سمو کا حسن

زِ عشقِ آں رخِ خوبِ تو اے اصولِ مراد
ہر آں کہ تو بہ کند تو بہ اش قبول مباد

حُسن کیا ہے؟ میں نے کہاں کہاں نہیں کھو جا۔ کتابوں، لغاتوں، انسائیکلو پیڈیاؤں اور ویب سائٹوں میں۔ کوئی تشفی بھری تعریف مجھے نہیں مل سکی۔ ہر ایک کا اپنا اپنا تصور، اپنا اپنا بیان۔کبھی کبھی لگتا ہے کہ حسن کو بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ میں نے جس بھی محب و عاشق کو سنا پڑھا وہ حسن کی اپنی تعریف وو ضاحت لیے نظر آیا ۔ ہر qualitativeمظہر کی طرح حسن کے بارے میں بھی کوئی مشترک و متفق فقرہ سامنے نہ آیا۔
حسن کیا ہے،کبھی آپ نے سوچا؟۔ مگر یہ شاید کوئی اکیڈمک معاملہ ہو ہی نا !۔یہ لازمی نہیں ہے کہ عاشق حسن ہی دیکھ کر عاشق ہوجاتا ہو۔
حسن کے بارے میں تصور کبھی بھی یکساں نہ رہا۔ یہ بدلتا رہا ہے، تہذیبی اقدار کے ساتھ ساتھ ۔ شاید ایک آدھ چیز جو مشترک رہی ہیں اُن میں جوانی ، بے جھریوں والی جلد، متناسب و سڈول جسم شامل ہیں۔ ایک معاشرے میں دراصل ’’ جسمانی دلکشی‘‘ہی حسن کے مترادف لفظ کے بطور مانا جاتا ہے۔ اس جسمانی دلکشی میں شخصیت ، عقلمندی،وقار، کرشمہ، سا لمیت،متناسبیت اور لطافت اور خارجی حسن آتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیشہ اوسط انسانوں ہی میں سے کوئی حسین یا حسینہ ہوتی ہے۔
جن لوگوں کو محبت ہوجاتی ہے وہ بات دوسری ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ محبت پہلے ہوجاتی ہے ،تاویلیں بعد کی ہوتی ہیں۔ حسن اور بے حُسنی کی کھوج بعد کی ہے، اُسے الفاظ وفن کے پوشاک پہنا نا بعد کی بات ہے ۔
مثلاًسمو مائی کے بارے میں روایت ہے کہ شاید وہ بہت زیادہ گوری نہیں تھی ۔ بلکہ وہ سوزارنگ اور سانولی تھی ۔اس کے باوجودسمو کے چہرے اور قد و قامت پر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی کشش و جاذبیت رکھی تھی کہ اس نے پاکوں سے پاک روح کو اپنی آنہی گرفت میں لے لیا اور جسے دیکھتے ہی مست جیسا حسن جا نچکارکا روح و جسم کلٹی ہوگیا۔ یہاں پر ہم محمد سراج مسوری بگٹی کا تحریرکردہ ایک قصہ نقل کرتے ہیں جو اس نے اپنے قبیلے کے بزرگوں سے سنا ہوا ہے۔
ایک دفعہ وڈیرہ علی ہان مری اپنے قبائلیوں کے ایک گھڑ سوار دستے کے ساتھ مری کے علاقے میں کہیں سے گزر رہا تھا ۔ مسوری کا ایک مقدم میر ہیبتان خان بگٹی بھی اُس کے ساتھ تھا ۔ وہ ایک بڑے تالاب کے قریب سے گزرے ۔ تو انہوں نے مریوں کی کئی خواتین کو پانی بھرنے کے لئے تالاب کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ۔ علی ہان نے ہیبتان سے کہا کہ مقدم! ان خواتین میں مست کی محبوبہ سمو بھی موجود ہے ۔ ہیبتان نے سمو کو ایک نظر دیکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔علی ہان نے کہا ہاں ہم اس کو بلاتے ہیں ،وہ آئے گی ۔ چنانچہ علی ہان نے ذرا آگے جا کر خواتین سے کہا ،’’ بہنو ! مائی سمو کو کہو کہ وہ ذرا ٹھہرے، ہیبتان مسوری اس کو دیکھنا چاہتا ہے ۔ چنانچہ سمو عورتوں کے گروہ سے نکل کر علی ہان اور ہیبتان کی جانب آ گئی ۔ اس نے ادا (بھائی) کہہ کر مقدمین کو خوش آمدید کہا اور دُراہی (مصافحہ) کر لیا ۔ پھر ان کی اور ان کے بال بچوں کی خیر خیریت پوچھ لی ۔ ہیبتان نے جواباً سمو کی خیر خیریت پوچھ لی ۔ اس کے بعد ہیبتان نے کہا ،’’گُہار (بہن ) میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے اور تکلیف دی کہ مست آپ کے حسن کی بہت تعریفیں کرتا ہے ۔ مجھے وڈیرہ نے بتایا کہ آپ ان خواتین میں موجود ہیں تو میں نے سوچا کہ آپ کو ایک نظر دیکھ لوں۔ سمو نے کہا ۔ادا ! مست زوراخے مناں اِکھریں صورت تہ نیستیں، مں ہمشاں کہ تئی چمانی دیمایاں ۔ (بھائی ! مست زورا ور ہے ، میں اس قدر خوبصورت تو نہیں ، میں تو یہی ہوں جو آپ کے سامنے ہوں)۔
’’ بقول ہیبتان مسوری سمو ایک درمیانے قد کی دلکش سوزا رنگ خاتون تھی ۔ زیادہ گوری اور سفید نہیں تھی ‘‘۔
سوچتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے کہ مست کی سمو، اور مجنوں کی لیلی گوری نہ تھیں۔ سوزارنگ کیوں تھیں۔ ہمارے مشرق کے عشاق لوگ سوزا رنگ پسند کرتے رہے ہیں کیا؟ ۔
اور، کیا یہ مشہور فقرہ ہی در ست ہے کہ’’ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے ‘‘؟۔
حسن کیا ہے،شاید ہم نہ بتا سکیں ۔البتہ یہ تو یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ کیا کیا کر سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا مظہر ہے جو فوراً ہی جذبے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ حسن کی نشانی یہ ہے کہ یہ تلاش کرنے سے نہیں، بلکہ بس اچانک مل جاتا ہے ۔اور پھرراہنما بن جاتا ہے ۔ایک ایسانور جو ہمیں باطل کی ظلمتوں میں بھٹکنے نہیں دیتا ۔ کیف ہے پرخمار۔ دل ہے سلگتا ہوا ، روح ہے تڑپتی ہوئی ۔۔۔۔ نظر آتا ہے آنکھوں کے بغیر بھی ، سنائی دیتا ہے کانوں کے بغیر بھی ۔۔۔۔ ابدی کھلا گلستان ہے ، گاتے کلیلیں کرتے دائمی پروازکرتے ہیروں کا ڈار ہے ۔ حسن کی اپنی ایک نورانگی ہے۔ حسینہ کے چہرے پہ نقاب ہو نہ ہو مگر حسن کے چہرے پہ کوئی نقاب نہیں ہوتا۔حسن ہدایت ہے ، ہدایت نامہ اور ہدایت کار ہے۔ حسن کو بقا ہے دوام ہے، اسے کبھی موت نہیں آتی۔ حسن ابدی ، حسن ابدیت۔کبھی کبھی اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ منظر یعنی چہرہ، اوزار یعنی دیکھنے والے کی آنکھ اور میٹر یعنی دیکھنے والے کا دماغ، اِن تینوں میں فیصلہ کن کونسا ہے ؟۔ شاید تینوں۔ثبینہ رفعت کے بقول:
چہرہ کیسا بھی ہو
اس کو
گھنٹوں دیکھا جا سکتا ہے
سو ، جاناں
شرط محبت ٹھہری
حسن نہیں
حسن کا بیانیہ بہت سی جہتیں، بہت سی صورتیں رکھتا ہے ۔ اب تو لگتا ہے سب چیزیں بدل کر رہ گئی ہیں۔ ا ب حسن ایک کوالی ٹیٹو مظہر نہیں رہا بلکہ اِس کو کوانٹی ٹیٹو بنایا جارہا ہے۔ پتہ نہیں حسن ناپنے کے لئے کیا کیا او زان و پیمائش وضع کئے گئے ہیں ۔کہتے ہیں کہ نام نہاد ماہرین، ٹخنوں کو تولتے ہیں ، پنڈلیوں کی نظریاتی سرحدیں ناپتے ہیں ، رانوں کا الٹرا ساؤنڈ کرتے ہیں ، کولہوں کے بھنور دیکھتے ہیں ، بانہوں کا درجہ حرارت ناپتے ہیں ، ہونٹوں کی پٹوار گری کرتے ہیں ، رخساروں کو اعشاری نظام میں دیکھتے ہیں ۔۔۔ اور اس طرح کسی کو ملکہِ حسن قرار دیتے ہیں ۔لعنت ہے ان پہ۔ حسن کی بے حرمتی ہے یہ ، حسن ہی اُن سے نمٹ لے گا ۔
سرمایہ دار دنیا نہ معلوم اپنے ملکہِ حسن کے مقابلوں میں کیا تولتی ہے؟ ۔ارے گز تو کپڑا ناپنے کے لئے ہوتا ہے ، لٹر پیٹرول ناپنے کے لئے ۔ مگر،حسن کو ناپنا؟۔۔۔لعنت ہے ناپ تول پہ ۔ لعنت ہے سرمایہ داری نظام پہ ۔
حسن کیا ہے ؟ یہ تو ایک ضرورت ہے ، ایک مظہر ہے ،ایک وصف ہے ، ایک کیف ہے ۔ہمارا خیال یہ ہے کہ حسن وہی جسے محبوب چن لے ۔اب کیا کیا جائے ۔ آپ کتابوں پہ کتابیں لکھ ماریے مگر ایک شخص یہ کہہ کر گویا آپ کی ساری علمیت کا نچوڑ نکال دے گا:
تونڑیں کہ بنّیں تافغاں پشّاں
سمّلئے دستانی نغن و ہشاں
خواہ پتھر کے بنے توے پرہی کیوں نہ پکی ہوں
روٹیاں لذیذ توسمو کے ہاتھوں کی پکی ہوتی ہیں
دوسرے لفظوں میں مست ایک اور بات کر رہاہے ،کہ آپ ساری دنیا کے ڈگری یافتہ حسن دانوں کو ان کی عریاں مشینوں میٹروں کے ساتھ بٹھا لیں ، مہینوں ان کے بے دماغ سر جوڑیں ، ہزار بے معنی تشریحات اورلاکھ بے بنیاد وضاحتیں سن لیں مگر حسن سمو ہے، بس !۔ حسن عاشق کے دل میں ہوتا ہے ۔عاشق کی حسینہ کچھ بھی کہے اچھا لگتا ہے، وہ کچھ بھی پہن لے اس پرجچتا ہے وگرنہ بلوچی فوک کے مطابق ، ململ اور جگمگ کرتا لباس تو ہر ایرے غیرے نے پہن رکھا ہوتا ہے۔
