نئی پیدائش

مرا تمام تر وجود ایک اداس مصرع ہے
جو تمہیں سحر ہونے تک دہراتا رہتا ہے
ایک ایسا پھول جو تازگی سمیت پھیلتا جاتا ہے
میں نے ایک آہ بھر کر تمہیں نظم میں ڈھال لیا
اور پانی ، آگ اور درختوں میں پیوند کر دیا

شاید زندگی اک طویل راستہ ہے
جسے ایک عورت کٸی بوجھ اٹھاۓ روز طے کرتی ہے
شاید زندگی ایک رسی ہے
ایک مرد درخت پر ڈال کر جس سے پھندہ لے لیتا ہے
یا کوٸ بچہ ہے جو سکول سے واپس آرہا ہے

ممکن ہے زندگی سگریٹ سلگانے کے عمل کا نام ہو
محبت کرنے کے بے توجہ وقفوں کے دوران
یا کسی راہگیر کا محض خالی پن سے دیکھنا
اور اپنا ہیٹ اتار کر صبح بخیر کہہ دینا
ایک بے معنی مسکراہٹ کے ساتھ

شاید زندگی ایک گُھٹا ہوا لمحہ ہے
جب مری نظریں
تمہاری آنکھوں کی پتلیوں میں فنا ہو جاتی ہیں
میں اس احساس کو چاند پکڑنے اور تیرگی کو سمجھنے کے ساتھ ملا کر دیکھوں گی

ایک کمرہ جہاں تنہاٸ کا حجم
میرے دل میں موجود محبت کے حجم جتنا ہے
زندگی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے بہانے ڈھونڈتی ہے
کہ ایک خوبصورت گلدان میں مرجھاتے ہوۓ پھول کیسے ہوتے ہیں
وہ شاخ جو تم نے ہمارے باغ میں اگاٸ تھی
اور بلبل کا نغمہ۔۔۔۔۔۔۔۔کھڑکی کی وسعت

مرے دکھوں کا یہی اثاثہ ہے
یہی اثاثہ
جو ایک آسمان پر مشتمل ہے جسے غاٸب کیا جا سکتا ہے
صرف ایک پردہ گرا دینے سے
مرے اثاثے میں نیچے کو جاتا ہوا ایک اداس تنہا زینہ ہے
جہاں کوٸ چیز اپنی جلا وطنی میں گل سڑ اور بکھر رہی ہے
مرا اثاثہ یادوں کے جھنڈ میں ایک چہل قدمی ہے
اور ایک خواہش اس آواز کی
جو کہتی ہو مجھے تمہارے ہاتھوں سے پیار ہے

میں اپنے ہاتھ باغ کی مٹی میں بو دیتی ہوں
مجھے معلوم ہے
مری ہتھیلیوں کے روشناٸ زدہ خالی پن میں
ابابیلیں اپنے گھونسلے بناٸیں گی

میں اپنے کانوں میں چیری کی شاخیں سجاٶں گی
اپنے ناخنوں پر ڈالیا کی پتیوں کو پہنوں گی
اس گلی کی یاد میں جہاں مجھ سے محبت کرنے والے لڑکے
اپنے بکھرے بالوں،پتلی گردنوں اور منحنی ٹانگوں کے ساتھ موجود ہیں
ایک لڑکی کی مسکراہٹ میں گم
جسے ایک رات ہوا اڑا کر لے گٸی

ایک گلی ہے جو میرے دل نے چرا کر خود میں رکھ لی ہے
میرے بچپن کے راستوں سے
ایک جسم وقت کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے
جو اس کی باہنجھ رو کو سر سبز کر دیتا ہے
اور آٸینے کا لطف بڑھانے آجاتا ہے
اپنے عکس کی قربت میں سرشار
اسطرح ایک مر جاتا ہےاور دوسرا زندہ رہتا ہے

کسی متلاشی کو اس ندی کے موتی نہیں ملیں گے
جو کھاٸ میں جا گرتی ہے
میں ایک ایسی اداس پری کو جانتی ہوں
جو سمندر میں رہتی ہے
اور لکڑی کی بانسری پر مدھر گیت سناتی ہے
بہت مدھرتا سے
ایک اداس چھوٹی سی پری جو رات کو ایک بوسے سے مر جاتی ہے
اور سحر دم ایک بوسے سے پھر پیدا ہو جاتی ہے

بشکریہ مصباح نوید

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*