کوئل جو کُوکی رات کو
بیدار مُجھ کو کر گئی
باد از مُلیبار آ چلی
دل کو کوئی یاد آگیا
بابُل کی بھیڑوں کی قطار
ہے دُھند سُوئے آسماں
آئی فقیروں کی صدا
تھا پیشتر میرا مرید
ڈاڈر کی گلیاں پھانکتا
ماضی کی یادیں ہانکتا
میری نظر جب مِل گئی
مخمور آنکھیں جھڑ پڑیں
میں بے خودی میں اُٹھ گئی
دیوانگی میں بھاگتی
سر نوچتی اُس کی طرف
اُس کی کلائی تھام لی
گردن جو موڑی شاہ نے
میری طرف ‘ گویا ہوا
حانی مجھے مت یاد آ
میری ہتھیلی کُھل گئی
آنکھوں سے دریا بہہ چلا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے