاعری میں بہت کچھ لکھا بھی گیا اور شاید بہت کچھ لکھنا ابھی باقی ہے مگر شاعروں نے جس چیز کو سب سے زیادہ موضوع سخن بنایا وہ صنف نازک ہی ہے. شاید کو ئی شاعر ہو جس نے کاکل و رخسار کی باتیں نہ کی ہوں. جس نے گل و بلبل کے ترانوں کا تذکرہ نہ کیا ہو ننانوے فیصد شعراء نے یہی کچھ کیا مگر اس میدان میں کچھ شہسوار ایسے بھی تھے جن کی منزل جدا تھی جہنوں نے خود آگاہی خود شناسی اور خود اختیاری کی بات کی جنہوں نے معاشرے کے رواج و روایات کو توڑ کرایک نئے میدان میں قدم رکھا اور پھر جتنی رکاوٹیں آئیں انکی پرواہ کئے بغیر اپنا سفر جاری رکھا انکو معلوم تھا کہ ہماری منزل کہاں ہے ہم کس مقصد کی خاطر میدان عمل میں ہیں. انہی لوگوں میں ایک شاعر(علی حان) المعروف علی محمد چگھا بزدار تھے جب وہ شعوری زندگی کے دہلیز پہ پہنچے تو معاشرہ صرف مذہبی اور ذہنی غلامی جکڑا ہوا نہ تھا بلکہ غلامی کی جتنی شکلیں ہوسکتی ہیں یا ان سب میں قید تھا. ان تمام کا سب سے زیادہ اثر خود اسکی ذات پہ تھا کہ جس کی ملکیت میں ایک کمرہ یاچھونپڑی تک نہ تھا خود ان کو رزق کی تلاش میں پرندوں کی طرح نکلنا پڑتا تھا. زندگی کے طویل عرصے تک لوگوں کی بکریا صرف دو وقت کی روٹی اور ایک لوئی سالانہ پہ چراتا رہا ان کے ارد گرد ظلم و جبر کے فلک بوس مینار تھے اور ہر قدم پہ ایک مظلوم اس جبر کی پرستش کے لیے سربسجود تھا. اس حال میں چگھا بزدار نے یہ طے کرلیا کہ میں خاموش نہیں رہوں گا وہ اپنی شاعری کے تلوارِ بے نیام کے ساتھ میدانِ کار زار میں اترا اور اس کی پہلی پکار یہ تھی.
راست گشاں ڈیری سرے
مئیں بانگوا مالا جنے
میں پہاڑ کی چوٹی پہ چڑھ کر ببانگ دہل سچ کہتا رہوں گا جسے برا لگے اسے اذن عام ہے کہ جو نقصان مجھے پہنچا سکتا ہے پہنچائے. یہ وہ پہلی صدا تھی جس نے چگھا بزدار کے لیے زمین تنگ کردی مجلس و محافل میں تذکرے ہونے لگے کہ ایک چرواہا اب تیغ برہنہ بن کر سامنے ہے اور پورے سسٹم کو چیلنج کررہا ہے آخر کیا کیا جائے.انکو بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کے طریقے اپنائے گئے کہیں سے چوری کا الزام لگا کہیں سے کسی کے گھر جلانے کا کیس اسکے خلاف رجسٹر ہوا عدالتیں تھیں پیشیاں تھیں گواہ تھے اور چگھا بزدار کے پاس اپنے سچے مشن کے سوا اپنی صفائی کے لیے پیش کرنے کو کچھ نہ تھا نہ ان سے صفائی طلب کی گئ تھی نہ انکو موقع دینے کے حق میں کوئی تھا
سردار جاگیردار جابر و ظالم سب شاداں و خندان تھے کہ اسکو سزا مل رہی ہے مگر جونہی زنداں سے نکلتا بے دھڑک اپنی ڈیوٹی میں لگ جاتا تھا اور لوگوں کو جہاں بھی جمع دیکھتا جاکر اپنا کلام سناتا.
کہتا تھا.
حالاں خلافیں کندغئے
گوش اشکنت چم گندغئے
کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے تمہیں اسکی خبر نہیں تم انکے کہنے پہ مجھ پہ ہنس رہے ہو مگر وہ دن دور نہیں جسے میں دیکھ رہا ہوں تمہیں بھی نظر آئے گا اور سب کچھ واضح ہو جائے گا جس کے لیے میں خبردار کررہا ہوں.
جابر کے سامنے کہتا تھا.
ھون انت سینکھیا راجانی
پچغ مشکلیں زہرانی
اوڑیں فراموش ثؤ فکر گہرانی
سن لو رعایا کا مال سینکھیا کے زہر کی مانند ہے جو بھی کھائے اسکا بچنا محال ہے اس سے ہر شخص گریزاں ہے سوائے اسکے جس کا روز جزا کے عدل وحساب پہ ایمان نہ ہو.
جاگیردار اور سرداروں کے متعلق وہ لوگوں سے کہتا تھا
اے کل ہنگیں کوکروں بے ھؤریں
اے وہشانی بنند کل سوریں
ایشاں پنجی ئے سرا آجوریں