توپھر، حسن کا سب سے بڑا ’’جانچن ہار‘‘ کون ہے ۔ جنس زدہ ماہر؟ ،اُس کے بے مروت پلاسٹک کے آلات ؟، زرخرید میڈیا ؟، یا،بے شعور دانشور؟ ۔۔۔۔۔۔نہیں نہیں۔ حسن کا بیرو میٹر محض مخصوص آنکھ ہوتی ہے ۔ وہ آنکھ جو بہہ بہہ کر حسن کے حسین ہونے کی گواہی دے ۔اور وہ آنکھ صرف عاشق کی ہوسکتی ہے ۔ اُسی کی بات معتبر ، اُسی کا معیار بلند اور اُسی کا فیصلہ حتمی ۔(یاد ہے ساری دنیا نے کہا تھا سمو حسین نہیں ہے، ساری دنیا نے کہا تھا لیلیٰ حسین نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ مگر ہم آج تک سمو اور لیلی کے گیت گاتے ہیں ۔ ہم نے اس سلسلے میں صرف مست اور مجنون کا فیصلہ مانا ہے )۔
مگر ہاں، یہ ضروری ہے کہ جانچنے والا عاشق ہی ہو،سوداگرنہ ہو ۔کیونکہ اگر جانچنے والا سڑے ہوئے بدبودار دل والا ہو، اُس کی اپنی شخصیت اور رویہ گلا ہوا ہو تو پھر حسن تو ٹکے کی چیز بھی نہ ہوگی۔
حسن محبت ، حسن کشش، حسن جاذبیت،حسن وابستگی، حسن نزاکت، حسن تکریم، حسن بقائے باہم کا مبلغ ۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر مست توکلی سے بڑا حسن شناس بھلا اور کون ہو سکتا ہے کہ حسن ہی تو مست جیسے حکیموں ، داناؤں اور دانشوروں کا مذہب ہے ۔ مست ہی حسن کی الوھیت پہ ایمان لا سکتا ہے ۔ آئیے ، اس کی شاعری میں سے سمو کے حسن کی توصیف میں کہے گئے الفاظ چُن لیں:
’’سمو قوسِ قزح ہے جو خوب صورت بادلوں میں آن کھڑی ہوتی ہے ۔ بجلی کی چمک ہے جیسے ساون کے پانی بھرے بادل ہوں ۔بارش کے بعد کے منظر کی ہم شکل ہے اور بادِ سحر کی طرح خوش کن مہ لقا ہے ، سرحدوں کی مالکن، گھنی سنگین و ناگن جیسی زلفوں کی مالکن ہے۔ خوش قد ہے ،آہو گردن ہے ۔۔۔۔ چہرہ روشن چراغوں جیسا ، زلفیں بل کھاتے سانپوں کی طرح ، جنگلی آہوؤں کی طر ح نہ سدھائی ہوئی۔۔۔۔ تیز جیسے تیغِ برّاں۔۔۔۔ اس کے کاغذ جیسے باریک لب لُو کی طرح جلا ڈالتے ہیں ۔۔۔۔ اس کے سیپی جیسے دانت شورہ کی طرح پکا دیتے ہیں ۔۔۔۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں پہاڑوں پہ ٹھوکریں کھلواتی ہیں ۔۔۔ وہ جاندران پہاڑ کی چوٹیوں پہ اگنے والی لیموں ہے جہاں وہ چٹانوں کے سائے میں اگ کر بڑی ہو گئی ۔۔۔ ۔وہ تو آبدار بادلوں پہ شام کے وقت کی قوس قزح ہے ۔۔۔۔ چودھویں کا چاند ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر سے فروزاں ہوکر، اور آسمان پہ بلند ہو کر ہر سو چاندنی پھیلاتی ہے ۔۔۔ بارشوں کے بعد منظر اتنا حسین ہو جاتا ہے کہ اس سے سمو کی صورت یاد آجاتی ہے ۔۔۔۔ خوبصورت بدن پہ ریشمی لباس ہے ۔۔۔۔ اس کی صورت دور دراز سے آنے والے بادلوں بارشوں کی ہے ۔۔۔ گہری زلفوں کے جاد (پراندے) ہیں پتلی کمر تک، سمو تو صحت بخش پہاڑی درختوں کا میوہ ہے ۔۔۔۔
’’ سمو شراب بھرا جام ہے ، سموکوہِ زین پر پیپل کے درختوں میں سے ایک ہے ۔۔۔۔ سمو انار کا احمریں پھول ہے ، سمو پہاڑی ہرن ہے ، سمو اندھیروں میں چراغ ہے یا گِھر گِھر کر آنے والے بادلوں کی ایک بدلی ہے ۔۔۔۔ اس کی آنکھیں لال ، جیسے مہندی دی ہوئی ہوں اور جیسے رات کو ہلکے بادلوں میں بجلی چمکتی ہو ۔۔۔ پر خمار آنکھوں سے ایسی سرخی چھلکتی ہے کہ عاشق جل جاتے ہیں۔۔۔۔۔ تمہاری چال میٹھی ، ہنسی نقرئی ، تمہاری آواز جیسے صبح سویرے بجتاستار ۔۔۔۔ سینے پہ تاویت جیسے بجلی کی چمک تالیاں بجاتی ہو ۔۔۔ کونج جیسی گردن پہ خمیدہ طوق ، میری دوست کے سینے کی اترائیوں پہ تین تہوں والے تاویت لٹکتے ہیں ۔۔۔ ۔،اس کی ہنسی کتنی شیریں ہے ، آنکھ ایسی دلکش جیسے ہزار نوع کے سرمے لگا رکھے ہوں ۔۔۔ وہ نکلتی ہے اپنی شادی والے خیمے سے اور لال تاخ کی خوشبوئیں اس کا پیچھا کرتی آتی ہیں ۔۔۔۔وہ اتنی خوبصورت ہے جیسے لیموں کے میوے ہوں۔۔۔ ۔ اس کے دانت اس قدر خوبصورت ہیں گویا قطار میں برسنے والے سفید بادل ہوں ۔۔۔۔ میٹھے ہیں لب جیسے بھیڑ کا لذیز دودھ ۔۔۔، سینے کے دونوں پھول کاٹ ڈالتے ہیں ۔۔۔۔ سرخ خماری آنکھوں والی سمو حسین ترین سہیلیوں میں بھی لعل ہے ۔۔۔ ۔،سونے جیسے چہرے پہ کیا سجی ہوئی آنکھیں ہیں۔۔۔۔، ذرا سمو کی سی صورت کی کوئی دوسری عورت تو تلاش کر کے دکھاؤ ، ۔۔۔۔۔ وہ پیسوں میں چاندی ہے ، اشرفیوں میں سونا ہے ۔۔۔ اس کی چال کبوتروں کی ہے ، اس کی زلفوں سے لونگ اور عطر کی خوشبو آتی ہے ، وہ بال پیچھے باندھتی ہے ۔۔۔ سمو ،جیسے بارشوں کے موسم کی ہلکی ہوا میں پتے لرزتے ہوں ۔ اس کی شاخیں(زلفیں) زامر کے درخت کی شاخوں کی طرح لمبی لمبی زمین کی طرف لہراتی ہیں ۔۔۔۔، میری محبوبہ تازہ ہے، تازہ ترینوں میں سے تازہ ترین سے بھی زیادہ تازہ ۔۔۔۔
’’وہ میدانی ہرن ہے ۔۔۔ میں نے اسے علاقوں میں جھومتے دیکھا ہے ۔۔۔۔ تمہارے گھنے پراندے کے اوپر لگے ہوئے (زیور) سونے کے ہیں ۔۔۔۔ سمو تو ایک لعل ہے ، اس کی ساخت میں کہیں کوئی عیب کوئی بے ترتیبی نہیں ، سارا ٹیڑھا پن جیسے ماہر تیشہ گر نے نکال دیا ہو ، جیسے سارے بل (ماہر صناع نے ) نکال دیئے ہوں ۔۔۔۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ آنکھوں کے کنارے سرخ ہیں ، ناک ستواں ہے ، ابرو باہم ملے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ قربان جاؤں تمہاری نرم رفتاری پہ، شیریں قہقہوں پہ ، تمہاری خوشبوؤں پہ ، انہیں میرے بدن سے جدا نہ کر۔۔۔۔ دونوں ہاتھوں کی مُندریاں آگ کی طرح فروزاں رہتی ہیں۔۔۔ کشیدہ کی ہوئی قمیص کو جڑواں پستانوں نے اوپر تھام رکھا ہے ۔۔۔ وہ بلند و کٹھن چٹانوں پہ اُگا لونگ کا نازک پوداہے ۔ ایسی خوشبوئیں جیسے ھُمب کا پودا خوشبو دیتا ہو ۔ انہی خوشبوؤں نے تو میرے سینے کی قاتل چبھن کو ٹھنڈا کردیا اور میری آنکھوں کی تہوں سے پردے ہٹا دیے ۔۔۔۔ وہ تو شہنشاہی باغوں میں لیموں کا درخت ہے جس کی شاخیں اچھی ہیں اور رنگ و صورت مصری کی طرح میٹھی ہے ۔۔۔ سینے کے پھول (پستان) روح چھیننے والے ہیں ۔۔۔۔ اس کی پرخمار آنکھوں سے بجلیاں کوندتی ہیں ۔۔۔۔ وہ بہشت کے لیموؤں کی طرح لذیذ ہے ، وہ مکران کے آم اور انگوروں کی سی شیرین ہے ۔۔۔ وہ پری ہے یا عرشی فرشتہ ۔۔۔۔ تمہاری چال سلامت رہے ، حدیث جیسی گفتار سلامت رہے ، قہقہے سلامت رہیں۔ میں تمہاری چال کی خاطر کوہلو اور کاہان بخش دوں گا۔ میں تمہاری چال کی خاطر اپنی آنکھیں قربان کر دوں گا ۔۔۔
’’وہ جنگلی ہرن کی طرح دور بھاگتی ہے ، نو خیز مہریوں کی طرح تیز ہے ، مدھر دھن والی شہنائی جیسی آواز ، چندھیا دینے والی مہندی لگاتی ہے ۔۔۔ قریب المرگ مریضوں کو تندرست کرتی ہے ، اڑتے ہوئے پرندوں کو ہاتھ سے پکڑتی ہے ، پاگلوں مجنونوں کو صحت مند بناتی ہے ، ہوشمند کو پاگل بناتی ہے ۔ وحشی ہرنوں کو نرم رفتار بنا دیتی ہے ۔۔۔۔
ہم مست کے اشعار میں دی گئی سمو اور اس کے حسن وادا کی پوری تفصیل میں نہیں جا سکتے ۔ مست کی شاعری کے دیوان کے صرف ایک مصرعے کی ہلکی سی تشریح سے اندازہ ہو سکے گا کہ مست کتنا بڑا مفکر تھااور اپنی محبوبہ سے اس کی وابستگی کس قدر گہری تھی ۔آئیے دیکھتے ہیں:
سردیوں کے موسم میں ہم چھ آٹھ دوست کوئٹہ سے ڈیرہ بگٹی جاتے ہوئے رات کو جیکب آباد ٹھہرے ۔ اگلی صبح ڈیرہ بگٹی جاتے ہوئے ساڑھے دس بجے ہماری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔ سورج کی حدت سے جلائے ہوئے پتھروں اورپہاڑوں کے بیچ اس سرد موسم میں بھی اچھی خاصی گرمی لگ رہی تھی اور پروفیسر عبداللہ جان جمالدینی ، پروفیسر بہادر خان رودینی اور پروفیسر عبدالرحمن فکرؔ گاڑی کے سائے میں دبکے پناہ لئے ہوئے تھے ۔ سامنے زین کا رعب دار اور بڑا پہاڑ تھا۔ میں نے عبداللہ جان سے کہا کہ’’ ماما یہ تو سردیوں کا موسم ہے اِتنی گرمی لگ رہی ہے ، گرمیوں میں کیا حال ہو گا ؟۔ اور اگر جون جولائی میں جیکب آباد اور سبی سے ملحقہ اس گرم ترین علاقے میں آپ کو زین پہاڑ پر چار گھنٹے تک کی چڑھائی چڑھنی پڑے تو اندازہ کریں کیا حال ہو گا۔ اوپر چوٹی پر پہنچ کر اچانک پیپل کے بڑے بڑے سایہ دار درخت مل جائیں تو راحت کا پیمان کیا ہو گا ؟۔ اور اگر پیپل کے ان گھنے درختوں کے نیچے ٹھندے پانی کا چشمہ بہہ رہا ہو تو اس تھکے ہارے گرمی زدہ مسافر کی فرحت کاتصور کر سکتے ہیں آپ؟‘‘۔ تو ماما نے کہا کہ’’ یہ تو تم پریوں کے دیس کا سماں باندھ رہے ہو ‘‘۔ میں نے کہا کہ’’ مست نے اسی آتشیں کٹھن زین پہ ٹھنڈی شیریں ندی کے کنارے اگا ٹھنڈا سایہ دار پیپل، سمو کوکہا ہے۔

