’نوری جام تماچی‘: عجز و نیاز کا استعارہ

شاہ عبداللطیف بھٹائی بنیادی طور پر صوفی شاعر ہیں اور شیخ ایاز کے الفاظ میں تصوف پرست ہیں۔ صوفی شاعر ذات سے کائنات تک ہر شے میں اپنے محبوبِ حقیقی کو موجود پاتا ہے۔ عشق کے اِن مدارج کو لکھنے کے لیے شاہ نے اُن کرداروں کی تمثیل گری کی ہے جو عشقیہ داستانوں میں لازوال قرار پائے ہیں۔ اُن کے اوصاف اور راہِ شوق میں جھیلی گئی کٹھنائیوں کو رہنما بنا کر اُنھوں نے عشقِ حقیقی کے مقامات کو اُجاگر کیا ہے۔ یہی تمثیل گری شاہ کی شاعری کا بنیادی اور باکمال وصف ہے۔ ان کے ذریعے شاہ نے سچے عاشق کے ظاہر و باطن دونوں کو آشکار کیا ہے۔ ان داستانوں میں نوری جام تماچی کی داستان جو ’’سُر کاموڈ‘‘ میں منظوم کی گئی ہے۔ عشق کے سچے جذبے کی وسعت و سادگیِ بیان میں دیگر داستانوں سے قدرے مختلف اور مختصر ہے جو یہ بتاتی ہے کہ راہِ عشق پر چلنے والے مادّی و دنیاوی دولت اور رکھ رکھائو سے مرعوب نہیں ہوتے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو ہر طرح کی طبقاتی تفریق سے بالاتر ہوتا ہے، اس میں ظاہری حسن کی علامت پسِ پشت رہ جاتی ہے اور وہ خوبیاں جو باطن میں ہوتی ہیں، سامنے آجاتی ہیں۔ نوری جو کینجھر جھیل کے کنارے بسنے والے مچھیروں کی لڑکی ہے، اُسے سُمّہ خاندان کا مشہور حاکم جام تماچی نہ صرف پسند کرتا ہے بلکہ اُس سے باقاعدہ بیاہ رچاتا ہے۔ نوری محل کی رانی بننے کے باوجود اپنے لوگوں اور اپنی سادگی سے بے نیاز نہیں ہوتی اور جب دوسری رانیاں بن سنور کر اپنی چھب دکھاتی ہیں تو نوری اپنے اُسی مچھیرن والے انداز میں سامنے آتی ہے جس میں اُسے پہلی بار جام تماچی نے دیکھا تھا۔ اس طرح وہ سادگی اور عجز کا ایسا استعارہ بن جاتی ہے، جس کی بے نیازی اُس کے طالب کو پسند آتی ہے۔
پوری داستان بڑی سادگی سے بیان کی گئی ہے جس میں ملّاحوں کے غریبانہ ماحول اور بود و باش کے ساتھ اُن کی پیشہ ورانہ سختیاں اور اُن پر محصول کی ادائیگی کا بوجھ بھی بیان کردیا گیا ہے۔ ایسے ماحول سے راج محل میں آنے والی نوری اپنے لوگوں اور اپنی اصل سے جدا نہیں ہوتی۔ نوری ایک واسطہ بن جاتی ہے، تماچی اور اُن غریب ملّاحوں کے بیچ، جن کو کم تر سمجھا جاتا تھا اور اس لیے بھی دُور رکھا جاتا تھا کہ اُن میں مچھلیوں کی بُو بسی ہوتی تھی اور کیچڑ سے آلودہ ہوتے تھے۔ مگر اُنھی کی بیٹی اپنی ظاہری اور باطنی دونوں حسن کی وجہ سے جام تماچی کی ایسی منظورِ نظر رانی بن جاتی ہے جسے دیگر رانیاں اپنے بنائو سنگھار اور جاہ و حشم کے باوجود کم تر نہیں کرسکتیں۔ واضح رہے کہ رنگ، نسل، مذہب، زبان اور دیگر تمام تر تعصبات میں غربت قدیم ترین تعصب ہے جس نے طبقاتی نظام کو مستحکم کیا اور امرا و حاکم کو تسلط کا اختیار دیا۔
