غزل

نہ اٹھائو پیڑ سے روشنی ، نہ جھکائو شام کی بدلیاں
ابھی ان فضائوں میں تیرتی ہیں گداز لہجے کی تتلیاں

یہ گئے دنوں کی ہے داستاں کہ ستارے کھلتے تھے جھیل میں
کسی شاہزادے کی راہ میں کھڑی خواب بُنتی تھیں لڑکیاں

وہ عجیب شہرِ خیال تھا نہ ہوا چلی نہ گھٹا بڑھی
یونہی جُھک رہی تھیں وہ ڈالیاں یونہی بج رہی تھیں وہ کھڑکیاں

چلو ان ہوائوں میں جا کریں چلو بادلوں پہ ملا کریں
یہ نئی زمیں کے اصول ہیں کہیں فاصلے کہیں دوریاں

وہ سُلگتے نین بھرے بھرے
وہ سوال کرتی ہوئی نظر
مجھے یاد آئی تھیں پانیوں پہ سنبھلتی ، ڈولتی کشتیاں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*