شیئر
سمو ژہ زینئے پلپلاں یکے
سمو ژہ درشکانی براں یکے
سمو یہ شیشہ اے شراوانی
سمو یہ سروانے تلارانی(1)
سمو یہ سُر پلّے انارانی
سمو یہ ڈیوائے تہارانی
یا جڑی بوٹی اے رغامانی(2)
ریٹویں چم گوں کاغذیں رکاں
تیزیں چو کنڈھی آں بہوخیناں
شریں چو قطار بستغیں نوذاں
وہشیں چومیشی شکلیں شیراں
سمو یہ ، ہنجیرے مزں تاخیں
رُستہ مں ارگونیں گروگٹاں
جکثہ درنگی ساسرے ساڑتیں
کوہ سرو کمبانی تڑا(3)رُستہ
ہندے ماں جے ھین ایں (4)گراں بیثہ
سر تئی ہچ گواثانہ چنڈینتہ
بڑزہ کنت ہونی رتکغیں چماں
شف گروخی گوں لاغریں شینکاں(5)
چم چوڈی او آں بلوخیناں
زلفے چو سیاہ ماراں تلوخیناں
سمو گوں چماں سُرخماریناں
(کہ) لالیں ژہ جیڈیاں ا ملیناں
ہنیثری(6)چوواسنگاں چھلوخیناں
ٹیلی (7)چوسرواناں ترہوخیناں
زواریں چو مہری آں رووخیناں
و جی چو شہنایاں دھمو خیناں(8)
لانٹہ کنت پرّایاں گروخیناں
جنت ہنّی آں شہم گروخیناں
دراہ کنت مرکھی (9)او مروخیناں
دستہ گیڑت بالی آں گزوخیناں
ہوشہ کنت بے ہوشاں گنوخیناں
ترند ہ کنت ریلی آں پھر وخیناں
آسکاں نرمہ کنت ترہوخیناں
ملغی ڈیل گوں ریشمی جراں
دروشماں دا چوتانہی نوذاں
چمے شراں گوں تنگویں دیما
بمبویں(10)جادگوں بارغیں سرینا
ترنداں(11) چو آمڑداثغیں(12) تیغا
(نیں)لاشکیں سمو گوں بز گلی مڑداں
بیثیں ژہ درگوشیں مہیری آں
ہندے بیثیں مں کور دفی بیٹاں
بیگھاں ترہ پولی کثے ہراں
رونگثے زڑدوآں سھاگیناں
دنز کثے تیرغ چڑتغیں بوراں
حاشیہ
1۔سل جیسی چٹان 2۔بادل 3۔ کنارے 4۔ بلند 5۔ پتلی لکیر جیسا بادل 6۔آواز سے سانس لینا 7۔بدک کر بھاگ جانا 8۔روانی سے بجنے والا 9۔قریب المرگ 10۔ موٹے موٹے 11۔تیز 12۔ آبدار (آگ میں سرخ کر کے یکدم پانی میں ڈال دینا)
ترجمہ
سمو کوہِ زین کے پیپل کے درختوں میں سے ایک ہے
اک میوہ درختوں کا ہے سمو
شیشی شراب کی ہے سمو
ہرنی چٹان کی ہے سمو
سرخ پھول انار کا ہے سمو
چراغ ظلمتوں کا ہے سمو
یا بادلوں میں سے ہے ایک ممتاز ٹکڑی
بڑی بڑی آنکھیں ، ہونٹ باریک کاغذی
تیز ہیں جیسے قاتل تلواریں
خوبصورت جیسے کہ قطاربندھی بارشیں
شیریں جیسے بھیڑوں کا لذیذ دودھ
سمو ہے انجیر کے بڑے پتوں والا شجر
اگا ہے جو نا قابل عبور بلند پہاڑوں پر
ہے جس پہ چٹان کی ابدی چھاؤں سایہ گُستر
ہے کوہساروں کے بیچ جھیلوں کے کنارے پھولی پلی