کہ ان کی جو آن بان تمہیں نظر آرہی ہے یہ ان سفید بادلوں کی مانند ہیں جو دکھنے میں کافی اجلے اور خوبصورت ہیں مگر ان میں پانی کی ایک بوند بھی نہیں یہ تمام لوگ جو اپنے آپ کو خاندانی وضع دار دکھاتے ہیں یہ بنیادی طور پر سب انسانیت کے لیے آب شور کی طرح مضر ہیں انکا مطمع صرف مال ہے یہ مردار خور گدھ اور درندوں کی مانند ہیں.
چگھا بزدار کہتا تھا کہ ان سرداروں اور جاگیرداروں کو تمہاری بہو بیٹیاں کے بیچنے کا خیال دیر سے آیا ہے
ونڑج لجانی دیرھا دز کپتؤ وپار

اے سردارو ظالمو آپ نے غرباء کا باقی تو سب کچھ ہڑپ کیا اب انکی بچیوں کو منڈیوں میں بیچنے کا وپار شروع کرنے جارہے ہو.
کہا کرتے تھے کہ ہم پہ وہ وقت ہے

آتکہ تیراں شکاری نشتغیں باز مں سرے

کہ نیچے شکاری تیر کا نشانہ لیے ہوئے ہے اور اوپر سے باز جھپٹنے کو منڈلا رہا ہے
کاش اب کہیں سے کوئی سانپ کی شکل میں مدد کو آجاتا.
اکثر کہا کرتے تھے
پھترا نندوں ستھلاں دیما نہ جناں
مرشی ڈیہہ جنانی غیں عاجزیں ماھوراں گشاں

اے میری قوم تم اپنی غیرت انا سب کچھ خود دفن کرکے اب اس مرحوم کے تعزیتی مجلس میں بیٹھے ہو اور تمہاری عورتیں اس بربادی پہ نوحہ کررہی ہیں.
وہ اکثر بچوں اور نوجوانوں کو جمع کرکے اپنا کلام سنایا کرتے تھے اور مانتے تھے کہ میں بڑی عمر کے لوگوں سے مایوس ہوں اور میری امیدیں تم سے وابستہ ہیں وہ تعلیم کے اتنے دلدادہ تھے کہ بار بار اپنے ان پڑھ ہونے کا تذکرہ ایک غمگیں پیرائے میں کیا کرتے تھے. ابدال کا لفظ. بلوچی میں پاگل کے لیے بولا جاتا ہے مگر چگھا بزدار ان پڑھ کو بھی ابدال کہتے تھے. مطلب یہ کہ جو ان پرھ ہے اس سے بڑا پاگل کون ہے. وہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرتے جارہے تھے ان کے اس بے باکانہ رویے کی وجہ سے انکو کئ مرتبہ قید میں ڈالا گیا. بعض دفعہ مجلسوں میں انکی کردار کشی کے لیےلوگوں کو تعینات کیا جاتا اور انہیں معاوضے دئے جاتے. عدالت میں انکے خلاف جھوٹے گواہ پیش کئے جاتے اور وہی گواہ عام محافل میں چگھا بزدار کے متعلق کہتے تھے وہ ایک خالص انسان ہیں. ایک دو مرتبہ انکو قبائلی سسٹم میں سردار نے قبیلہ بدر کیا مگر آخری عمر تک ایک قدم بھی اپنے مؤقف سے پسپا نہ ہوئے. زندگی کے اخری ایام میں بھی لوگوں کو یہی نصحت کی کہ جب تک جبر سے نجات نہیں زندگی بے مقصد ہے اور زندگی صرف خورد و نوش اور بقائے نسل کا نام نہیں بلکہ زندگی ایک جہد مسلسل ہے ایک جنگ جو ازل سے آج تک حق و ناحق کے درمیان جاری ہے اور اگر تم سست پڑجاؤ گے تو تمہاری نسلیں تمہیں معاف نہیں کریں گی.
اور کہا کرتے تھے
خلق وث زانی وثیغا تؤ وثی سما برئے
دنیا والے جانیں انکا کام جانے جو تیرے ذمے ہے تو وہ کرکے جا
کافی مطمئن تھے کہ میں دنیا میں بھی سرخرو ہوں اور اللہ کے حضور بھی سرخرو ہوں کہ میں نے اپنی بساط کے مطابق اپنا حق ادا کیا.
اس میں کوئی دو رائے نہیں بلکہ یقینی بات ہے کہ پوری بلوچ تاریخ میں ان سے اچھا مذاحمتی شاعر نہیں گذرا اور گذشتہ صدی میں پورے برصغیر میں انکے پائے کا شاعر نہ تھا.
مجھے یہ کہنے میں بالکل کوئی تامل نہیں کہ چگھا بزدار عزم و ہمت کے پہاڑ اور
مزاحمت کے بلند مینار تھے اب بلوچوں کا حق ہے کہ انکی شاعری پہ کام کیا جائے تاکہ انکا پیغام عام ہوسکے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*