نوری جام تماچی بظاہر ایک ایسی ہی داستان ہے جس میں راجا مچھیرن پر عاشق ہوکر اُس کے پورے طبقے پر مہربان ہوجاتا ہے مگر اس کے پس منظر میں شاہ کا وہی شعری رویہ ہے جس میں عام آدمی خصوصاً عورت کو سماج میں کم زور پیش نہیں کیا، بلکہ اُن کو انسانیت کے وقار کے ساتھ لکھا گیا ہے جہاں انسان طبقاتی تفریق سے بالاتر ہے۔
جیساکہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ شاہ لطیف کی شاعری عاشقوں کی تعریف و توصیف سے معمور ہے۔ شاہ نے محبت کرنے والوں سے عشق کیا ہے اور عشقِ مجازی کو عشقِ حقیقی کا آغاز جانا ہے۔ ’’سُر کاموڈ‘‘ اس کی بڑی مثال ہے جسے اِن اشعار میں محسوس کیا جاسکتا ہے:
تماچی جام اور تیری حضوری
یہ کیا اعجاز ہے اے چشمِ نوری
رہی باقی نہ کوئی حدِّ فاصل
مٹا دی عشق نے ہر ایک دُوری
شاہ لطیف کی شاعری میں عام انسانوں کی زندگی کے تجربات اور وہ جذبات جو عموماً پہلے نہیں لکھے گئے، عمیق مشاہدے کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ ’’سُر کاموڈ‘‘ میں ملّاحوں اور مچھیروں کی تصویرکشی دیکھیے:
فقط یہ مچھلیاں ہیں ان کی دولت
غریب و ناتواں ہیں یہ مچھیرے
مگر یہ فخر بھی کیا کم ہے ان کو
کہ اب ہیں حاشیہ بردار تیرے
——
یہ اُن کے جال اور یہ کشتیاں ہیں
یہ اُن کے ٹوکرے اور مچھلیاں ہیں
سحر کو تیرے در کی پیشیاں ہیں
پھر اُس کے بعد ماہی گیریاں ہیں
خدا جانے ’تماچی جام‘ پیارے
تجھے اب ہم سے کیوں دلچسپیاں ہیں
——
یہ اُن کی ’کھاریاں‘ اور ’چھاج‘ توبہ
کہ بدبو مچھلیوں کی جن سے آئے
پڑے رہتے ہیں اس پانی میں وہ بھی
سگِ آبی جہاں غوطے لگائے
جو رہتے ہیں ہمیشہ ’باندھیوں‘ پر
تعجب ہے اُنھیں دل میں بسائے
نہ صورت اُن کی اچھی ہے نہ سیرت
نہ جانے کیوں وہ اُن کے ناز اُٹھائے
شاہ لطیف کی داستانوں میں عورت کو اُن کے اوصاف کی بِنا پر فوقیت دی گئی ہے۔ شاہ نے عورت کو اُس کے پورے وقار اور انسانی روپ میں لکھا ہے۔ عورت جسے عام رویوں میں جذبات، احساسات فکر و شعور سے عاری ایسی مخلوق سمجھا جاتا رہا ہے جسے سماج کے بندھے بندھائے اُصول کے مطابق میکانکی زندگی گزارنی ہے۔ شاہ نے اُس عورت کو مکمل انسان کے روپ میں اُس کے جذبوں اور عملی جدوجہد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ سسّی ہو کہ سوہنی، نوری ہے کہ لِیلا، شاہ کی شاعری میں دوسرے شعرا کی طرح اُس کے جسم کا بیان نہیں ہوا ہے۔ اُنھوں نے اُس کے جذبات، احساسات، ذہانت، ہمت اور سچائی کی متاثر کن تصویرکشی کی ہے۔ اُن کی داستانوں میں ہیرو مرد نہیں، عورتیں ہیں۔ ان عورتوں کے اوصاف کے بیان میں شاہ لطیف نے کہیں اُن کے جذبے کی گہرائیوں کو، کہیں اُن کی وفا و جرأت کو، کہیں سچائی کو تو کہیں قناعت کو اُجاگر کیا ہے۔ عشق میں راسخ ہونا ان خواتین کرداروں کا بنیادی وصف ہے۔ شاہ کے دل میں عاشق کی قدر و منزلت ہے کہ اُس کی محبت ظاہر کی درجہ بندیوں سے ماورا ہوتی ہے اور اُس کے دل کی شفافیت باطن تک رسائی حاصل کرلیتی ہے۔ ’’سُرکاموڈ‘‘ میں نوری ایک ایسا ہی کردار ہے جو اپنے اوصاف و کردار میں خودشناس اور مستحکم ہے۔ ’نوری جام تماچی‘ کے بیان میں جام تماچی کی وفا کی وجہ نوری کی سادگی اور بے نیازی ہے جس سے وہ دولت اور رُتبہ پانے کے باوجود کنارہ کشی اختیار نہیں کرتی اور اپنے ان اوصاف کی بنا پر وہ دیگر رانیوں پر برتری حاصل کرلیتی ہے۔
شاہ لطیف کی شاعری کی اک نمایاں خوبی منظر نگاری ہے جس میں اُن کے باریک بیں مشاہدے اور اعلیٰ جمالیات دونوں کی واضح جھلک ہوتی ہے۔ ’’سُر کاموڈ‘‘ میں منظر نگاری کے دونوں رُخ ہیں؛ ایک طرف جمالیات ہے تو دوسری طرف مچھیروں کی غربت کے نظارے ہیں۔ مگر جب وہ ان نظاروں سے حسنِ فطرت کے بیان کی طرف آتے ہیں تو اُن کی جمالیات کو پوری طرح محسوس کیا جاسکتا ہے:
بہار آتے ہی پھر بادِ شمالی
سراپا مشک بُو ہونے لگی ہے
درختوں کے گھنے سایوں میں پیارے
یہ کنجھر ایک گہوارہ بنی ہے
میں تیرے ساتھ ہوں آبِ رواں پر
میسر اب مجھے ہر اک خوشی ہے
کنول کے تیرتے پھولوں کی سج دھج
نگاہوں میں سمائی جا رہی ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شاید
محبت مدعاے زندگی ہے
اور یہ مصرع ’’محبت مدعاے زندگی ہے‘‘ شاہ لطیف بھٹائی کا اصل پیغام ہے۔
’’سُر کاموڈ‘‘ کے لیے شیخ ایاز نے لکھا ہے:
’’اس مشہور راگنی کا تعلق دیپک راگ سے بتایا جاتا ہے۔ تمثیلی طور پر اس سُر میں نوری مطلوب اور جام تماچی طالب ہے۔ لیکن طالب و مطلوب کے رشتے کو شاہ نے کچھ اس طرح پیش کیا ہے جیسے مطلوب وہ عاجز و ناچیز انسان ہے جسے خودشاسی کا ادراکِ کامل حاصل ہو۔ اور طالب وہ خالقِ حقیقی ہے جو بہت سی خوبیوں کو دیکھتے ہوئے مخلوق کی اُن خامیوں کو نظرانداز کردے جو اُس کی سرشت میں موجود ہیں۔‘‘
اس اقتباس کی روشنی میں مندرجہ ذیل اشعار دیکھیے:
تماچی گندریوں پر مہرباں ہے
تماچی کارسازِ بے کساں ہے
تماچی بے نیازِ جسم و جاں ہے
تماچی حاصلِ صد آستاں ہے
تماچی ہی تماچی جاوداں ہے
تماچی محرمِ کون و مکاں ہے
یہ ’محرمِ کون و مکاں‘ کون ہے؟ اس پر غور کیجیے اور راہِ طلب میں اعلیٰ اوصاف کو وہ زادِ راہ جانیے جن کے بغیر عشق کے مدارج طے نہیں ہوسکتے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*