مسکن ہیں جس کا گھاٹیاں گہری
کوئی ہوا نہ جھنجھوڑ سکی شاخوں کی چوٹیاں تیری
اٹھاتی ہے (دعا کیلئے)خون میں رچی آنکھیں
تو جیسے ہلکے بادلوں سے رات کو بجلیاں جھانکیں
آنکھیں جلتی چراغ جیسی روشن
زلفیں لہراتے سانپ جیسی
سمو کی آنکھیں ہیں سرخ ،ہوں جیسے خمار میں
ممتاز ہے وہ انمول سہیلیوں کی قطار میں
اڑتے اژدھوں کی سی اس کی پھنکار
بھرتی ہے چوکڑیاں جیسے بدکی ہوئی غزال
تیز رفتار مہر یوں کی شتر سوار
آواز جیسے شہنائیوں کی جھنکار
چمکتی ہے لپکتی بجلیوں کی طرح
ہاتھوں میں جاذب حنا
قریب المرگ مریضوں کو بخشتی ہے شفا
پکڑتی ہے اڑتے پرندوں کو بڑھا کے ہاتھ
بخشتی ہے نادانوں کو ادراک
کرتی ہے آوارہ فقیروں کو تیزرفتار
بدکے ہوئے آہوؤں کو بناتی ہے نرم رفتار
ریشم میں ملبوس خوبصورت چال والا بدن
دور سے آئے ہوئے بادلوں سا حسن
سنہری آنکھیں چہرے پر ہیں سجتی
گھنے گیسو، کمر پتلی
آبدار تیغ کی سی چستی تیزی
نہیں جچتی سمو بکری والوں کے پاس
ماما کا حیرت سے چہرہ بدل گیا۔وہ گم سم ہوگیا ۔۔۔۔۔۔ اوربالآخراس نے صرف اتنا کہا کہ ’’ مست زین کوہ سے بھی بلند مرتبہ شاعرہے ‘‘۔

مست عظیم ہے کہ اُسے اس بات کا ادراک ہے کہ حسن تعریف کرنے والوں سے خوش ہوتا ہے ۔بلا شبہ حسن مقدار نہیں ، معیار ہوتا ہے ۔ حسن وہ دوشیزہ دیوی ہے جس کی پرستش ہمارے آباؤ اجداد کرتے آئے ہیں ۔
عشاق اپنی دوست کے حسن کی توصیف اپنے اپنے انداز میں کرتے چلے آئے ہیں ۔ ان میں کئی لوگ یہ کام بہت ہی فطری انداز میں بلا تصنع اور بے ساختہ کرتے ہیں ۔ اور،مست انہی عشاق و شعراء میں سے ایک ہے ۔ بلا کی بے ساختگی ہے اُس کے ہاں ۔ حسن کا اُس کا بیانیہ بہت ہی ڈائریکٹ ، واضح اور حتمی ہوتا ہے۔نقطہ نظر بہت سادہ۔ اُس کے تصورات فطری طور پر اس کے ارد گرد سے مطابقت رکھتے ہیں ۔مست تو خانہ بدوش زمانے کا عاشق و شاعر ہے۔ فطرت اور فطری حسن ،اور ساد گی ہی اس کے سکون کو قتل کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں ۔
مست بلوچی الفاظ استعمال کرتا ہے ، اس کے امثال ، ضرب الامثال ، استعارے ، تشبیہات ، سب بلوچی زبان اور بلوچی سماج کے وسیع خزینے کے موتی ہیں ۔۔۔حسن اور بلوچی ہم معنی، ہم جولی اور ہمسفر۔ بلوچی سادہ ، بلوچی فطرت کے قریب ، بلوچی سچی ، بلوچی بھاری ، بلوچی معزز، بلوچی شیریں ، بلوچی موسیقیت ، بلوچی شہد وشیر ، بلوچی عمیق ۔۔۔ بلوچی بہت بڑی زبان ہے ۔اس بڑی زبان کے لئے شایانِ شان تھا مست ،اور شایان شان تھی دوستِ مست۔اور شایانِ شان تھی حسنِ دوستِ مست

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*